میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب زندگی کے
کسی معاملے میں جب ہم ناکام ہو جاتے تو سارا قصور اپنی قسمت کو ٹھرادیتے
ہیں اور جب مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تب بھی یہ ہی کہتے ہیں ہماری تو
قسمت ہی خراب ہے لیکن تنہائی میں بیٹھ کر کبھی سوچیں کہ آخر ہماری ناکامی
کے اسباب کیا ہیں اور کامیابی کے راز کیا ہیں کامیابی اور ناکامی دو طرح کی
ہوتی ہیں ایک اس عارضی دنیاکی عارضی کامیابی اور عارضی ناکامی جبکہ دوسری
آخرت کی کامیابی اور آخرت کی ناکامی آج کی اس تحریر میں ہم یہ دیکھیں گے کہ
ناکامی کے اسباب کیا ہیں اور کامیابی کے راز کیا ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ شرعی اعتبار
سے کامیابی کا انحصار کن عوامل پر منحصر ہے اور یہ راز ایسی کن جگہوں پر
موجود ہے جہاں ہمیں یا تو نظر نہیں آتے یا ہم دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے
تاریخ اسلام میں ایک صوفی اور درویش بزرگ کا ذکر ہمیں کثرت سے ملتا ہے جو
بغداد اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے تھے اور لوگ
انہیں حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتے ہیں اکثر وبیشتر
لوگ انہیں دیکھتے کہ وہ قبرستان میں بیٹھے ہوتے اور وہاں گھنٹوں بیٹھے رہتے
تھے لوگوں نے پوچھا کہ آپ علیہ الرحمہ قبرستان میں کیوں بیٹھے رہتے ہیں تو
ان کے جواب میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں کامیابی کے راز
موجود ہیں بس فرق اتنا ہے کہ ہمیں انہیں بغور پڑھنا ، سمجھنا اور اس عمل
کرنا ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا
کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوں جن سے مجھے اور
جن کو مجھ سے کوئی تکلیف نہیں ہے یہ لوگ نہ تو مجھ پر کوئی الزام لگاتے ہیں
اور نہ ہی مجھ سے کوئی حسد کرتے ہیں یہ لوگ نہ تو جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی
مجھے کوئی طعنہ دیتے ہیں جبکہ یہ لوگ خیانت بھی نہیں کرتے اور سب سے بڑی
بات یہ ہے کہ جب میں یہاں سے اٹھ کر چلا جاتا ہوں تو پیٹھ پیچھے میری غیبت
بھی نہیں کرتے اب بھلا بتائو کہ کیا شہروں میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ایسے
لوگ ہوں ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ کی ان
باتوں پر غور کریں تو ہمیں دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز صاف نظر آتا ہے
بس ہمیں ان باتوں کو اپنی اس عارضی دنیاوی زندگی میں اپنانا ہوگا یعنی آپ
علیہ الرحمہ نے قبرستان میں موجود قبر کے مرحومین کے بارے میں جو کچھ کہا
وہ سارے معاملات ہم اس زندگی میں اپنا لیں تو ہمیں اس دنیاوی زندگی میں بھی
اور آخرت کی زندگی میں بھی کامیابی مل سکتی ہے اور ایسا کرنے سے ہماری
ہمیشہ قائم رہنے والی آخرت کی زندگی بھی سنور جائے گی کیونکہ جن جن باتوں
کا ذکر حضرت بہلول دانا نے قبر میں موجود قبر والوں کے بارے میں بتائی وہ
ساری برائیاں ہم لوگوں میں عام ہیں آج نہی تو کل ہمیں بھی اس جگہ پر جانا
ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہم وہاں کامیاب ہوکر جائیں یعنی جب تک زندگی کی
ڈوری ہماری ساتھ بندھی ہوئی ہے تب تک ان ساری بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل
کرلیں اور حقیقی کامیابی کے ساتھ قبر میں جائیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے آج کے معاشرے میں بھی کئی خوش قسمت
لوگ ایسے ہیں جو زندگی میں کامیابی کے حصول کے لئے اپنی زندگی گزارنے کے
کچھ اصول بنالیتے ہیں اور ان اصولوں کو ہی اپنی زندگی میں ملنے والی
کامیابی کا اصل مانتے ہیں آئیے کامیابی کے اس راز کو ہم ایک عورت کے اس
واقعہ کی مدد سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ایک عورت کی یہ عادت تھی کہ رات
سونے سے پہلے وہ کاغذ پر پورے دن میں ملنے والی خوشیوں کو لکھ لیا کرتی تھی
جیسے ایک رات اس نے لکھا کہ میرا شوہر رات بھر زور زور سے خراٹے لیتا ہے
میں خوش ہوتی ہوں کہ وہ زندہ ہے اور میرے پاس ہے اس بات پر میں اپنے رب
تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں وہ لکھتی ہے کہ میرا بیٹا صبح زور زور سے چیختا
ہے کہ رات بھر مچھر اور کھٹمل مجھے سونے نہیں دیتے تو میں نے سوچا کہ اس کا
مطلب ہے میرا بیٹا رات گھر پر ہی تھا باہر آوارہ گردی نہیں کررہا تھا میں
خوش ہوتی ہوں اس بات پر میں اپنے خدا کا شکر ادا کرتی ہوں وہ لکھتی ہے کہ
ہر مہینہ مجھے بجلی ، گیس اور پانی کے بل میں ایکسٹرا ٹیکس بھرنا پڑتا ہے
لہذہ زندگی کی یہ ساری ضروریات نعمت خداوندی کی شکل میں میرے پاس موجود ہیں
اگر یہ سب سہولتیں نہ ہوں تو زندگی میں کتنی مشکلات ہوں جائیں اس بات پر
بھی میں رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں وہ لکھتی ہے کہ رات ہوتے ہی دن بھر
کی تھکن کی وجہ سے برا حال ہوجاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے
دن بھر کام کرنے کی صلاحیت دی ہے میں اس بات پر اس رب تعالی کا شکر ادا
کرتی ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ لکھتی ہے کہ میں خوش ہوں کہ مجھے اپنے
گھر کی جھاڑو پوچے خود کرنے پڑتے ہیں اور صفائی بھی کیونکہ اللہ نے مجھے
گھر جیسی نعمت دی ہیں جن کے پاس اپنا گھر نہیں ان کا کیا حال ہوگا اس بات
پر میں اپنے رب کا شکر ادا کرتی ہوں وہ لکھتی ہے کہ کبھی کبھی میں بیمار
بھی ہوجاتی ہوں پھر سوچتی ہوں کہ جس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر میں صحت مند
رہتی ہوں اس بات پر خوش ہوں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتی ہوں وہ لکھتی ہے
کہ ہر سال عید پر اپنے عزیز واقارب اور گھروالوں کو عیدی دیتے دیتے میرا
پرس خالی ہوجاتا میں خوش ہوں کہ وہ سب میرے ساتھ ہیں اگر وہ لوگ نہ ہوتے تو
زندگی کتنی بیرونق ہوتی اس لئے میں اپنے رب کا شکر ادا کرتی ہوں وہ لکھتی
ہے کہ ہر روز میری آنکھ اپنے وقت پر کھلتی ہے میں خوش ہوں کہ میرا رب مجھے
پھر ایک نئی صبح کا سورج دکھاکر مجھے نیا دن فراہم کرتا ہے اس لئے اس بات
پر میں اپنے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب آپ اندازہ لگائیں کہ ایک عورت کی ان
تمام باتوں پر اس نے اپنے رب تعالیٰ کا شکر کتنی مرتبہ ادا کیا اگر ہم غور
کریں تو زندگی میں ملنے والی ہر نعمت پر اپنے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے
میں کامیابی کا کتنا بڑا اور گہرا راز چھپا ہوا ہے اس مختصر مگر خوبصورت
واقعہ سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اچھا پیسہ کماکر ایک دولت مند انسان
کے روپ میں اپنے آپ کو ایک کامیاب انسان ماننا صرف دنیاوی خوشی کا باعث ہے
اور یہ وقتی ہے اور دنیاوی کامیابی ہےجبکہ اللہ تعالٰی کے احکامات پر عمل
کرکے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا انسان بننا آخرت کی کامیابی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم جب بھی کسی پریشانی یا مصیبت کا شکار
ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے کہنا شروع کردیتے ہیں کہ یار آج کل بہت پریشانی
میں ہوں دعا کرنا فلاں بیماری کا شکار ہوں دعا کرنا لیکن اگر ہم یہ بات چند
آنسو بہا کر اپنے رب تعالیٰ کے سامنے عرض کردیں تو ہمارا رب خوش بھی ہوگا
اور ہمارے مسائل بھی آسانی کے ساتھ حل ہو جائیں گے شرط یقین ہے کیونکہ اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے " مانگو مجھ سے میں ہی دینے والا ہوں"اور جب کوئی انسان
دوسرے انسان کی غلامی یا نوکری چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی نوکری کرلیتا ہے تو
اللہ تعالیٰ اسے کس طرح نوازتا ہے دیکھئے اور پڑھئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بادشاہ تھا اس کا وزیر انتہائی دیندار
اور عقلمند تھا لیکن باشاہ کے حکم اور اس کی خدمت کی وجہ سے وہ وقت پر اپنے
رب کی عبادت کرنے سے قاصر رہتا تھا ایک دن وہ ان معاملات سے تنگ آکر نوکری
چھوڑ گیا اور اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہوگیا ایک دن کسی بات کی وجہ
سے بادشاہ کو اپنے وزیر کی یاد آئی اس نے سوچا کہ کیوں نہ جاکر اس کی خبر
لی جائے کہ آخر وہ کس حال میں ہے بس یہ سوچ کر بادشاہ اپنے وزیر کی خیریت
دریافت کرنے اس کے پاس پہنچ گیا اور اس سے پوچھا کہ آخر تمہیں میرے پاس کیا
تکلیف تھی اور تم نے نوکری کیوں چھوڑی ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وزیر نے بادشاہ کے سوال پر عرض کیا کہ پانچ
باتوں کی وجہ سے میں نے یہ شاہی نوکری چھوڑی ہے تو بادشاہ نے کہا وہ کیا
ہیں مجھے بھی تو پتہ چلے؟ تو وزیر نے عرض کیا کہ پہلی وجہ یہ تھی کہ میں
سارا سارا دن آپ کی خدمت میں کھڑا رہتا تھا اور آپ بڑے مزے سے سوئے رہتے
تھے لیکن اب میں نے جب سے اپنے رب کی نوکری کی ہے تو وہ مجھے کھڑا بھی
رکھتا ہے تو ایک وقت کے لئے اور نماز میں اس نے مجھے بیٹھنے کا بھی حکم دیا
ہے اس نے کہا کہ دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ کھانا کھاتے رہتے تھے اور میں آپ
کو دیکھتا رہتا تھا جبکہ اب میرا رب تعالی جو ایسا رازق ہے کہ مجھے کھلاتا
رہتا ہے جبکہ خود کھانے سے پاک ہے وزیر نے تیسری وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں
سارا دن آپ کا پہرہ دیتا رہتا تھا جبکہ آپ سوتے رہتے تھے اور اب میرا رب
میری نگہبانی کرتا ہے اور میں سکون کی نیند سوتا رہتا ہوں چوتھی وجہ بتاتے
ہوئے وزیر نے کہا کہ مجھے ڈر تھا کہ اگر میری موجودگی میں آپ کا انتقال
ہوجائے تو آپ کے دشمن مجھے تکلیف دیں گے جبکہ اب میں بیخوف ہوں کیونکہ اب
میں جس رب تعالی کی خدمت میں ہوں وہ میرا رب ہمیشہ رہنے والا ہے پانچویں
اور آخری وجہ بتاتے ہوئے وزیر نے کہا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے تو
آپ مجھے کبھی معاف نہیں کرتے مجھے کبھی بخشتے نہیں جبکہ اب میرا رب تعالیٰ
اتنا رحمدل ہے کہ میں دن میں سو مرتبہ بھی گناہ کروں تو ایک دفعہ کی توبہ
سے وہ مجھے معاف کردیتا ہے بخش دیتا ہے ۔ اب دیکھیں وزیر نے اپنی عقلمندی
اور آخرت کی کامیابی کے حصول کی خاطر بادشاہ کی نوکری چھوڑ کر اپنے رب
تعالیٰ کی نوکری کی تو اسے کتنی بڑی کامیابی ملی یہ ہمیں اس چھوٹے سے مگر
گہرے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے اور یہ ہی ہے اصل شرعی کامیابی جو ہمیشہ قائم
رہنے والی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ترقی یہ نہیں کہ ہم اپنے لوگوں کو قربان
کرکے اپنے ناجائز اقائوں کو خوش کرکے ان سے امداد کی رقم وصول کریں بلکہ
ترقی یہ ہے کہ ہم اپنے کشکول توڑ کر اپنے بل بوتے پر اپنے معاملات کو حل
کریں اور کسی کی غلامی کو قبول کرنے کی بجائے صرف اپنے رب تعالیٰ کی غلامی
کو قبول کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود کرنا سیکھیں اور دنیا میں رہتے ہوئے اعلی
تعلیم کے ذریعے بڑی بڑی ڈگری لیکر ایک مقام بنا کر اپنے آپ کو کامیاب
سمجھنا کامیابی نہیں ہے کیونکہ یہ کامیابی عارضی ہے جبکہ حقیقی کامیابی کا
انحصار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کے حبیب
کریمﷺ کی باتوں پر عمل کرنے میں ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور غور
سے دیکھیں تو ہمیں اپنی ناکامی کے اسباب صاف دکھائی دیں گے بس شرط ہے اسے
ان نظروں سے دیکھا جائے کیا ہم نے غور کیا ہے کہ نیم کے درخت جو کڑوے ہوتے
ہیں وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ہمارے گھروں میں ہماری
زبانوں میں کڑواہٹ بڑھ رہی ہے کیا کبھی غور کیا کہ ہماری زبان میں مٹھاس کم
ہورہی ہے لیکن ہمارے جسم میں شوگر جیسی مہلک بیماری بڑھ رہی ہے کبھی غور
کیا کہ شادی ہال میں عورتیں نیم عریاں لباس میں نامحرم مردوں کا سامنے گھوم
رہی ہوتی ہیں جبکہ وہاں پر موجود کرسیوں کو بہترین غلافوں میں ڈھانپا ہوا
ہوتا ہے کبھی غور کیا کہ دنیا میں موجود برے حالات کی وجہ مولویوں کو بتایا
جاتا ہے جبکہ اگر کسی خوشی یا غم میں کوئی مولوی نہ ملے تو جان پر بن آتی
ہے اب بتائیے کیا ہم کامیابی کے حقدار ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی میں ناکامی کے کئی اسباب ایسے ہیں جن
کے اندر ہی کامیابی کے راز بھی موجود ہیں اس بات کا اندازہ ہمیں شیخ سعدی
علیہ الرحمہ کی اس حکایت سے ملتا ہے کہ ایک بوڑھی عورت نے اپنی تنہائی دور
کرنے کے لئے ایک بلی پالی وہ روزانہ بلی کو چھیچڑے ڈالتی لیکن وہ اس بلی کو
کم لگتے اور وہ خوب پیٹ بھر کر کھانا چاہتی تھی ایک دن موقع دیکھ کر وہ بلی
زیادہ کھانے کی حرص میں ایک بہت عالیشان بنگلے میں گھس گئی جو ایک رئیس
آدمی کا تھا اور وہ بہت ظالم انسان تھا اس کی نظر جیسے ہی بلی پر پڑی تو اس
نے ڈنڈا اٹھایا اور بلی کو مارنا شروع ہوگیا بلی بڑی مشکل سے جان بچا کر
وہاں سے بھاگی اور واپس اپنی مالکن کے پاس آگئی وہ بہت زخمی حالت میں تھی
اور اس کے جسم سے جگہ جگہ سے خون نکل رہا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ کے بعد بلی نے اس گھر سے کبھی
اپنا قدم باہر نہیں نکالا اور اپنے مالکن سے اسے جو ملتا اس پر قناعت کرکے
اپنی زندگی گزارنے لگی شیخ سعدی علیہ الرحمہ کی اس حکایت سے یہ معلوم ہوتا
ہے کہ اگر انسان بھی اپنی حرص کم کرلے اور اپنے ضروریات کو محدود کرلے تو
بڑی بڑی مصیبتوں سے بچ جاتا ہے اور ہر معاملہ میں اسے صرف کامیابی ہی ملے
گی ناکامی کا سامنا اسے کرنا ہی نہیں پڑے گا اس لئے کہا گیا کہ " قناعت
آرام کی کنجی ہے " اگر انسان قناعت کا دامن اپنے ہاتھ میں تھام لے تو چند
ضروری چیزوں سے ہی اپنی گزراوقات کرسکتا ہے ورنہ دنیا کی ہر آسائش بھی اسے
مطمعن نہیں کرسکتی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر دنیاوی عارضی زندگی میں کامیابی چاہتے
ہو اور اس کے وسیلے سے ہمیشہ قائم رہنے والی اخرت کی زندگی میں کامیاب ہونا
چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجائو اور اس رب تعالی کے قرب کے حصول کے
لئے اس کے حبیب کریمﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا شروع کردو آپ صلی اللہ علیہ
وآلیہ وسلم کی باتوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی
زندگیوں کا مطالعہ کرو ان کی زندگیوں تک پہنچنے کے لئے اولیاء کرام کا دامن
تھام لو جو آپ کو سلسلہ بسلسلہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے اور اس کا قرب حاصل
کرنے میں آپ کی رہنمائی کریں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس رب تعالی کی بارگاہ میں صدق دل سے اپنے
گناہوں سے توبہ طلب کرنا اپنی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ بہا کر اس رب تعالی
کو نزرانے کے طور پر پیش کرنا رب تعالی کو بہت پسند ہے جیسے ایک دفعہ ایک
شخص مسجد میں ہاتھ اٹھائے اپنے رب سے دعا مانگ رہا تھا وہ گڑگڑا رہا تھا اس
کے آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے چہرے سے ہوتے ہوئے اس کی پوری داڑھی
کو گیلا کررہے تھے یہاں تک کہ فرشتہ کو رحم آگیا اور اس نے رب تعالی سے عرض
کیا کہ یا رب یہ شخص اتنا زاروقطار رو رہا ہے اب تو اس کی فریاد سن لے اس
کی دعا قبول کرلے تو رب تعالیٰ نے فرمایا کہ " اس کی دعا تو میں کب کی قبول
کر چکا ہوں لیکن اس کا رونا اس کا آنسو بہانا مجھے اچھا لگ رہا ہے " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ مظبوط کرلیں پھر
دیکھیں ہماری دنیا اور آخرت کیسے سنورتی ہے اگر اس تحریر کے ذریعے ہمیں کچھ
سیکھنے کو ملا ہے تو انہیں ذہن نشین کرتے ہوئے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں
تو ان شاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب ہم نہ صرف حقیقی ترقی کی طرف تیزی سے
گامزن ہوں گے بلکہ ایک حقیقی کامیابی کے ذریعے ہم اپنے رب تعالیٰ کا قرب
حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے ان شاءاللہ ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے
کہ ہمیں اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقی
کامیابی نصیب فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم
۔
|