ملک کی ترقی میں رکاوٹ کہاں ہے ؟


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اپنی تحریروں میں ایسے موضوعات کا انتخاب کروں جس کے ذریعے ہم ایک دوسرے کی اصلاح کرسکیں اور اپنے لئے زندگی گزارنے کے صحیح راستوں کا انتخاب کرسکیں اللہ تعالیٰ کے احکامات ، اس کے حبیب کریمﷺ کے فرمودات ، صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگی ، اولیاء کرام کی اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کی جدوجہد اور ان تمام معاملات کے لئے تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں جبکہ ہمارے اکابرین اور فقہاء نے اپنی تحریروں کے ذریعے ان معاملات کا ذکر اپنی کتابوں میں کیا ہے اور وہ کتابوں کی شکل میں ہمارے لئے بیش بہا خزانہ ہیں بس ہمیں انہیں پڑھ کر سمجھ کر اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے یہ بات کئی مرتبہ سن رکھی ہوگی کہ " دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہم وہیں پر کھڑے ہیں " اور یہ جملہ اس وقت بولا جاتا ہے جب بات ترقی کی ہو یا ناکامی کی یعنی جب ترقی کی بات ہو تو ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا اپنے ملک سے موازنہ کرنے لگتے ہیں لیکن ہمیں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ملتا اور پھر مجبور ہوکر کہتے ہیں کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہم وہیں پر کھڑے ہیں یعنی ناکامی کا سامان کرنا پڑتا ہے آج کی تحریر میں ہم اس بات کا ذکر کریں گے کہ آخر 1947 سے 2024 تک ان 77 سالوں کے سفر میں ہم وہاں نہیں ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہئے تھا ہما رے بعد آزاد ہونے والے ممالک آج کہاں سے کہاں پہنچ گئے لیکن ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں آخر ہماری اس ناکامی کی وجوہات کیا ہیں ؟ اور وہ کون کون سے عوامل ہیں جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے ہماری سب سے بڑی ناکامی ہمارے ملک میں اسلامی نظام کا نافذ نہ ہونا بھی ہے کیونکہ جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارا ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا اور جسے دنیا ایک اسلامی فلاحی ریاست کے نام سے جانتی ہے تو پھر اسلامی نظام کا نفاذ ناگزیر کیوں ؟ 1947 سے لیکر اب تک نہ ہم نے دنیاوی اعتبار سے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے اور نہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکر شرعی اعتبار سے کوئی کامیابی حاصل کرسکے ہیں آج کے اس مضمون میں میری کوشش ہوگی کہ میں ان وجوہات پر روشنی ڈال سکوں جو ہمارے ملک کی ترقی نہ کرنے کے پیچھے پنہاں ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم اس بات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بھی ثابت کرسکتے ہیں کیونکہ ترقی کی منزلوں تک پہنچنے اور کامیاب زندگی گزارنے کے راستوں کا علم ہمیں قرآن اور حدیث دونوں جگہ سے ملتا ہے لیکن ہم لوگ زیادہ تر کہانیوں اور واقعات سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ کہانیاں یہ واقعات ہمارے دل پر جلدی اثر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لہذہ میں کوشش کروں گا کہ ان کے ذریعے اپنی بات آپ تک پہنچا سکوں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ رب العزت مجھے سچ لکھنے اسے سمجھنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری ترقی میں اخر رکاوٹ کیا ہے ؟ وہ کون سے عوامل ہیں جنہیں ہم اگر صحیح کرلیں تو ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں ہمارے ملک کے حالات پر ہمارے ایک دوست نے بڑی گہری باتیں کیں جنہیں یہاں لکھتے ہوئے مجھے شرم سی محسوس ہورہی ہے لیکن سچ کہنا سچ لکھنا اور سچ دوسروں تک پہنچانا بھی ضروری ہے چاہے سچ کڑوہ ہی کیوں نہ ہو وہ کہنے لگے کہ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جہاں وقت پر پولیس یا ایمبولینس تو پہنچتی نہیں بلکہ ڈیلیوری بوائے پیزہ لیکر جلدی پہنچ جاتا ہے ہم اس ملک کے رہائشی ہیں جہاں بینک سے نئی کار لینے کے لئے آسان اقساط پر قرض مل جاتا ہے لیکن ایک طالب علم کو اپنی تعلیم کے حصول کے لئے کوئی قرضہ نہیں ملتا ہم اس ملک کے باشندے ہیں جہاں پیروں میں پہننے والے وہ جوتے جو دھول مٹی اور کیچڑ سے بچنے کے لئے ہم پائوں میں پہنتے ہیں وہ شیشے میں بند دکانوں میں ائیر کنڈیشنڈ میں بکتے ہیں اور علم کے موتی بکھیرنے والی کتابیں فٹ پاتھ پر بکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں لگتا یہ ہے کہ اس قوم کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم اس ملک کے رہائشی ہیں جہاں ایم اے ، ایم ایس سی اور ماسٹرز کی ڈگری لیکر نوجوان نوکری کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں جبکہ ان پڑھ اور جاہل لوگ اس ملک کی پارلیمنٹ میں نظر آتے ہیں یہ دیس جہاں 77 سال گزرنے کے باوجود ہمارے پاس نہ صاف پانی ہے نہ گیس ہے اور نہ ہی بجلی اگر ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم غور کریں تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہماری ترقی کے راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں اور ہم آگے بڑھنے کی بجائے ترقی کرنے کی بجائے پستی کی طرف کیوں جارہے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم لوگ بڑے فخر سے یہ بات کرتے ہیں کہ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے اسلام کے نام پر قائم ہونے والا یہ ملک آپ کو کہاں سے ایک فلاحی اسلامی ملک نظر آتا ہے آج تک ایک اسلامی قانون تو نافذ کر نہ سکے اسلامی قوانین کے تحت مجرموں کو سزا دینے کی ہمارے قانون دان کو ہمت نہیں لیکن ایک اسلامی ملک کیا ہوتا ہے اور وہ کس طرح اپنے قوانین کی بدولت ترقی کی راہ پر گامزن نظر آتا ہے اس کی مثال دیکھئے کہ ایک دفعہ انڈونیشیا میں جو ایک مسلم ملک ہے ایک سروے کیا گیا کہ یہاں کی مساجد میں آنے والے لوگوں کی تعداد کتنی ہے ؟

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سروے کی رپورٹ کے مطابق 40 فیصد لوگ مسجد کی طرف رخ نہیں کرتے اندازا یہ لگایا گیا کہ یا تو لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے یا پھر گھروں میں نماز ادا کرلیتے ہیں لیکن پھر اس پر باقائدہ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ معاملہ موبائل کا ہے لوگ موبائل میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں نماز کے وقت کا احساس تک نہیں ہوتا اور موبائل کی مصروفیت نے لوگوں کو مسجد میں آنے سے روک رکھا ہے لہذہ سوچ بچار کے بعد حکومت وقت نے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ وقت نمازوں کے اوقات کے دوران تقریباً آدھا گھنٹا پورے ملک کے تمام شہریوں کے لئے انٹرنیٹ سروس بند کردی جائے گی اور اس فیصلے پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا بلکہ ملک میں موجود عوام کی ایک کثیر تعداد نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا اور اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس چھوٹے سے واقعہ سے ہمیں اندازا ہوجاتا ہے کہ ہماری ناکامی کا سبب کیا ہے ؟ ہم آج تک اپنے ملک کو ایک مکمل اسلامی ملک کیوں نہ بناسکے ؟ اگر ایسے فیصلے ہمارے ملک میں بھی ہونا شروع ہو جائیں تو ہم بھی نہ صرف ترقی کے منازل تیزی سے طے کرلیں گے بلکہ اس ملک کو ایک فلاحی اسلامی ملک بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ایک بات ہمیں ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ مسلمان پیدا ہونے اور مسلمان جیسا بن کر دکھانے میں بہت فرق ہے مطلب یہ کہ ایک دفعہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ تھا اور میں کسی کام کے سلسلے میں ایک بس میں سفر میں تھا سفر کرتے ہوئے جب افطار کا وقت قریب آیا تو اعلان ہوا کہ بس راستے میں کہیں نہیں رکے گی لہذہ روزہ دار لوگوں کو بس میں ہی افطاری مہیا کی جائے گی تھوڑی دیر بعد تین کھجوریں اور ایک پانی کی چھوٹی بوتل ہر روزہ دار کو دے دی گئی جسے دیکھ کر مجھے اپنے ایک دوست کی بات یاد آگئی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میرے دوست یورپ کے ایک ملک میں رہتے ہیں ان کے ساتھ بھی کچھ اس طرح کا واقعہ ہوا کہ وہ روزے میں تھے اور بس کے سفر میں بھی وہاں بھی افطاری کا وقت ہوا تو بس والے نے ایک جگہ بس روکی وہاں پر ہر مسلمان روزہ دار کو ایک حلال چکن ایک پلیٹ بریانی کے ساتھ ایک گارلک نان دو کیلے اور ایک اسٹرابری دودھ کی بوتل کے ساتھ دس دس کھجوریں دی گئی جبکہ وہ ایک یہودی ملک تھا یہ بات یاد کرکے میں سوچنے لگا کہ واقعی مسلمان پیدا ہونے اور مسلمان جیسا بن کر دکھانے میں بڑا فرق ہوتا ہے اسی لئے ہم ترقی نہیں کرتے اور ہمیں ہر مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہےاور یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ہمارے دین نے جو سکھایا ہے جو تعلیم دی ہے ہم اس پر عمل نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی جس نے نہ کی اس کے حبیب کریمﷺ کی احادیث پر عمل جس نے نہ کیا تو وہ ممالک یا وہ قوم ترقی کی بجائے پستی کی طرف ہی جاتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جہاں کسی ملک کی ترقی میں کئی وجوہات ہوتی ہیں وہاں قانون کی بالادستی اور صحیح انصاف پر عمل درآمد ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ جس ملک میں جب صحیح وقت پر صحیح انصاف نہیں ہوتا وہ ملک ترقی کی جانب کبھی رواں نہیں ہوسکتا کسی ملک کی ترقی میں انصاف کا کیا دخل ہے اس کا اندازہ اس مختصر مگرسچے اور گہرے واقعہ سے لگائیے کہ امریکی ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا جس پر روٹی چرا کر بھاگنے کا الزام تھا جب اسے عدالت میں پیش کیاگیا تو جج نے پوچھا کہ کیا تم نے واقعی روٹی چرائی ہے تو اس نے کہا کہ جناب میں اعتراف جرم کرتا ہوں کہ میں نے روٹی چوری کی مگر میں کیا کرتا مجھے بھوک اتنی شدید لگی ہوئی تھی کہ میں مرنے تک پہنچ چکا تھا اس لئے مجبوری میں مجھے یہ چوری کرنی پڑی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جج نے اس کی بات سن کر کہا کہ تمہارے اقبال جرم کرنے سے مجھے خوشی ہوئی اور میں تمہیں دس ڈالر جرمانے کی سزا سناتا ہوں اور مجھے یہ معلوم ہے کہ تمہارے پاس یہ دس ڈالر نہیں ہوں گے اسی لئے تم نے روٹی چوری کی لہذہ یہ دس ڈالر تمہاری طرف سے حکومتی خزانہ میں میں اپنی طرف سے ڈال دیتا ہوں اور یوں جج صاحب نے دس ڈالر اپنے جیب سے نکال کر حکومت کے خزانے میں ڈالنے کا حکم دیا وہاں ہر موجود لوگوں نے جج صاحب کے اس عمل کو سراہا اس کے بعد جج نے کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ میں یہاں پر موجود ہر شخص پر دس دس ڈالر کا جرمانہ عائد کرتا ہوں جو ابھی یہاں ہر موجود ہیں کیونکہ آپ سب اس دیس میں رہتے ہو جہاں ایک غریب انسان کو ہیٹ بھرنے کے لئے روٹی چوری کرنی پڑتی ہے لہذہ وہاں 480 ڈالر جمع ہوتے ہیں اور وہ رقم جج اس بوڑھے فقیر کو دے دیتا ہے یاد رکھئے کہ کسی بھی ملک یا شخص کی کامیابی کے حصول کے لئے یہ ایک بہت بڑا راز ہے کیونکہ دس روپے کی اہمیت ہمارے لئے اتنی نہیں جتنی اس غریب کے لئے ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم اہل ایمان مسلمان کہلواتے ہیں لہذہ اس اعتبار سے ناکامی ہمارا مقدر نہیں ہونا چاہئے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم مسلمان تو ہیں لیکن ایمان کی پختگی نہیں ہے اسی لئے ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اگر ہم اسلام کو پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کا طرح اور کن کن لوگوں کو دیکھ کر گزارنی چاہئے جبکہ ہم اگر ترقی کرنا بھی چاہتے ہیں تو مغرب کی طرف دیکھتے ہیں اگر ہم دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ بھی اٹھا کر دیکھ لیں تو ہمیں کوئی ایسی قوم نہیں ملے گی جس نے اپنی زبان چھوڑ کر دوسری زبان میں ترقی کی ہو دنیا کا جدید ترین ملک اسرائیل جہاں کسی کو انگریزی نہیں آتی سب سے کم وقت میں ترقی کرنے والا ملک جرمنی جہاں لوگ انگریزی زبان سے نفرت کرتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والا ملک ترکی جہاں استاد لیکر آرمی چیف اور سائنسدان سے لیکر چیف جسٹس تک سارا نظام ترک زبان میں ہی ہوتا ہےترقی یافتہ ممالک میں پہلے نمبر پر آنے والا چین جہاں ہر کوئی بھی سرکاری عہدیدار ہو یا کسی نجی کمپنی کا سربراہ آپ کو انگریزی بولتا ہوا نظر نہیں آتا ایران وہ ملک ہے جہاں کے پورے نظام کو فارسی زبان میں ترتیب دیا گیا ہے انگریزی میں نہیں جبکہ ہر سال نوبل انعام کے لئے اس ملک کی شمولیت کو ضروری سمجھا جاتا ہے جبکہ بدقسمتی سے نہ جانے کس نے ہمارے دماغ میں یہ بات بٹھادیا ہے کہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انگریزی سیکھنی ہوگی اس کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے اردو ادب کی تاریخ ایک ہزار سالہ پرانی تاریخ ہے جبکہ انگریزی زبان کی تاریخ ہمیں تین سو سال پہلے کہیں نظر نہیں آتی بس ہماری ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ ہی ہے ہمیں اپنی زبان میں ترقی کرنی چاہئے جبکہ ہم نے اپنی آدھی عمر انگریزی زبان کے پیچھے گنوادی یہ ہماری بدقسمتی اور ناکامی کا سبب نہیں تو اور کیا ہے ؟ اگر ہم اپنی مادری زبان اردو کی طرف دھیان دیتے تو نہ صرف ہماری اپنی زبان بلکہ یہ ملک بھی ترقی کرتا ہوا نظر آتا لیکن بدقسمتی سے ہم نے ایسا نہیں کیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے معاشرے میں کئی ممالک کی ترقی کی راہ ہمیں کئی رکاوٹیں نظر آتی ہیں وہاں استاد کی عزت نہ کرنا بھی شامل ہیں ایک وقت تھا جب زندگی میں کامیاب ہونے والا ہر شخص اپنی کامیابی کا سہرہ اپنے استاد کے سر پر رکھتا تھا اور ہر انسان کا کوئی نہ کوئی استاد آئیڈیل ہوتا تھا لیکن پھر وقت بدل گیا اور استاد کی جگہ سفارشی پڑھانے والے لوگ تعلیمی درسگاہوں کا حصہ بن گئے اور استادوں کی تذلیل کے واقعات شروع ہوگئے اور بڑھتے ہی گئے جس کی وجہ سے کئی استادوں کو اپنے عہدوں سے استعفے تک دینے پڑگئے اب آپ ہی بتائیں کہ جس معاشرے میں استادوں کی تذلیل ہو وہ معاشرہ ترقی کیسے کرسکتا ہے ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے کہ " اگر تم بادشاہ بھی ہو تو اپنے والد اور اپنے استاد کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہو جائو "

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے ملک کے معروف رائٹر ، اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ڈراما نویس، ناول نگار، مترجم اور براڈ کاسٹر جناب اشفاق احمد کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ اٹلی میں ان کا ایک چالان ہوگیا مصروفیت کے باعث چالان وقت پر جمع نہ کرواسکا لہذہ مجھے عدالت جانا پڑگیا مجھے دیکھ کر جج نے چالان جمع نہ کروانے کی وجہ ہوچھی تو میں نے کہا کہ میں ایک استاد ہوں ابھی اتنا کہا تھا کہ جج چونک کر بولا Teacher in Court یعنی استاد عدالت میں اشفاق صاحب کہنے لگے کہ مجھے میری بات مکمل نہیں کرنے دی اور اسی وقت سارے لوگ کھڑے ہوگئے جبکہ جج نے نہ صرف میری فیس معاف کی بلکہ مجھ سے معافی بھی مانگی اس وقت جناب اشفاق صاحب نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ " میں اسی وقت اس ملک کی ترقی کا راز جان گیا " ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جناب اشفاق احمد صاحب کے اس جملے میں ہی ہمارے ترقی کا راز موجود ہے اور یہاں پر ہی ہمیں اپنی ناکامی کے اسباب بھی نظر آتے ہیں ۔ ایک بات میں یہاں اور کہنا چاہوں گا کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں ملک کی معاشرتی صورتحال کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے اگر ملک کے خزانے پر ناجائز بوجھ ڈالا جائے تو وہ خزانہ خالی ہونے کی پوزیشن پر آتا ہے اور ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ پھر ایسے موقع پر ہمارے حکمران کشکول لیکر نکل پڑتے ہیں بجائے خزانے کے بوجھ کو کم کرنے کے اب آپ اندازہ لگائے کہ دنیا میں ابادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک چین ہے جس کی کل ابادی کم و بیش 1 ارب 34 کروڑ ہے جبکہ وہاں وزیروں کی تعداد صرف 14 ہے اس کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے جس کی ابادی 1 ارب 27 کروڑ ہے جبکہ وہاں ہر وزیروں کی تعداد کم و بیش 32 ہے امریکہ جس کی کل ابادی کم و بیش 32 کروڑ ہے جبکہ وزیروں کی تعداد 34 ہے برطانیہ جس کی ابادی 13 کروڑ اور وزیروں کی تعداد 12 ہے اب اگر ہم ان ترقی یافتہ ممالک کا موازنہ اپنے ملک پاکستان کا کرتے ہیں جہاں کی کل ابادی کم و بیش 22 کروڑ ہے جبکہ صرف وزیروں کی تعداد لگ بھگ 100 کے قریب ہے ( علاوہ مشیر) تو اندازا لگائیں کہ جن ممالک کا میں نے یہاں ذکر کیا ہے ان ممالک کے مقابلے میں ہماری کیا اوقات یہ ہی نہیں بلکہ ایک وزیر کا سالانہ خرچہ 16 کروڑ جبکہ تمام وزراء کا خرچہ 15 ارب 36 کروڑ ہے اس کے علاوہ ہر وزیر کو 5000 یونٹ بجلی مفت ،ماہانہ 45 ہوائی ٹکٹ مفت اور ایک لاکھ کا موبائل بیلینس ماہانہ مفت فراہم کیا جاتا ہے جبکہ اس ملک کی عوام کے لئے نہ پانی ہے نہ بجلی نہ گیس لیا کسی ملک کی ترقی میں اس سے بڑی بھی کوئی رکاوٹ ہوسکتی ہے ؟ کیا اس طرح کبھی کوئی ملک ترقی کرسکا ہے ؟ بس ان سوالوں کا جواب پچھلے 77 سالوں سے اس ملک کا ہر شخص تلاش کرنے میں مصروف ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ان سارے معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بغور جائزہ لیں تو ہمیں اندازا ہوتا ہے کہ ملک کی ترقی نہ کرنے میں ہم صرف حکومت یا حکمرانوں کو قصوروار ٹہراتے ہیں جبکہ ہم جب ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کے راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ان ممالک کی ترقی میں وہاں کی عوام کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہوتا ہے جتنا حکومت کا لہذہ خلاصہ یہ ہے کہ ایک ملک کے باشندے ہونے اور اس کے شہر کے ایک شہری ہونے کے ناطے ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں لہذہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی زمہ داری پورے انصاف کے ساتھ نبھا رہے ہیں یا ہم ایک تماشائی بن کر اپنے ہر مسئلہ کے حل کے لئے صرف حکومت یا حکومتی عہدیداروں کا ہی انتظار کرتے رہیں گے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر اس ملک کو ترقی کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زمہ داریاں بھی نبھانی ہوں گی اس ملک کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد کرنی ہوگی اللہ نے چاہا تو یہ ملک بھی صحیح معنوں میں ترقی کی جانب رواں دواں ہو جائے گا ان شاءاللہ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اس پیارے وطن کو سدا شاد و آباد رکھے ، دشمنوں کی بری نظروں سے محفوظ رکھے ، اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے جبکہ حکومت اور عوام کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 165 Articles with 133418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.