اسرائیلی بمباری سے تباہ حال عمارتوں کے ملبے سے زندہ بچ
نکلنے والے، اپنے ہاتھوں میں مردہ بچے اٹھائے اور بے بسی سے کیمرے کے سامنے
چیختے غزہ کے ہر شخص کے منھ سے ( عرب کہاں ہیں ) یہ ادا ہوتا ہے۔ یہ وہ
فقرہ ہے جو فلسطین عوام کی عربوں کی بے بسی پر خون کے آنسو رورہے ہیں.
غزہ کے باسی بار بار پوچھ رہے ہیں اور اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے عرب
ہمسایہ ممالک اسرائیلی بمباری کے خلاف ان کا دفاع کیوں نہیں کر رہے؟
گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے تمام نظریں
مشرق وسطیٰ پر لگی تھیں اور سب کے ذہن میں یہ سوال تھے کہ اسرائیل کی جانب
سے ردعمل کتنا شدید اور طویل ہو گا؟ اور خطے کے عرب ممالک کے عوام اور
حکومتیں کیا ردعمل دیں گی؟
اسرائیلی بمباری نے غزہ کی پٹی میں تباہی برپا کر دی اور اب تک تقریباُُ
42500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے ختم نہ ہونے کے کوئی آثار نظر
نہیں آتے۔
اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر
احتجاج یا مظاہرے ہوں گے تو انھیں مایوسی ہو گی۔ اگرچہ عرب ممالک کے لوگوں
کی کثیر تعداد کی حمایت اور جذبات فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہیں لیکن ان
ممالک میں مظاہروں کو محدود رکھا گیا۔
’جہاں تک عرب ممالک کی حکومتوں کا تعلق ہے تو ان کا ردعمل یا تو بہت ہی
کمزور یا مایوسی پر مبنی ہے,
’اسرائیل پر روایتی طور پر تنقید یا قطر اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے اس
تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کے علاوہ کسی نے بھی
فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔ مسئلہ فلسطین کئی دہائیوں سے عرب ممالک کے لیے
متحد ہونے کا عنصر بھی تھا۔
کسی بھی عرب ملک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کیے یا کوئی ایسا
اقدام نہیں اٹھایا جس سے اسرائیل پر سفارتی یا معاشی دباؤ بڑھتا یا اس جنگ
کو روکنے میں مدد ملتی۔
خطے میں فلسطین کے مسئلے نے اپنی اہمیت کیوں کھودی . خلیج ممالک کی تاریخ
میں عربوں نے ایک شناخت، ایک زبان، اور بڑی حد تک ایک مذہب کے ساتھ ساتھ
اپنے شناخت کو جوڑا لیکن خطے میں یورپی نوآبادیاتی اثرات سے پیدا ہونے والے
خدشات بھی موجود رہے ہیں لیکن ان ممالک کی حکومتوں کے مفادات بھی ایک دوسرے
سے متضاد رہے ہیں۔
ماضی میں اسرائیل کے خلاف مصر، شام اور اردن جیسے ممالک نے جو جنگیں لڑی
ہیں ان میں قومی مفادات کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا بھی دفاع کیا گیا۔
تاہم وہ جنگیں اب ماضی کی بات ہیں۔ مصر اور اردن نے دہائیوں قبل اسرائیل کے
ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ مراکش، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے جبکہ چند سال پہلے تک خطے میں
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا تھا۔
سعودی عرب بھی سات اکتوبر میں غزہ اور اسرائیل کے جنگ کے آغاز سے قبل
اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
’کئی دہائیوں سے اور حالیہ تنازعہ کے آغاز سے لے کر آج تک ہر عرب ملک نے
اپنے اپنے مفادات کی پیروی کی۔ وہ فلسطینیوں کی حمایت اور یکجہتی کی بات
کرتے ہیں، اور ایسا نہیں کہ یہ جذبات حقیقی نہیں ہیں لیکن آج کل کی سیاسی
صورتحال میں تمام عرب ممالک اپنے اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہیں۔‘
حالانکہ عرب دنیا میں عوامی رائے اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔ جبکہ ’عرب ممالک
کے عوام کے دل میں غزہ کے تباہ حال شہریوں کے لیے بہت ہمدردی ہے اور وہ
چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینیوں کے لیے کچھ زیادہ کریں۔ وہ چاہتے ہیں
کہ ان کے ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیں، اور کم از کم
ردعمل دیتے ہوئے سفارت کاروں کو ان کے ممالک سے نکال دیا جائے۔‘ لیکن یہ اب
تک ایک خواب ہی بنا رہا جو آج تک پایہ تکمیل نہیں ہوا۔
دیکھا جائے تو عرب حکومتوں نے فلسطینیوں کو کافی عرصہ پہلے بے یار و مددگار
چھوڑ دیا تھا اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔‘
وہ عوامی بغاوت جس نے 2010 اور 2012 کے درمیان مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ
کو ہلا کر رکھ دیا تھا اسے ’عرب سپرنگ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم موڑ تھا جس
نے خطے کی پوری صورتحال کو بدل کر رکھ دیا تھا وہ عوامی بغاوت جس نے عرب
ملکوں کے حُکمرانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا تھا مگر ’اس کے بعد سے صورتحال
یکسر تبدیل ہو گئی اور ان بغاوتوں کی ناکامی نے خطے کو عدم استحکام کا شکار
کر دیا۔ بہت سے ممالک اب بھی خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے ہیں جو ان سے نکلنا
بھی چارہے ہیں مگر نکل نہیں پارہے جیسے یمن، شام یا عراق۔ شام اور عراق جو
دو سیاسی نظریات کے حامل مرکزی اور طاقتور ملک تھے اور امریکہ کو چیلنج کر
سکتے تھے آج منظرنامے سے غائب ہو چکے ہیں۔ لیبیا غائب ہو گیا، مصر اقتصادی
عدم استحکام میں جبکہ سوڈان خانہ جنگی میں پھنسا ہوا ہے۔‘
’اس مستقل بحران کی حالت میں عرب معاشرے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے
ہوئے بھی بے بس محسوس کرتے ہیں، وہ خود ظالم آمریتوں میں زندگی گزار رہے
ہیں۔ عرب دنیا اس وقت افسوسناک حالت میں ہے، لوگوں کے پاس عزت کے ساتھ جینے
کی آزادی یا صلاحیت یا آرزو نہ ہونے کے برابر ہے, اس کے باوجود، فلسطینوں
کے حق میں سماجی ردعمل حکومت کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور رہا حالانکہ
یہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا پر ہی رہا ہے۔
عرب سپرنگ کے بعد سے خطہ کے بہت سے ممالک کی سڑکیں ایسی سرگرمیوں کے لیے
مخصوص ہو گئی تھیں ۔ جہاں آمرانہ حکومتوں نے کبھی فلسطینیوں کے دفاع میں
مظاہروں میں لوگوں کو مایوسی کا اظہار کرنے کی اجازت دی تھی، وہیں آج انھیں
خدشہ ہے کہ اس طرح کے مظاہروں سے کچھ اور نہ ہو جائے گا۔
لیکن ان ہنگامہ خیز برسوں میں صرف یہی چیز نہیں بدلی، جب لاکھوں لوگ عرب
تیونس، مصر، لیبیا، شام، بحرین اور مراکش جیسے ممالک میں جمہوریت اور سماجی
حقوق کا مطالبہ کرنے سڑکوں پر نکل آئے۔
’عرب سپرنگ واقعی ایک زلزلہ تھا اور اس نے بہت سے ممالک کے حالات اور
ترجیحات کو بدل دیا۔ کچھ پرانی حکومتیں ختم ہو گئیں اور دوسرے عرب حکمرانوں
نے سوچا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہونے جا رہے ہیں، اس لیے وہ گھبرا گئے،
دائیں بائیں دیکھا اور تحفظ تلاش کیا۔ بہت سے لوگ اس خیال میں مبتلا ہو گئے
کہ امریکہ انھیں یہ کہہ کر بیوقوف بنا رہا ہے کہ اسرائیل، خطے میں اس کا
اتحادی ہے جو ان کی حفاظت کر سکتا ہے۔‘
عرب سپرنگ کے کچھ سال بعد ہی جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر تھے، امریکہ کی
ثالثی کے تحت بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات
قائم کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں بعد ازاں مراکش اور سوڈان بھی شامل
ہوئے گئے.
اس کے جواب میں امریکہ کی جانب سے جواب دینے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور
واشنگٹن نے مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کیا، جو کہ خود
ارادیت پر ریفرنڈم کو ناممکن بنا دیتا ہے۔
جب لوگ ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو دیکھتے ہیں تو عوام کو پتا
چلتا ہے کہ اس کے تحت اسرائیل نے انھیں ایسے نگرانی کے نظام بیچیں ہیں جو
یہ اپنے عوام کی خفیہ نگرانی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
جیوسٹریٹیجک مفادات اور عرب ممالک کے بحران کے علاوہ مسئلہ فلسطین کو بھی
وقت گزرنے کے ساتھ فراموش کر دیا گیا۔ وہ تصورات جو کبھی مشرق وسطیٰ کے
دلوں کو دھڑکاتے تھے، جیسے عرب قوم پرستی اب محض ماضی کی بازگشت ہیں۔
عرب ’خطے کی زیادہ تر نوجوان نسل فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتی ہے لیکن وہ
تنازعات کی وجوحات اور اصل کو نہیں جانتی کیونکہ یہ چیزیں اب اسکولوں میں
نہیں پڑھائی جاتی ہیں۔ آج معاشرہ حتیٰ کہ شناخت بھی گلوبلائزیشن کے ساتھ
بدل چکی۔‘
ایسا ہی کچھ نئے رہنماؤں کے ساتھ ہوا۔
’خلیجی ممالک میں مثال کے طور پر، سعودی عرب میں محمد بن سلمان جیسے لیڈروں
کی پوری نئی نسل موجود ہے، جو زیادہ تر مغرب میں تعلیم یافتہ ہیں، جو عرب
نہیں اور فلسطین کو ایک مسئلہ کے طور پر نہیں دیکھتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب ان کی ترجیحات کے ساتھ ساتھ ان کے عزائم بھی مختلف
ہیں۔‘
|