مسلمانوں کی حالت زار حکایات کی روشنی میں


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے آج کے معاشرے میں رب تعالی کی بنائی ہوئی اس پوری کائنات میں ہر طرف ہر جگہ صرف مسلمان ہی ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں یہودی اور عیسائی مذہب کے پیروکار اپنی مشینی طاقت اور دولت کے بل بوتے پر مظالم ڈھا کر خوش ہوتے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف بدقسمتی سے ہمارے اپنے ہی لوگ اپنے حصے کی خوراک حصے سے زیادہ مل جانے پر اندھے ، گونگے اور بہرے بن کر خاموش تماشائی بن ہوئے نظر آتے ہیں نہ انہیں ان کے اسلام دشمنوں کی سازشوں کا علم ہے اور نہ ہی ان کے ہاتھوں ہونے والے انجام کا خوف کیونکہ انہیں وہ خوبصورتیاں اور دلکشیاں دکھائی جاتی ہیں کہ وہ اس کے نشہ میں سب کچھ بھلا کر اپنی دنیا میں ایک زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان رعانائیوں کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرنے سے بھی ہچکچاتے نہیں ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کافر ہونا الگ بات ہے اور منافق ہونا دوسری بات جبکہ یہ ان لوگوں کی منافقت ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ ٹھکانہ کافر کا بھی جہنم ہے اور منافق بھی جہنم لیکن جہنم میں کافر کا درجہ منافق سے اعلی ہوگا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے خوش قسمتی ہے کہ ہمارے خالق حقیقی نے ہمیں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس رب تعالی نے ہمیں اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا جنہوں دنیا میں آتے ہی رہتی قیامت تک کی باتوں اور حالات کے بارے میں اپنی احادیث مبارکہ میں اشاروں کے ذریعے بتایا لیکن ہم انہیں پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے شاید اسی لئے پوری دنیا میں ہم یعنی مسلمان پریشاں ہیں آپ ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان تابعین تبہ تابعین اور ان کے بعد اولیاء کرام اور بزرگان دین جبکہ اس کے بعد ہمارے اکابرین اور فقہاء کے ذریعے مختلف واقعات و حکایات کے ذریعے ہمیں بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہمارے یہ حالات اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہوئے ہیں آج کی تحریر میں کچھ قیمتی باتیں ، حکایات اور کچھ ایسے واقعات شامل تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا جنہیں پڑھ کر ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہمیں دنیا میں بھیجا کیوں گیا تھا اور ہم کر کیا رہے ہیں اور ہمارا یہ حال کیوں ہے اورجنہیں پڑھ کر ، سمجھ کر اور عمل کرکے ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوار سکتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم سب سے پہلے ایک بہت ہی دلچسپ اور زندگی کے قریب کا ایک واقعہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں

یہ کسی دور کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں ایک ملک ایسا تھا جہاں کے لوگ ہر سال اپنے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لئے ایک سال کی مدت کے لئے ایسے شخص کو بادشاہ بناتے ہیں جو اس ملک میں سب سے پہلے داخل ہوتا اورسبکدوش ہونے والے بادشاہ کو جنگل کے ایسے حصے میں چھوڑ آتے تھے جہاں نہ کوئی انسان ہوتا تھا اور نہ ہی کھانے پینے کی کوئی چیز بلکہ وہاں صرف سانپ ، بچھو اور خطرناک کیڑے مکوڑے آباد تھے اگر کوئی بادشاہ ان خطرناک جانوروں سے بچنے کی کوشش کرتا تو وہ بھوکا پیاسا مرجاتا اس لئے بدقسمتی سے اب تک کوئی بادشاہ ان خطرناک جانوروں سے نہیں بچ سکا تھا اور کئی بادشاہ مر چکے تھے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں موجودہ بادشاہ کی مدت بھی ہوتی ہونے والی تھی اور لوگوں کو نئے بادشاہ کی تلاش تھی جس دن مدت پوری ہوئی اتفاق سے اس دن صبح ہی صبح دوسرے ملک سے آیا ہوا ایک شخص یہاں داخل ہوا تو لوگوں نے اس کا خوبصورت ہار پہنا کر استقبال کیا وہ حیران تھا کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں تو اسے معلوم ہوا کہ یہاں کا یہ دستور ہے کہ اس طرح نئے شخص کو ملک میں سب سے پہلے داخل ہونے پر ایک سال کے لئے بادشاہ بنا دیا جاتا ہے جب وہ تخت پر بادشاہ بن کر بیٹھا تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ مجھ سے پہلے جو بادشاہ تھا وہ کہاں ہے ؟ تو لوگوں نے یہاں پر قائم سارا دستور اس بادشاہ کو بتایا جب ساری بات اس نے سن لی تو اس نے حکم دیا کہ مجھے اس جگہ پر لے جائو جو جنگل میں ہے اور ہر بادشاہ کو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد وہاں جانا پڑتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لوگ اس کو اس جنگل کی طرف لے جاتے ہیں اس نے اچھی طرح سے وہاں کا مکمل جائزہ لیا اور پھر واپس اپنے محل میں آگیا اپنے محل میں آتے ہی اس نے سب سے پہلے حکم دیا کہ جنگل کے اس خطرناک حصے سے شہر تک ایک مکمل راستہ بنایا جائے اس حصے کے اردگرد خوبصورت باغ اور دلکش درخت لگائے جائیں اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ جنگل کے اس حصے سے تمام سانپ ، بچھو اور خطرناک جانوروں کا خاتمہ کردیا جائے لہذہ ایسا ہی کیا گیا ان سارے معاملات کو انجام دیتے دیتے اس بادشاہ کی مدت بھی مکمل ہونے کا وقت آگیا تھا اور اس نے لوگوں کو جمع کرکے اعلان کیا کہ آپ لوگ اپنے لئے نیا بادشاہ ڈھونڈلیں اور مجھے جنگل کے اس حصے میں چھوڑ کر آیا جائے جہاں ہر بادشاہ کو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد جانا پڑتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لوگوں نے کہا کہ اے بادشاہ سلامت اب اس سال سے یہ رسم یہ دستور ختم کردیا گیا کیونکہ ہمیں ایک عقلمند بادشاہ کی ضرورت تھی جو وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے منصب اور اپنی ذمہداریوں کو نبھائے اور ہمیں وہ بادشاہ آپ کی شکل میں مل گیا ہے لہذہ اب یہ ملک بھی آپ کا ہے اور ہم بھی آپ کے آپ جب تک چاہیں اس ملک پر حکومت کرسکتے ہیں جنگل کے اس خطرناک حصے میں تو ہم ان بیوقوف بادشاہوں کو چھوڑ کر آتے تھے جنہوں نے اپنے منصب میں مست ہوکر اپنی بادشاہت کے مزے اڑائے اور انہیں اس کے انجام کی خبر ہوتے ہوئے بھی پرواہ نہیں تھی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حکایات میں لوگ اور بادشاہ اللہ تعالیٰ کے بندے تھے بادشاہت یہ دنیاوی زندگی اور جنگل کا وہ خطرناک حصہ دراصل ہماری قبر تھی ہمیں اس دنیا میں ایک مخصوص مدت کے لئے ہی بھیجا گیا ہے اگر ہم نے دنیاوی زندگی میں اچھے اور نیک کام کئے تو آگے یعنی قبر میں بھی ہمارے لئے آسانی ہوگی اور زندگی گناہوں اور اللہ تعالی کی نافرمانی میں گزاری تو قبر میں سانپ ، بچھو اور خطرناک کیڑے مکوڑوں کا سامنا کرنا پڑے گا لہذہ ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی مقررہ مدت والی اس زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر گزاریں تاکہ دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی سنور جائے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دینِ اسلام ، خدا کا پسندیدہ دین ہے ، اِسے قبول کئے بغیر کوئی نیکی اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں۔ ایمان و اسلام کے بغیر مرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا جبکہ مؤمن ہمیشہ جنّت میں رہے گا ، اگرچہ بعض کو گناہوں کی وجہ سے جہنم کی سزا بھی اٹھانی پڑے۔ غیرمسلموں کو اسلام کی طرف بلانا ، تمام نبیوں ، رسولوں کی سنّت اور اُمَّتِ مسلمہ کے فرائض میں سے ہے۔ انبیاء علیہمُ السّلام کو بھیجنے کا بنیادی ترین مقصد یہی تھا کہ وہ لوگوں کو کفر کے اندھیرے سے نکال کر اسلام کی روشنی میں داخِل کریں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ضروری نہیں کہ دنیاوی اعتبار سے کسی پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ انسان سے عقلمندی اور صحیح فیصلے کی امید کی جاسکے بلکہ مشاہدہ میں یہ آیا ہے کہ وہ لوگ جو گائوں کے گنوار کسان یا لوہے کے کام کرنے والے لوہار یا لکڑی کا کام کرنے والے کمہار ہی کیوں نہ ہو بڑے صحیح فیصلہ کرکے اپنے حلقہ میں کامیاب انسان سمجھے جاتے ہیں اب اس حکایت میں دیکھیں ایک بادشاہ ایک جگہ سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ کچھ گدھے لائن بنا کر ایک ہی قطار میں چل رہے ہیں جبکہ انہیں چرانے والا خاموشی سے ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ایک ہی لائن میں چلنے والے گدھوں میں لائن توڑنے یا باہر نکلنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا تھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اتنا منظم اور مظبوط نظام دیکھ کر بادشاہ حیران ہوگیا اس نے گدھے چرانے والے کو بلوایا اور پوچھا کہ آخر گدھوں میں اتنا اتفاق کیسے آیا تو اس نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت میں ان کا مالک ہوں لہذہ یہ مجھ سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جو لائن سے باہر نکلا یا میرا اصول توڑا تو اسے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے ڈر کے مارے کوئی ہمت نہیں کرتا اس کی بات سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور حیران بھی اور کہنے لگا کہ اگر میں تمہیں اپنی بادشاہت کا منصب دے دوں تو کیا تم میرے ملک میں امن امان قائم کرسکتے ہو ؟ وہ گدھے چرانے والا کچھ دیر کے لئے سوچنے لگا کہ کہاں چند گدھے اور کہاں پوری حکومت لیکن پھر دوسرے لمحے ہی اس نے پر اعتماد انداز میں کیا ٹھیک ہے میں کوشش کرتا ہوں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بڑی پروقار تقریب ہوئی اور اس گدھے چرانے والے کو بادشاہ کے تخت پر بٹھایا گیا پھر ایک دن اس کے سامنے چوری کا ایک مقدمہ لایا گیا اور چوری کرنے والے کو بھی پیش کیا گیا حالات و واقعات سننے کے بعد فیصلہ سنایا گیا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا اور بادشاہ کے کان میں کہا کہ جناب یہ چور وزیر کا خاص آدمی ہے تو بادشاہ نے پھر اعلان کیا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں لیکن اس مرتبہ وزیر خود کھڑا ہوا اور بادشاہ کے کان میں کہا جناب تھوڑا خیال کریں یہ اپنا آدمی ہے تو بادشاہ نے اعلان کیا کہ چور کے ہاتھ اور وزیر کی زبان کو کاٹ دیا جائے اس گدھے چرانے والے انپڑھ اور جاہل شخص جو اس وقت بادشاہ تھا کے اس ایک فیصلے نے پورے ملک میں امن قائم کردیا اور اس دن کے بعد کوئی چوری کوئی کرپشن نہ ہوئی ۔ اس واقعہ سے یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی امن امان قائم ہوسکتا ہے بس چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی ضرورت ہے اور کچھ لوگوں کی زبانیں بھی بس پھر پورے ملک میں امن ہوگا اور کسی کو کسی سے شکایت نہ ہوگی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں کی سیاست بھی بڑی عجیب ہے اور عجیب و غریب کھیل کھیلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ لفظ " سیاست " ہی بڑا عجیب ہے ہمارے یہاں کی سیاست کے بارے میں ایک چھوٹی مگر گہری بات آپ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کررہا ہوں اللہ تعالیٰ سے اس دعا کے ساتھ کہ آپ لوگوں کو سمجھ آجائے دراصل ہمارے سیاست دان سیاسی کھیل کچھ اس طرح کھیلتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تمہاری شادی اپنی مرضی سے کروں گا اور وہیں شادی کرنی پڑے گی جہاں میں کہوں گا اس پر بیٹے نے کہا کہ ہرگز نہیں یہ نہی ہوسکتا تو باپ نے کہا کہ میں جس لڑکی سے تمہاری شادی کرنا چاہتا ہوں وہ بل گیٹس کی لڑکی ہے کیا اب بھی تمہیں انکار ہے تو بیٹے نے یہ سن کر کہا کہ ٹھیک ہے میں تیار ہوں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد باپ نے بل گیٹس کو فون کیا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی تمہاری بیٹی کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں تو بل گیٹس نے کہا ہرگز نہیں یہ نہیں ہوسکتا تو باپ نے کہا سوچ لو میرا بیٹا ورلڈ بینک کا چئیرمین ہے یہ بات سن کر بل گیٹس حیران ہوگیا اور کہنے لگا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے اس کے بعد باپ نے ورلڈ بینک کے صدر کو فون کیا کہ میرے بیٹے کو چیئرمین بنادو تو اس نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا تو اس نے کہا ٹھیک ہے لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا بیٹا بل گیٹس کا داماد ہے تو اس نے ہکلاتے ہوئے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے بس یہ ہے ہمارے ملک کی سیاست اور سیاستدان اللہ تعالیٰ ہم پر اور ہمارے سیاستدان پر رحم کرے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انسانوں کی ایک حوالے تین اقسام بیان کی گئی ہیں ایک اہل ایمان مسلمان اور دوسرے کافر یعنی ہندو عیسائی اور یہودی جبکہ تیسری قسم ان لوگوں کی جنہیں منافق کا نام دیا گیا ہے جو کلمہ بھی پڑھتے ہوں گے نماز روزہ جیسے فرائض بھی ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے لیکن دل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی محبت سے خالی ہوگا بدقسمتی سے چند ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی ہم مسلمانوں کا اور خاص طور پر ہمارے ملک کا یہ حال ہے ان کی مثال اس مختصر مگر بڑی گہرے واقعہ جیسی ہے کہ سابق سوویت یونین کے صدر جوزف سٹالن ایک دفعہ جب پارلیمنٹ میں داخل ہوئے تو لوگ حیران ہوگئے کہ ان کے ہاتھ میں ایک مرغا تھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انہوں نے سب کے سامنے اس مرغ کے ایک ایک پر کو نوچ ڈالا وہ مرغ درد سے تلملاتا رہا لیکن انہوں اس مرغے جو تب تک نہیں چھوڑا جب تک اس کا ایک ایک پر نہ نکل جاتا اور پھر اس مرغے کو زمین پر ڈال دیا اپنی جیب سے کچھ دانے نکالے اور اس کے آگے ڈال دئے پھر وہ جس طرف چلتے مرغا ان کے پیجھے پیچھے ہوتا تب انہوں نے تمام پارلیمنٹیرینز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سردارانہ ذہنیت کی ریاستوں کے عوام اس مرغے کی طرح ہوتے ہیں ان کی حکومت پہلے انہیں لوٹ کر اپاہج بنادیتی ہے اور بعد میں تھوڑی خوراک دیکر اپنے آپ کو مسیحا بنالیتی ہے جبکہ چند سکوں اور نوالوں کے بدلے معاشی غلامی کا شکار اور اجتماعی شعور سے محروم یہ عوام بھول جاتی ہے کہ ان درندہ نما انسانوں نے انہیں جانوروں کے درجہ ہر لا کھڑا کردیا ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل سلیم عطا کرے اور اپنے ایمان بچانے کی توفیق عنایت فرمائے آمین ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم پوری دنیا پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے اور 2020 کی ایک تحقیق کے اندازے کے مطابق اسلام کو ماننے والوں کی تعداد 1.9 بلین ہے جو دنیا کی کل ابادی کا کم و بیش 24.7 فیصد بنتا ہے یعنی اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود نہ ہمارے مسلمان پاور میں ہیں اور نہ ہی سپر پاور میں جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا امریکی ڈالر جسے دنیا کی مظبوط اور بڑی کرنسی تصور کیا جاتا ہے وہ بھی کرنسی کی فہرست میں دسویں نمبر پر آتا ہے اور مسلمان ممالک میں پہلے نمبر پر کویتی دینار مانا جاتا ہے اب اندازا لگائیے کی دنیا میں تعداد میں بھی زیادہ اور کرنسی میں بھی سب سے اوپر پھر بھی مسلمان ہر جگہ پر ظلم کا نشان بنے ہوئے ہیں آخر کیوں؟ ہم مسلمانوں کا حال آج کے معاشرے میں کیا اور کیوں ہے ؟

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ ایک شخص ایک کھلے میدان کے قریب سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ وہاں فٹبال کھیل رہے تھےاس کو اس کھیل کے بارے میں اتنا زیادہ معلومات نہیں تھی اور آپ جانتے ہیں کہ فٹبال کے کھیل میں سارے کھلاڑی ایک بال کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں اس نے جب یہ منظر دیکھا تو وہاں پر موجود ایک بزرگ سے پوچھا کہ یہ سارے کے سارے ایک بال کو لاتیں کیوں مارتے ہیں آخر ایک بال نے ان کا کیا بگاڑا ہے ؟ تو بزرگ اس شخص کو دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے کہ اصل میں یہ بال اندر سے خالی ہے اگر یہ بھری ہوئی ہو تو اس کو کوئی لات نہیں مار سکتا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ کہ دنیا میں تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی آج مسلمان تباہ کیوں ہے اس لئے کہ وہ اندر سے خالی ہوچکے ہیں ہم اپنے آپ کو مسلمان صرف اس لئے کہتے ہیں کہ ہم نے کلمہ پڑھا ہے لیکن ہمارے اندر ایمان کی کمزوری ہونے کے سبب اس وقت پوری دنیا میں ہم ذلیل و خوار ہیں اس لئے کی ہم ایمان کی دولت سے خالی ہوچکے ہیں اور جن لوگوں کے پاس ایمان نہیں وہ ہمیں اپنی مرضی سے لات مار کر اس طرف دھکیل دیتے ہیں جہاں وہ چاہتے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسلام ایک بڑا واضح اور کھلا مذہب ہے کہنے والے صحیح کہتے ہیں کہ اگر سچے اور مظبوط ایمان کی طاقت کے ساتھ اس کائنات کے مسلمان اکٹھے ہو جائیں تو دشمنان اسلام ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے لیکن شرط یہ ہے کہ دل میں خوف خدا ہو اللہ تعالیٰ کے حبیب کریمﷺ کی سچی محبت ہو اور دل میں جذبئہ ایمان ہو تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی آج کی اس تحریر میں لکھتے ہوئے میں نے کوشش کی ہے کہ کچھ حکایات اور واقعات کے ذریعے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو صحیح راستے پر لا سکوں اور سوئے ہوئوں کو جگا سکوں کیونکہ میرا ایمان ہے کی ایمان کی طاقت سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے حق بات لکھنے ، آپ تک پہنچانے اور اس پر ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 165 Articles with 133416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.