لاہور کینٹ کی والٹن روڈ، لاہورکی سب سے اہم شاہراہ
کاروپ دھار چکی ہے ۔ جب سے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی وجود میں آئی ہے، اس کے
تمام فیز کا راستہ والٹن روڈ سے ہی ہو کر گزرتا ہے ۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے
کہ والٹن روڈ، لاہور کینٹ کی مرکزی شاہراہ بن چکی ہے جوغریب اور امیر افراد
کا ذریعہ سفر ہے ۔علاوہ ازیں یہ شاہراہ نہ صرف پیر کالونی ،قادری کالونی ،
نیواقبال پارک ، غوثیہ کالونی ، مدینہ کالونی ، فاروق کالونی ، المدینہ
ٹاؤن کے رہنے والوں کے لیے اہم جزو کا درجہ حاصل کرچکی ہے کیونکہ یہاں سے
گزر کر صبح و شام لوگ اپنے دفتروں کارخ کرتے ہیں اور واپس بھی اسی کے ذریعے
آتے ہیں ۔صرف یہی نہیں۔ یہ شاہراہ چونگی امرسدھو اور فیروز پور روڈ سے
ملحقہ تمام انسانی آبادیوں کا مرکزی راستہ قرار پاچکی ہے ۔اسی شاہراہ پر
چلتے ہوئے کینٹ ایریا ، صدر بازار، مغل پورہ ، لنک شالیمار ٹاؤن ،مصطفے
آباد اور ہربنس پورہ سے ہوتے ہوئے لوگ واہگہ سرحد تک پہنچ جاتے ہیں۔پچھلے
سال ( اکتوبر 2023) کووالٹن روڈ کے دونوں اطراف کی سڑکوں کو اس طرح اودھیڑ
دیا گیا جیسے یہاں پہلے کوئی شاہراہ نہیں تھی۔ اس سے نہ صرف ڈیفنس ہاوسنگ
اتھارٹی کے لوگ پریشان ہو ئے بلکہ والٹن روڈ سے ملحقہ آبادیوں کے رہنے
والوں کے لیے بھی یہ صورت حال ایک عذاب کی شکل اختیارکرگئی۔ گردو غبار کے
طوفان نے ہمارے گھروں کا رخ کرلیا ۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس
پروجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے دونوں اطراف کی سائیڈ روڈ کو تعمیر کرلیا
جاتا تاکہ یہاں سے گزرنے والوں کو ایک معقول راستہ مل جاتا۔ 22اکتوبر 2024ء
بروز منگل نماز عصر پڑھ کے میں پیدل ہی چلتا ہوا گھرآیا تواچانک میرا سینہ
کچھ بھاری سا محسوس ہوا جبکہ سانس لینے میں بھی دشواری ہورہی تھی ۔ گھر
پہنچ کر ایک گولی زبان کے نیچے رکھ لی ۔جس سے سینے کا دباؤ کسی حد تک کم
ہوگیا ۔مغرب کی نماز اطمینا ن پڑھ لی۔ لیکن جیسے ہی میں ٹی وی دیکھنے کے
لیے بیڈ پر لیٹا تو درد کی شدت نے آسمان کو چھو لیا اس حالت میں میری چیخ
نکل گئی ۔بیگم سمیت گھر کے تمام افراد بھاگتے ہوئے پہنچے ۔میری زبان پر صرف
یہی الفاظ تھے کہ مجھے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے چلو ۔میرا چھوٹا
بیٹا زاہدسہارا دے کر مجھے گھر سے باہر لے آیا ۔ ایک پرانا دوست راجہ معظم
میرے گھر کے قریب ہی رہتا ہے، میں اور میرا بیٹا اس کی گاڑی پر سوار ہو
گئے۔اس لمحے جتنی تکلیف سے میں گزر رہا تھا اس کا ذکر الفاظ میں ممکن نہیں۔
میری زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا۔ میں بار بار یہی کہہ رہا تھا،گاڑی کواور
تیز چلاؤ۔چونکہ والٹن روڈ کی قادری کالونی، جہاں میری رہائش ہے ، یہاں ہر
لمحے رش لگا رہتا ہے ۔دس سال پہلے جب میں اس آبادی میں آیا تھا تو لوگوں کا
اتنا ہجوم نہیں تھا بلکہ کہیں کہیں کو ئی انسان چلتا پھرتا دکھائی دیتا تھا
۔ نہ جانے اتنے لوگ اس علاقے میں کہاں سے آبسے ہیں ۔اب شاید ہی سڑکوں کا
کوئی حصہ بغیر ٹریفک کے نظر آتا ہو ۔ پھر دوکانداروں نے بھی تجاوزات کرکے
سڑکوں اور راستوں کو مزید تنگ کررکھا تھا ۔ والٹن کنٹونمنٹ بورڈ میں انسداد
تجاوزات کا محکمہ تو موجود ہے لیکن وہ اپنے دفتر تک محدود رہتا ہے، رہی سہی
کسر خوانچہ فروشوں نے پوری کررکھی ہے ۔جہاں سڑک تنگ ہو، وہیں پر چھابڑی
فروشوں کو کھڑے ہونے کا مزا آتا ہے ۔ بھولا چوک کے قریب " مسجد اﷲ کی رحمت
"ہے ، اس کی دیوار کے ساتھ بھی کوئی نہ کو ئی کاروبارکرتا دکھائی دیتا ہے ۔
جس کو روکو وہیں گلے پڑتا ہے ،اس لیے ہر شریف آدمی اپنا دامن بچاکر چپ چاپ
وہاں سے گزر جاتا ہے ۔بہرکیف راجہ معظم بہت تیزی سے گاڑی چلانے کی جستجو
کررہے تھے لیکن اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو رہا تھاا جو ایمرجنسی کی حالت
میں دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے ۔کوئی شخص بھی راستہ دینے کو تیار نہ تھا ۔ایک
جانب ٹریفک کا یہ ہجوم اور دوسری جانب شدید درد کی وجہ سے میرا سینہ پھٹا
جا رہا تھا ۔میں مسلسل کلمہ طیبہ ورد کررہا تھا اور ساتھ ساتھ گاڑی تیز
چلانے کی التجا بھی کررہا تھا ۔ جیسے ہی گلیوں سے گزر کر ہم والٹن روڈ پر
پہنچے تو ہمارے سامنے انتہائی ناہموار اور گہرا راستہ تھا ،جس پر چلتی ہوئی
گاڑی مسلسل اچھل کود کررہی تھی ۔ اس لمحے یہ بھی ڈر تھا کہ ناہموار جگہ سے
کہیں گاڑی ہی الٹ نہ جائے ۔راجہ معظم چونکہ میرا پرانا دوست ہے ،اس لیے اسے
اپنی گاڑی سے زیادہ میری جان کی فکر تھی۔والٹن روڈ چونکہ ایک ہی جانب تعمیر
ہوئی تھی، اس لیے اس پر چلنے والی ٹریفک ایک ہجوم کی شکل اختیار کرچکی تھی
۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے پاگل خانے کا دروازہ کھول دیا ہے ۔جیسے
ہی گاڑی کیولری گراؤنڈ کی سیون سٹریٹ تک پہنچی تو میں سینے کے درد سے بے
حال ہو چکا تھا ، میں نے اپنے بیٹے محمدزاہد ( جو گاڑی کی پچھلی نشست پر
بیٹھا قرآنی آیات کا ورد کررہا تھا) اس سے مخاطب ہو کر کہا۔ بیٹا یوں محسوس
ہورہا ہے کہ آج میری زندگی کی آخری شام ہے ۔خالد مسجد کے پاس پہنچ کر میں
نے راجہ معظم سے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا راجہ صاحب جتنی تکلیف مجھے اس وقت
ہورہی ہے ، مجھے محسوس نہیں ہوتا کہ میں خیریت سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف
کارڈیالوجی پہنچ سکوں گا ۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ راستے میں جو بھی پرائیویٹ
ہسپتال نظر آئے ، وہاں گاڑی روک لینا ، کم از کم مجھے فوری طبی امداد تو مل
جائے گی۔ اس لمحے صرف کیولری ہسپتال ہمیں دکھائی دے رہا تھا ۔چنانچہ گاڑی
اس کے مین گیٹ کے سامنے ہماری گاڑی جا کر رکی ۔دوڑتے بھاگتے ہم ایمرجنسی
وارڈ میں پہنچے ۔ایمرجنسی میں میرے ساتھ کیا ہوا یہ میں پچھلے کالم میں بتا
چکا ہوں ۔ اس لمحے میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ( جو ماشا اﷲ بہت
متحرک خاتون ہیں) سے دونوں ہاتھ جوڑ کر یہ عرض کروں گا کہ جس کنسٹرکشن
کمپنی کو والٹن روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ دیاگیاہے وہ چیونٹی سے بھی کم رفتار
سے کام کر رہی ہیں جبکہ یہی سڑک والٹن روڈکے اردگرد رہنے والوں کے لائف
لائن کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔اگر ایک کمپنی کام کو تیز نہیں کرپارہی تو
ازراہ ایک کی بجائے چار پانچ اور کمپنیوں کو ٹھیکہ دے دیا جائے ۔یہ والٹن
روڈ ہماری زندگی اور موت کا سبب ہے یہاں سے بیمار بھی ہسپتالوں میں جاتے
ہیں اور مرنے والوں کے جنازے بھی یہیں سے گزر قبرستان جاتے ہیں لیکن وہی
چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی ،وہ اب بھی ہے ۔ چونکہ ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی
والوں کو سخت تکلیف کا سامنا ہے ،اس لیے انہوں والٹن روڈ سے ڈیفنس میں جانے
کے لیے چیل بیراج کے نام ایک فلائی اوور بھی تعمیر کردیا ہے ۔لیکن شاہراہ
والٹن روڈ کا وہ علاقہ جہاں سے عام اور غریب لوگ گزرتے ہیں وہ ایک سال کی
مدت مکمل ہونے کے باوجود ابھی ادھورا ہے۔ اس کام کی مدت 31اکتوبر 2024ء تھی
۔ لیکن والٹن روڈ کی تعمیر مکمل ہوتے دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ آپ اپنے
بہترین اقدامات سے خلق خدا کی دعائیں لیتی ہیں اس لیے آپ ہی توجہ فرمائیں
تو شاید کچھ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔ |