آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، اسے بعض اوقات "گونگوں
کا شہر" کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں ایسے مسائل اور ناانصافیاں
ہیں جن پر اکثر لوگ خاموش رہنے پر مجبور ہیں، یا انہیں بات کرنے کا موقع ہی
نہیں ملتا۔ مظلوم کی آواز کو دبایا جاتا ہے، اور حق کی آواز اٹھانے والے
تنقید اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں انصاف کی توقع رکھنا
یقیناً مشکل ہے، مگر اس کی اہمیت کبھی بھی کم نہیں ہو سکتی۔
گونگوں کے شہر میں خاموشی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو خوف اور عدم
تحفظ کی فضا ہے۔ یہاں لوگوں کو انصاف کا مطالبہ کرنے پر خوفزدہ کیا جاتا
ہے، انہیں دھمکایا جاتا ہے، اور بسا اوقات تو سچ بولنے والوں کو سنگین
نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خوف لوگوں کو چپ رہنے پر مجبور کر دیتا ہے
اور یوں ظلم اور ناانصافی پنپتے ہیں۔ اس ماحول کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
معاشرہ بے حسی اور ناامیدی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے، اور لوگوں کا انصاف کے
نظام پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
گونگوں کے شہر میں انصاف کی توقع اس وقت مزید کمزور ہو جاتی ہے جب قانون
اور ادارے اپنے فرائض صحیح طور پر انجام نہیں دیتے۔ اکثر لوگوں کا یہ خیال
ہے کہ قانون طاقتوروں کے حق میں جھک جاتا ہے، اور عام شہری کے حقوق کا تحفظ
نہیں کر پاتا۔ ایسے ادارے جو انصاف فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، جب وہ خود
بدعنوانی اور جانبداری کا شکار ہو جائیں تو عام انسان کے لیے انصاف کی توقع
ایک خواب بن جاتی ہے۔
گونگوں کے شہر میں ایک اور اہم مسئلہ سماجی بے حسی ہے۔ یہاں ایک بڑی خاموش
اکثریت موجود ہے جو ناانصافی کو دیکھتے ہوئے بھی اس پر ردعمل ظاہر نہیں
کرتی۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ خود براہِ راست متاثر نہیں ہو رہے تو
خاموش رہنا بہتر ہے۔ اس رویے سے ناانصافی کو تقویت ملتی ہے، اور ظالم اپنی
جگہ پر مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہی وہ خاموشی ہے جو انصاف کے راستے میں سب سے
بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔
اگرچہ گونگوں کے شہر میں انصاف کی توقع مشکل ہے، مگر نا ممکن نہیں۔ تاریخ
ہمیں بتاتی ہے کہ جب لوگ اپنی آواز بلند کرتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی خوفزدہ
کیوں نہ ہوں، تو تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو
سمجھیں اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اگر معاشرے میں ہر فرد یہ سوچ
لے کہ اس کی خاموشی بھی ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے تو تبدیلی آ سکتی
ہے۔ عوام کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ اگر آج وہ ظلم پر خاموش ہیں تو
کل ان کے ساتھ بھی یہی ہو سکتا ہے۔
گونگوں کے شہر میں انصاف کی توقع رکھنا آسان نہیں، مگر یہ ہمیں آگے بڑھنے
اور درست سمت میں کام کرنے کے لیے حوصلہ دیتا ہے۔ اگر ہم سب مل کر خاموشی
توڑیں اور انصاف کی آواز بلند کریں، تو یہ شہر گونگوں کا نہیں بلکہ عدل و
انصاف کا شہر بن سکتا ہے۔ معاشرتی انصاف اور حقوق کی بحالی کا یہ سفر طویل
اور کٹھن ہے، مگر اجتماعی آواز اور جرات ہمیں کامیابی کی طرف لے جا سکتی
ہے۔
|