"جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود" علامہ اقبال کا
یہ فلسفہ عصر حاضر میں تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں خاص طور پر بہت اہمیت
رکھتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ترقی اور تعمیر ہمیشہ نئے خیالات پر
منحصر رہی ہے۔ موجودہ دور میں جب تکنیکی انقلاب (Technological Revolution)
اپنے عروج پر ہے اور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) ،
انجینئرنگ،میڈیکل سائنسز اور دیگر شعبے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اس تصور کی
معنویت اور بھی بڑھ گئی ہے۔جدت یا اختراع (Innovation)کا مقصد صرف مسائل سے
نجات حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ قومی معیشت کی ترقی اور سماجی بہتری میں
بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے نوجوان ذہانت، صلاحیت اور قابلیت سے مالا
مال ہیں۔ یہاں کے لوگ دنیا کے کسی بھی میدان میں نمایاں کارنامے انجام دینے
کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں تحقیق اور ایجادات کی
رفتار نہایت سست ہے اور عالمی سطح پر اس حوالے سے ہمارا کوئی قابلِ ذکر
مقام نہیں ہے۔ یہ صورتحال محض اتفاقی نہیں بلکہ اس کے پیچھے چند بنیادی
عوامل کارفرما ہیں جو قوم کے ہونہار اور تخلیقی ذہنوں کو ان کی پوری
صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرنے سے روکتے ہیں۔
سب سے پہلا مسئلہ تعلیمی نظام کی پسماندگی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے طلباء کو
صرف امتحان پاس کرنے اور نوکری حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں۔ نصاب
میں طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کی سوچ کو وسعت دینے پر
زور نہیں دیا جاتا۔ نتیجتاً طلباء صرف رٹا لگانے اور روایتی طریقوں کے تحت
تعلیم حاصل کرنے تک محدود رہ جاتے ہیں۔ جب تخلیقی اور تنقیدی سوچ کو پروان
چڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی تو نئے خیالات اور ایجادات کا سامنے آنا
کیسے ممکن ہے؟
دوسرا اہم مسئلہ وسائل کی کمی ہے۔ ہمارے ملک میں تحقیق اور ترقی(R&D)کے
شعبے کو خاطر خواہ فنڈنگ فراہم نہیں کی جاتی۔ تعلیمی ادارے اور تحقیقی
مراکز جدید آلات (Modern Equipment) اور تجربہ گاہوں(Laboratories) سے
محروم ہیں۔ اس کے علاوہ محققین کو درپیش مالی مسائل اور حکومتی تعاون کی
کمی بھی ایجادات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جو نوجوان تحقیق و اختراع میں
دلچسپی رکھتے ہیں انہیں یا تو اپنی کوششوں سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے یا پھر
بیرون ملک جا کر اپنی صلاحیتوں کو منوانا پڑتا ہے۔
تیسری رکاوٹ معاشرتی رویے اور ثقافتی پسماندگی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں
روایتی سوچ اور فرسودہ نظریات کا غلبہ ہے جو تبدیلی اور نئی سوچ کو تسلیم
کرنے میں تامل کا شکار ہے۔ جب کوئی نوجوان اپنے منفرد اور انوکھے خیالات
پیش کرتا ہے تو اسے غیر سنجیدہ لیا جاتا ہے اور اکثر اسے تنقید کا نشانہ
بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ رویہ نوجوانوں کے جوش و جذبے کو سرد کر دیتا ہے اور
وہ ایجادات اور تحقیق کے میدان سے مایوس ہو جاتے ہیں۔
پاکستانی جامعات اور تحقیقی مراکز تحقیق اور ایجادات کے میدان میں جدید
چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہائر ایجوکیشن کمیشن(HEC-Pakistan)نے
تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔جس کے نتیجے میں
جامعات کی تعداد میں اضافہ ہوا اور جدید تحقیقی مراکز کا قیام عمل میں آیا
جو یقیناً مثبت اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ تاہم، ایچ ای سی کے موجودہ نظام میں
تحقیقی مقالات کی تعداد اور حوالہ جات کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے جبکہ
تحقیق کے عملی فوائد کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے جو کہ تحقیق کا اصل مقصد
ہونا چاہیے۔ ترقی اور پروموشن کے معیارات زیادہ تر روایتی اشاعتی پیمانوں
پر مبنی ہیں جس کی وجہ سے محققین کی توجہ صرف مقالات کی اشاعت پر مرکوز ہے
چاہے ادائیگی یا ناقص ڈیٹا کی بنیاد پر ہوں۔ اس رجحان نے تحقیق کے معیار کو
متاثر کیا ہے جبکہ انفراسٹرکچر کی کمی، مالی وسائل کی عدم دستیابی اور
تحقیق کے نتائج کو عملی میدان میں نہ لانے جیسے مسائل اب بھی برقرار ہیں۔
تحقیق کا اصل مقصد مقامی مسائل کا حل اور معاشرتی بہتری میں کردار ادا کرنا
ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر تحقیقات مقامی ضروریات اور
حقیقی مسائل سے ہٹ کر ہیں۔
ان دنوں پاکستانی جامعات خود کفیل ہونے اور مالی طور پر خود مختار بننے کی
کوشش کر رہی ہیں جس کے لیے وہ اپنے وسائل پر انحصار بڑھانے کی پالیسی پر
عمل پیرا ہیں۔ تاہم یہ خود کفالت زیادہ تر طلباء کی فیسوں میں اضافے اور
موجودہ انفراسٹرکچر کے محدود استعمال پر مبنی ہے۔ اس سے طلباء پر مالی دباؤ
بڑھ رہا ہے جبکہ دستیاب تعلیمی وسائل کا مناسب استعمال نہ ہونے کی وجہ سے
تحقیقی اور تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
مزید برآں، جامعات میں تحقیق اور ایجادات کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔جیسا
کہ تجرباتی آلات کی قلت، جدید ٹیکنالوجی تک محدود رسائی، تعلیمی وتحقیقاتی
بجٹ کا فقدان، تحقیقاتی مراکز اور لیبارٹریز کی کمی، صنعت و تعلیمی اداروں
کے درمیان کمزور روابط، نصاب میں اصلاحات کی عدم موجودگی اور بین الاقوامی
تحقیقاتی تعاون کی محدودیت تحقیق اور جدت کی ترقی میں رکاوٹیں ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے جس
میں طلباء کی فیسوں کے بوجھ کو کم کرتے ہوئے دستیاب وسائل کا بہترین
استعمال کیا جا سکے۔ پاکستانی جامعات کو جدید تحقیق اور اختراعات کے مراکز
میں تبدیل کرنے کے لیے بین الاقوامی تجربات اور کامیاب تعلیمی ماڈلز کی
روشنی میں چند اقدامات ضروری ہیں جو درج ذیل ہیں۔ یہ تجاویز جامعات کو
تعلیمی اور تحقیقی شعبوں میں مضبوط اور خود کفیل بنانے میں مددگار ثابت ہو
سکتی ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف تعلیمی اور تحقیقی معیار میں بہتری آئے گی
بلکہ صنعتی شعبے کے ساتھ پائیدار روابط بھی قائم کیے جا سکیں گے۔
أ. جامعات میں اختراعی کلچر (Innovative Culture) کو فروغ دیا جائے۔ اس کے
لیے طلباء اور محققین کو ایک ایسی فضا فراہم کرنا ہوگی جہاں وہ بے خوفی سے
تجربات کریں،ناکامیوں سے سیکھیں اور خیالات کو عملی شکل میں ڈھال سکیں۔
ب. جامعات اور تحقیقی مراکز میں موجود تجرباتی آلات کو آن لائن پلیٹ فارمز
پر دستیاب کیا جائے۔ یہ پلیٹ فارم جامعات کے طلباء، دیگر تعلیمی اداروں کے
محققین اور صنعتی ماہرین کو استعمال کے لیے دستیاب ہوں۔ اس عمل کو مؤثر
بنانے کے لیے مناسب فیس مقرر کی جا سکتی ہے جو آلات کی دیکھ بھال اور
تحقیقی عملے کی تربیت کے لیے استعمال کی جائے گی۔ یہ اقدام نہ صرف مالی
وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد کرے گا بلکہ تحقیق اور
اختراعات کو بھی فروغ دے گا۔
ت. تحقیقاتی مراکز اور لیبارٹریز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کلاس رومز کے
مؤثر استعمال کے لیے ایک مرکزی ریگولیٹری پلیٹ فارم (Centralized
Regulatory Platform)قائم کرنا ضروری ہے۔ اس نظام کے تحت
منتظمین(Managers)کو مقرر کیا جائے جو تعلیمی بلاکس کے وقت کا جدول (Time
Table) منظم کر یں ۔اس نظام کے تحت غیر استعمال شدہ کلاس رومز کی نشاندہی
کر کے ان کو تحقیقی لیبارٹریز یا اختراعی مراکز میں تبدیل کیا جا سکتا ہےجس
سے تعلیمی ادارے انفراسٹرکچر کا بہترین استعمال کر سکیں گے۔
ث. مرکزی ریگولیٹری ڈیجیٹائزڈ پلیٹ فارم جامعات میں انتظامی بوجھ کو مؤثر
طور پر کم کرے گا جس میں ٹائم ٹیبل کی تیاری، لیکچرز کے انتظامات اور طلباء
سے متعلق معلومات کا حصول شامل ہوگا۔ یہ اقدام دیگر ریگولیٹری اتھارٹیز کے
ساتھ معاملات کو منظم کرنے اور غیر ضروری بوجھ کو کم کرنے میں مدد دے گا۔
اس طرح ماہر اساتذہ تدریس اور تحقیق پر پوری توجہ دے سکیں گےجس سے وقت کا
بہترین استعمال ممکن ہوگا۔
ج. نوجوان محققین کی تربیت اور رہنمائی کے لیے ایک باضابطہ پروگرام کا
آغاز کیا جانا چاہیے۔ اس پروگرام کے تحت تجربہ کار محقق اساتذہ نوجوانوں کی
رہنمائی کریں جو نئی نسل کے لیے ایک مثبت اور سازگار ماحول فراہم کرے گا۔
ح. بین الاقوامی سطح پر تحقیقی معیار کو بہتر بنانے کے لیے جامعات کو
عالمی اداروں کے ساتھ تحقیقاتی تبادلہ پروگرام شروع کرنا چاہیے۔ اس سے
ہمارے محققین کو عالمی معیار کی تحقیق سے فائدہ ہوگااور بین الاقوامی
محققین کی شمولیت سے تعلیمی ماحول میں بہتری آئے گی۔
خ. جامعات کو ایسی تحقیق کو فروغ دینا چاہیے جو ہمارے سماجی، اقتصادی اور
ماحولیاتی مسائل کو حل کرے۔ اس طرح کی تحقیق عالمی گرانٹس(International
Funds) حاصل کرنے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی تحقیقی اداروں کی ساکھ
کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہو ں گی۔
د. مخصوص شعبوں میں تحقیق کے فروغ کے لیے تحقیقاتی مراکز کا قیام ضروری
ہے۔ یہ مراکز صنعتوں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے حقیقی مسائل کے حل میں
معاون ثابت ہوں گے اور اختراعات کو فروغ دیں گے۔ اس تعاون سے صنعتیں
مالی،تحقیقی، تجرباتی اورفکری معاونت فراہم کریں گی اور جامعات کو جدید
تحقیق کے لیے بہتر وسائل دستیاب ہوں گے۔
ذ. جامعات کو سالانہ انوویشن سمٹ (Innovation Summit) منعقد کرنی چاہئیں
جس میں تعلیمی اداروں کی تحقیقی کامیابیوں اور صنعتی تعاون کو اجاگر کیا
جائے۔ یہ سمٹ طلباء، اساتذہ اور صنعت کے ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر لائیں
گی جہاں وہ اپنے منصوبوں کو پیش کر سکیں اور نئے تحقیقاتی منصوبوں کے لیے
شراکت داری قائم کر سکیں۔
ر. سابق طلباء (Alumni) کے ساتھ روابط قائم کرنا تحقیقی میدان میں نئے
مواقع فراہم کر سکتا ہے۔سابق طلباء ایسوسی ایشن(Alumni
Association)اورصنعتی مشاورتی بورڈز (Industrial Advisory Boards) تحقیقاتی
منصوبوں کی ترقی کے لیے قیمتی رائے اور وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔
ز. اعلیٰ تحقیقی منصوبوں کے لیے ایکسیلیریٹر پروگرام (Accelerator
Program) شروع کیا جا سکتا ہےجو تیز تر ترقی کے لیے مختصر مدت کی مالی
معاونت اور وسائل فراہم کرے۔ اس پروگرام سے نئے خیالات کو جلدی پروان
چڑھایا جا سکے گا اور محققین کو فوری تجربات کرنے کے مواقع ملیں گے۔
س. حکومتی سطح پر ایسے تحقیقی منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو مقامی
اور قومی مسائل کے حل پر مبنی ہوں اور عملی تحقیق کے لیے خصوصی گرانٹس اور
مراعات دی جائیں۔
ش. تحقیقی پروگراموں میں کاروباری تربیت کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ
محققین اپنے تحقیقی منصوبوں کو مارکیٹ میں لا سکیں۔ انٹلیکچول
پراپرٹی(Intellectual Property)، مارکیٹ کا تجزیہ (Market Analysis) اور
بزنس ڈیولپمنٹ(Business Development)جیسے موضوعات پر تربیتی ورکشاپس محققین
کو کاروباری میدان کے لیے تیار کریں گی۔
ص. جامعات میں پیٹنٹس اور پروٹوٹائپس کے فروغ کے لیے مربوط پالیسیز نافذ
کی جا ئیں اور پیٹنٹ سہولت مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ اس اقدام سے
نہ صرف تحقیقی معیار میں بہتری آئے گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستانی
جامعات کی اختراعی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جائے گا اور محققین کو اپنی
ایجادات کو تجارتی مواقع میں بدلنے میں بھی معاونت ملے گی۔
ض. عمدہ تحقیق کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ انعامی نظام متعارف کرایا جا
سکتا ہے۔ نمایاں تحقیقی منصوبوں، پیٹنٹس(Patents) اور صنعتی تعاون کے لیے
انعامات دیے جائیں جو اساتذہ اور طلباء کو تحقیق اور اختراعات کی طرف راغب
کریں گے۔
ط. جامعات میں تحقیق کو فروغ دینے کے لیے لچکدار پالیسیاں(Flexible
Policies) متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔ اساتذہ کو تحقیق کے لیے چھٹی دینا
(Research Leave)، تدریسی بوجھ میں کمی کرنا اور بین الشعبہ جاتی منصوبوں
(Interdisciplinary Projects) کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات اساتذہ کو
تحقیق کے میدان میں بہتر کارکردگی کے لیے تیار کریں گے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کو مؤثر بنایا جائے تاکہ وقت کا ضیاع
کم سے کم ہو ورنہ ہر کوشش بے سود ثابت ہوگی۔ مثال کے طور پر آئی پی او
پاکستان (IPO-Pakistan) سے پیٹنٹ حاصل کرنے میں 5 سے 6 سال لگ سکتے ہیں اس
لیے تجربہ کار پیٹنٹ اٹارنی (Patent Attorney) کی خدمات حاصل کی جانی
چاہئیں۔
"ورنہ غالب کا یہ فلسفہ اچھی طرح یاد رکھنا ہوگا:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونےتک
غالب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کچھ خواہشات اتنی پیچیدہ اور گہری
ہوتی ہیں کہ شاید زندگی میں ان کا حصول ممکن نہ ہو اور وہ ایک طویل اور صبر
آزما سفر کا تقاضا کرتی ہیں جس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔"
اس لیے ضروری ہے کہ متعلقہ ادارےجیسےدفتر برائے تحقیق، جدت اور تجارت کاری
(ORIC) اور آئی پی او پاکستان اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ اگر یہ ادارے فعال
نہ ہوئے تو محققین کی کوششیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ آج بہت سے ذہین افراد مواقع
کی کمی اور مناسب نظام کی عدم موجودگی کے باعث بیرون ملک جا رہے ہیں یا
اپنا تحقیق کا شعبہ خصوصاً انجینئرنگ کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔یہ وقت کی
ضرورت ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں ورنہ ہماری
محنت اور جدوجہد غالب کے فلسفے کے مطابق طویل انتظار کی نذر ہو سکتی ہے۔
اگر متعلقہ اداروں کو مؤثر اور فعال بنا دیا جائے تو مایوسی کی (آہ) کو
کامیابی کی (واہ) میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
|