وادی سندھ کی تہذیب، جو تقریباً 3300 قبل مسیح سے 1300
قبل مسیح کے درمیان عروج پر تھی، انسانی تاریخ کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے
ایک سمجھی جاتی ہے۔ یہ عظیم الشان تہذیب، جو آج کے پاکستان اور شمال مغربی
ہندوستان کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی، اپنی پیچیدہ شہری منصوبہ بندی،
اقتصادی ترقی، اور سماجی تنظیم کے لیے مشہور ہے۔ اس تہذیب پر تحقیق کرنے
والے مؤرخین نے اس کی عظمت اور انفرادیت کو متعدد کتابوں اور تحقیقات میں
بیان کیا ہے۔
وادی سندھ کی تہذیب کا تعارف "اینڈریو رابنسن" نے اپنی کتاب "انڈس ویلی
سیولائیزیشن: اے ہسٹریکل اورکلچرل اوورویو" میں وادی سندھ کی تہذیب کو دنیا
کی قدیم ترین اور مربوط معاشرتی نظاموں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ ان کے
مطابق، یہ تہذیب شہری زندگی، تجارتی روابط اور صنعتی ترقی کے لحاظ سے
نمایاں مقام رکھتی تھی۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے مقامات پر کھدائی کے
دوران ملنے والے آثار وادی سندھ کی تہذیب کے انتہائی منظم ہونے کا ثبوت
فراہم کرتے ہیں۔
شہری منصوبہ بندی اور طرز زندگی پروفیسر جان مارشل، جو برطانوی آرکیالوجسٹ
اور ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی کھدائی کے ذمہ دار تھے، نے اپنی کتاب "موہنجو
داڑو اینڈ دی انڈس سیولائیزیشن" میں اس تہذیب کی شہری منصوبہ بندی پر
تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی سندھ کے شہر پیچیدہ سیوریج
سسٹم، سیدھی گلیوں، اور پکی اینٹوں سے تعمیر کردہ عمارتوں سے مزین تھے۔ ان
شہروں کی ترتیب اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ یہاں ایک مضبوط بلدیاتی نظام
قائم تھا جو عوامی فلاح اور شہری صفائی کا انتظام کرتا تھا۔
تجارت اور اقتصادی سرگرمیاں "آر جے پولک" نے اپنی تحقیق میں وادی سندھ کے
تجارتی نظام پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق، وادی سندھ کی تہذیب کا تجارتی
نظام وسیع تھا اور یہ تہذیب دور دراز علاقوں جیسے میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق)،
اور وسطی ایشیا تک تجارتی روابط رکھتی تھی۔ وادی سندھ کے لوگوں نے سمندری
راستے سے تجارت کے ذریعے اپنی اشیاء کا تبادلہ کیا، جس میں قیمتی پتھر،
دھاتیں اور مختلف زراعتی مصنوعات شامل تھیں۔
ثقافتی ورثہ اور مذہبی عقائد "ہنری فیئر سرویس" اپنی کتاب "دی آرٹ اینڈ
کلچر آف انڈس ویلی سیولائیزیشن" میں وادی سندھ کی ثقافتی اور مذہبی زندگی
کو بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی سندھ کے لوگوں کی عبادت گاہیں اور
مذہبی علامات ایک منفرد ثقافتی ورثہ پیش کرتی ہیں۔ انہیں کھدائی کے دوران
ایسے کئی مجسمے اور علامات ملے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہاں کے
لوگ زرخیزی، قدرت اور مختلف دیوی دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے۔
زبان اور تحریری نظام اس تہذیب کا سب سے حیرت انگیز پہلو ان کی تحریریں ہیں،
جو اب تک مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آئیں۔ کئی ماہرین بشمول ایشلیشا
پراتھیا اپنی کتاب "دی ڈیکوڈنگ آف انڈس اسکرپٹس" میں اس تحریر کی اہمیت اور
پیچیدگی پر بات کرتے ہیں۔ اس کی اشکال اور نقش و نگار سے اندازہ ہوتا ہے کہ
وادی سندھ کے لوگ ایک مخصوص تحریری نظام سے واقف تھے، جو ان کی ثقافت، مذہب
اور روزمرہ کی زندگی کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
خاتمہ اور اسباب زوال وادی سندھ کی تہذیب کے زوال پر مختلف نظریات پیش کیے
گئے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کی دھار میں تبدیلی، شدید
سیلاب یا موسمیاتی تبدیلیاں اس تہذیب کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ارنسٹ
میکے نے اپنی کتاب "دی ڈیولائن آف انڈس ویلی سیولائیزیشن" میں بتایا کہ
وادی سندھ کی تباہی کا سبب قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیاں تھیں، جس نے
یہاں کے لوگوں کو زراعتی اور سماجی مشکلات کا شکار کر دیا۔
نتیجہ وادی سندھ کی تہذیب نے دنیا کے قدیم معاشرتی، اقتصادی اور شہری
نظاموں میں اہم مقام حاصل کیا۔ ان کی تہذیب آج بھی ماہرین آثار قدیمہ اور
مؤرخین کے لیے دلچسپی کا مرکز بنی ہوئی ہے، اور اس کی کھوج انسانی تاریخ
کی ایک اہم کڑی ہے۔
|