شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ جس وقت راندہ درگاہ ہوا تو
اس نے کہا کہ میں انسانوں کو گمراہ کروں گا۔ تب سے آج تک یہ مکر و فریب ،
جھوٹ، فتنہ، فساد برپا کرنے کے درپے ہے۔ یہ بات بھی بخوبی جانتا ہے کہ
اچھائی انسان کے اندر کہیں نا کہیں موجود ہوتی ہے چاہے وہ کتنا ہی برا کیوں
نا ہو۔ اب اس نے اپنے کام کو بھی نپٹانا ہے تو یہ طرح طرح کے حیلے بہانے
کرکے غلط کاموں کو اچھا بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے جسے دیکھ کے عام
فہم آدمی اسے اچھائی سمجھ کر کرنے لگتا ہے اور نتیجہ نہایت بھیانک نکلتا ہے
وہ معاشرے سے بھی جاتا ہے اور دین سے بھی۔ اس بات کو مزید بہتر جاننے کی
کوشش کرتے ہوئے چند ایک پہلو سامنے رکھ رہا ہوں۔
جھوٹ بولنا نہایت نا پسندیدہ ہے ۔ اس کے باوجود طرح طرح کی شاندار پیکنگ
کرکے جھوٹ کوعام کیا جارہا ہے۔ بینکاری سسٹم ہو یا آن لائن کاروبار۔ منڈی
کی فروخت ہو یا عام دکان کی۔ مسجد کا منبر ہو یا انصاف کی عدالتیں، دینی
مدرسہ ہو یا جدید یونیورسٹی جھوٹ کسی نا کسی روپ میں پروان چڑھ رہا ہے وہ
بھی اچھی پیکنگ یعنی بناؤ سنگھار کے ساتھ۔ ۔ صحیح مسلم کی روایت ہے انسان
کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات پر یقین کر لے۔ ٹی وی
دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے قیمتی اور جدید ریسرچ والی اشیاء
صرف ہم ہی بنا رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خود کو مذہبی کہلانے
والے لوگوں کی بچیاں شوبز کی رنگین دنیا میں اپنا نام کما رہی ہیں۔ میرا
چینل سبسکرائب کریں اور گھنٹی کا بٹن دبا دیں کہنے والے دانشور بھی جانتے
ہیں کہ وہ ایک فتنہ پیدا کرنے کیلئے ویڈیو ڈال رہے ہیں لیکن کوئی باز آنے
کو تیار نہیں۔ غریب بندہ جو ریڑھی لگاتا ہے لوگ خدا ترسی میں اس سے خریداری
کرتے ہیں لیکن وہ جان بوجھ کے گھٹیا اور دو نمبر مال چپکے سے شاپر میں ڈال
دیتا ہے ۔
وکیل کو صاف پتا ہوتا ہے کہ یہ جھوٹا کیس ہے لیکن شیطان نے اس کیلئے اچھی
پیکنگ کر دی کہ تیری بیوی بچوں کا رزق اسی میں ہے کہ تو کیس لڑے چاہے جھوٹے
کا ہی کیوں نا ہو۔ وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر
تل جاتا ہے کیس جیت جائے گا، پیسہ بھی آجائے گا لیکن کیا پلید پانی سے دھلے
گلاس میں میٹھا شربت پیا جا سکتا ہے؟
سرکاری عہدیدار کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عوام کا نمائندہ اور ان کے حقوق کی
دیکھ بھال کیلئے متعین ہے لیکن دو نمبر کام کرنے یا کروانے میں پل کا کردار
اپنا کر، چائے پانی کے نام سے رشوت لیکر، تحائف کی مد میں غلط لوگوں کی مدد
کرکے ، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے، اپنی کرسی، عہدہ کا ناجائز
فائدہ اٹھا کے جو جی میں آئے کر گزرتا ہے محض اس لیے کہ شیطان نے دھوکہ دے
کے کوئی نا کوئی حیلہ بہانہ اس کے دماغ میں ٹھونس دیا ہے کہ بے شک کام غلط
ہے لیکن تم مجبور ہو کرتے جاؤ کماتے جاؤ۔
ڈاکٹر اور طبیب لوگوں کو مسیحا کہا جاتا ہے۔ دکھی لوگوں کی امید اور دم
توڑتے لوگوں کا ظاہری آسرا یہی ہوتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر یہ جانتے ہوئے کہ مریض
کی کیفیت اس دوائی کی متحمل نہیں، یہ فلاں ٹیسٹ اس کے لیے ضروری ہے ہی
نہیں، یا یہ آپریشن نا بھی ہو تو اس کا علاج کیا جاستا ہے ۔ یا اس مہنگی
دوائی کی جگہ فلاں خوراک کو بہتر کر دیا جائے تو مریض روبصحت ہو سکتا ہے
پھر بھی دھڑا دھڑ دواؤں کے ڈھیر لکھ کے دے دینا۔ اچھے خاصے مریض کو غلط
ادویات کے تجربے کر کے قریب المرگ کر دینا محض اس مفروضے پر جو شیطان نے اس
کے دماغ میں فٹ کر دیا ہے کہ تم معالج ہو شفاء منجانب اللہ ہے تم تو کوشش
کر رہے ہو اس میں تمہارا کیا قصور۔ بچہ کی پیدائش نارمل ہو سکتی ہے اس کے
باوجود محض اپنے پیسے بنانے کیلئے آپریشن کرنا ایک نارمل چیز سمجھی جا رہی
ہے۔
مذہبی طبقہ یہ ثابت نہیں، یہ سنت نہیں، یہ بدعت ہے، یہ شرک ہوگا وہ حرام ہے
یہ حلال ہے، صرف اپنے آپ کو نمایاں کرنے کیلئے دوسروں کو دھکے دینا قابل
ستائش عمل نہیں ہے۔ کہیں توحید پرست اتنے کہ رسول خدا سے بھی دور کرنے کو
عار نہیں سمجھتے اور کبھی خود غرض اتنے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کو
بھی کہتے کہ فرض نماز کے بعد دعا مانگنا جائز نہیں۔ لوگ رو رہے ہوتے کہ باپ
فوت ہوگیا ہے اس کیلئے دعا کر دیں اور مذہبی بندہ منہ دوسرے طرف کرکے کھڑا
ہوجاتا ہے کہ فاتحہ کرنا ثابت نہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کیلئے
بھی کوئی وقت چاہیے؟
خواتین کی تعلیم کے حوالہ سے شیطان نے ایسی پیکنگ پیش کی ہے کہ الامان
الحفیظ، خواتین کیلئے تعلیم منع نہیں ہے لیکن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو
ایک ساتھ بٹھانے سے آپ فتنہ کو پھیلنے سے روک نہیں سکتے۔ چھوٹی عمر کی
بچیوں کو چھوٹے چھوٹے کپڑے پہننے کی عادت ڈال دیتے ہیں پھر بعد میں اسے
حجاب کی تلقین کرتے ہیں جو اس کی عادت میں شامل نہیں ہوتا۔ ہمارا دین کہتا
ہے کہ ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو تو ماں کی گود کا علم یہی ہے کہ
بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی بہتر تربیتی عمل سے گزارا جائے۔ شیطان کی کوشش
ہوتی ہے کہ برائی کو اچھی پیکنگ میں عام کرے تاکہ لوگ اس میں دھڑا دھڑا
مبتلا ہوتے رہیں۔
|