بابری مسجد کا فیصلہ رام بھروسے بلکہ رام بھگتوں کے
بھروسے کرنے والے جسٹس ڈی وائے چندر چوڑ نے مدرسہ ایکٹ پر اپنے دوٹوک فیصلے
سے سب کو چونکا دیا۔ ایک زمانے میں ججوں کو بھولا بھالا اور سیاستدانوں کو
عیار و مکار سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ طرز فکر کو بدل رہاہے ۔ آج کل کے
جج تو ملک کے گھاگ سیاستدانوں کے کان کاٹ رہے ہیں۔ جسٹس چندر چوڑ کی چکنی
چپڑی باتیں اور گول مول فیصلے ان کےاندر چھپے ایک نہایت زیرک سیاستداں کی
موجودگی کا اشارہ ہیں۔ چیف جسٹس بننے کی خاطر رام مندر پر نہایت بد بختانہ
فیصلہ لکھنے والے چندرچوڑ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ پوجاپاٹ کی
تشہیر کرکے سبکدوشی کے بعد عیش و آرام کا سامان کیا اور اب مدرسہ ایکٹ پر
بہترین فیصلہ سنا کر صدارت کی راہ ہموار کرلی۔ موصوف اگرآگے چل کر صدر
مملکت کے عہدے پر براجمان ہوجائیں تو لوگ رنجن گوگوئی کی ابن الوقتی کو
بھول جائیں گے ۔ مدارس کے فیصلے میں انہوں نے یوگی ادیتیہ ناتھ کو زک پہنچا
کر امیت شاہ اور ان کے آقا کو خوش کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر موصوف کے متوقع فیصلے کے حوالے سے اندیشے جنم
لینے لگے ہیں حالانکہ ناامیدی کفر ہے۔
ملک کے موجودہ عدالتی نظام پر ’تاریخ پہ تاریخ‘ والا سنی دیول کا مکالمہ صد
فیصد صادق آتا ہے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال عمر خالدیا شرجیل امام جیسے بے
شمار لوگوں پر فیصلے میں غیر معمولی تاخیر ہے۔ عدالتی فیصلوں کو ٹالنے کی
ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سبکدوشی سے قبل حکومت کو خوش کرکے مراعات
بٹوری جائیں کیونکہ سرکار دربار کی یادداشت عوام سے بھی کم ہوتی ہے اور
احسان فراموشی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے بھی اپنے آخری ہفتے
میں سب سے زیادہ متنازع معاملات کو نمٹانے کا ارادہ کررکھا ہے۔ مدرسہ ایکٹ
کی بابت تو انہوں نے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کی سُپر سرف سے ایسی
دھلائی کی کہ اب وہ گنگا نہانے کی ضرورت سے بے نیاز ہوگئے۔ یوگی کو یقین
تھا چونکہ اترپردیش میں ان کی سرکار ہے اس لیے الہ باد ہائی کورٹ ان کے
خلاف فیصلہ نہیں دےگا ۔ وہ اس خوش فہمی میں تھے کہ مرکز کی بی جے پی سرکار
سپریم کورٹ سے اس احمقانہ فیصلے کی توثیق کروالے گی لیکن بھول گئے کہ مرکزی
حکومت میں ان کا امیت شاہ نامی حریف بھی ہے جو ٹانگ کھینچنے کا کوئی موقع
نہیں گنواتا۔
عدالتِ عظمیٰ نے مدرسہ ایکٹ کی بابت الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ الٹ دیا
یعنی عدالتِ عالیہ جس قانون کو غیر آئینی قرار دیتی ہے سپریم کورٹ کووہ
دستور کے مطابق نظر آ تا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ
کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004
سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ وطن عزیز میں سیکولرزم بھی ایک
ایسا کھلونا ہے کہ اسے ایک طرف سے دیکھو تو گھوڑا اور دوسری جانب سے دیکھنے
پر گدھا نظر آتا ہے۔ ہندوتوا کے علمبردار اسے رخ بدل بدل کر دیکھتے ہیں ۔
کبھی تو وہ کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی ناز برداری کا آلۂ کار ہے اور
کبھی اپنے مخالفین کو جعلی سیکولر کہہ کر خود سچا اور پکا سیکولر ثابت کرنے
کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس معاملے کو لے کر ایک زعفرانی وکیل وشنو شنکر جین نے
عدالت عظمیٰ میں یہ اعتراض درج کرایا تھاکہ یہ آئین ساز اسمبلی میں پیش
کیے جانے والے نظریہ کے خلاف ہے۔ سبرامنیم سوامی کے مطابق آئین کی تمہید
میں یہ تبدیلی آئین کی حقیقی روح سے متصادم تھی۔ یہ اعتراض بھی ہے کہ اس
ایشو پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی تھی۔
سیکولرزم کی مخالفت کرنے والے ہندوتوا نوازوں کی منافقت اس وقت اظہر من
الشمس ہوجاتی ہے کہ جب وہ مدرسہ ایکٹ کو منسوخ کرنے کے لیے اسے سیکولرزم کا
مخالف قرار دیتے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کی مخالفت میں سیکولرزم خیر ہے اور اگر
کوئی ان کی حمایت کرنے کے لیے یہ اصطلاح استعمال کرے تو وہ شر ہے۔ جسٹس
سنجیو کھنہ نے دوہفتہ قبل 'سوشلزم' اور 'سیکولرزم' کے الفاظ ہٹانے کے
مطالبے پر سماعت کے دوران ایڈووکیٹ وشنو شنکر جین سے جب یہ سوال کیا کہ ،
"کیا آپ نہیں چاہتے ہیں کہ ہندوستان سیکولر رہے؟" تو وہ لاجواب ہوگئے۔
مذکورہ درخواست میں ان الفاظ کےآئین کی تمہید میں شامل کرنےکو پارلیمنٹ کی
آرٹیکل 368 کے تحت حاصل شدہ دستوری تبدیلی کی طاقت سے باہر کہا گیا ہے لیکن
یہی دلیل جب جموں کشمیر کی دفع 370 سے متعلق دی جاتی ہے ہندوتوا نوازوں کو
پاکستان یاد آنے لگتا ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس سنجیو کھنہ نے استغاثہ کے دلائل پر تبصرہ کرتے کہا تھا
کہ سماجوادی کا مطلب سبھی کے لیے مناسب مواقع فراہم کرنا یعنی مساوات کا
نظریہ بھی ہو سکتا ہے ۔انہوں نے اسے مغربی ممالک کی سوچ سے الگ سمجھنےکا
مشورہ دیاتھا ۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا سیکولرزم لفظ کے کچھ الگ معنی بھی
ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سوشلزم کا مطلب مساوات اور سیکولرزم کے
معنیٰ مذہبی رواداری ہیں تو پھر مغربی اصطلاحات کے استعمال کی ضرورت ہی کیا
ہے ؟ صحیح اصطلاح استعمال کرنے پر یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ
اسے مغربی ممالک کے طرزِ فکر سے الگ کیا جائے کیونکہ ایسا کرناممکن نہیں
ہے۔اس معاملے میں سبرامنیم سوامی کو تفصیل سے اپنے دلائل رکھنے کی خاطر
سپریم کورٹ نے 18 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتہ کی تاریخ دی ہے ۔ مدرسہ
ایکٹ پر فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے تسلیم کیا کہ ہندوستان مختلف ثقافتوں کا
مرکب ہےنیز ’’سیکولرازم کا مطلب ہے جیو اور جینے دو‘‘۔ عدالت نے’’ اسے اسی
طرح محفوظ رکھنے ‘‘پر زور دیا۔
مدرسہ ایکٹ پر ابہام سے پاک سپریم کورٹ کا فیصلہ قابلِ ستائش ہے۔ اس واضح
طور پر کہا گیا کہ یو پی مدرسہ ایکٹ آئینی طور پر درست ہونے کے سبب آئین کی
خلاف ورزی نہیں ہے۔اس لیےالہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ غیر درست تھا۔ عدالت
عظمیٰ نے وضاحت کی کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر غلطی کی کہ
بنیادی ڈھانچہ یعنی سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی کرنے والے اتر پردیش
مدرسہ ایکٹ کو ختم کرنا ہوگا ۔ سپریم کورٹ کے مطابق اترپردیش مدرسہ
ایجوکیشن بورڈ ایکٹ کی قانون سازی اسکیم مدارس میں دی جانے والی تعلیم کی
سطح کو معیاری بنانے کے لیے کی گئی ہے اور مذہبی تعلیم کوئی مسئلہ نہیں
ہےکیونکہ تعلیم کو وسیع البنیاد ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے دیگر ضروری
مضامین پڑھانے پر بھی زور دیا مگر اس کی خاطرپورا قانون ہی منسوخ کردینے کو
غلط بتایا ۔ اس فیصلے کے مطابق یہ مدارس اقلیتوں کے لیے کوئی علاحدہ سائلو
(جزیرہ) نہیں ہیں اور صدیوں کی ثقافت کو ختم نہیں کیا جا سکتا تاہم مدرسہ
بورڈ کے ڈگری دینے کا اختیار سلب کردیا۔
یوپی بورڈ مدرسہ ایکٹ کی مخالفت کرنے والے اندھے بھگت بھی یہ نہیں جانتے کہ
آخر یہ ہےکیا؟ مدرسہ کی تعلیم کو منظم کرنے کے لیے بنایا جانے والا یہ ایک
قانون ہے۔ ملائم حکومت نے 2004 میں جب اسے وضع کیا تو بی جے پی کے اٹل
بہاری واجپائی برسرِ اقتدار تھے ۔ انہیں اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی مگر
موجودہ حکمرانوں کو ہورہی ہے ۔ اس کا مقصد عربی، اردو اور فارسی کی تعلیم
دینا ہے اور اسے یو جی (کامل)، پی جی (فاضل) ڈگریاں دینے کا اختیار بھی
حاصل ہے۔اس پرمنشی، مولوی (دسویں جماعت) اورعالم (12ویں) کے امتحان کی ذمہ
داری ہے۔ اسے ڈپلومہ سرٹیفکیٹ کورس کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔اترپردیش کے
یہ مدارس اقلیتی بہبود کی وزارت کے تحت آتے ہیں جبکہ بقیہ تمام تعلیمی
ادارے وزارت تعلیم کے ماتحت ہیں ۔ امسال 22 مارچ کو ہائی کورٹ نے اسے
سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی بتاکر منسوخ کردیا تھا ۔ اس کے بعد 13,329
مدارس کے 33,689 اساتذہ اور 13,239 غیر تدریسی عملہ کے سرپر بیروزگاری کی
تلوار لٹکنے لگی تھی ۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڈ کی قیادت والی بنچ نے مانا کہ یہ ایکٹ مدارس کے
روزمرہ کے انتظام میں براہ راست مداخلت نہیں کرتا بلکہ ریاست کی مثبت ذمہ
داری یعنی ’بچوں کو مناسب تعلیم کی فراہمی ‘ سے مطابقت رکھتا ہے ۔بنچ نے
کہا کہ ’’سیکولرازم کےمثبت تصور کے تحت یہ ضروری ہے کہ ریاست اقلیتی اداروں
کے ساتھ بھی ویسا ہی مساوی سلوک کرے جیسا وہ سیکولر تعلیمی اداروں کے ساتھ
کرتی ہے اوران کا اقلیتی تشخص بھی باقی رکھے۔‘‘ کورٹ نے یہ اہم وضاحت کی
کہ’’تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کو یقینی بنانے کیلئے مثبت سیکولرازم
ریاست کو کچھ لوگوں کیلئے مختلف سلوک کی اجازت دیتاہےاورا یسا کرنا بنیادی
مساوات کے اصول سے مطابقت رکھتا ہے۔‘‘ سی جے آئی کا یہ اعتراف قابلِ تعریف
ہے کہ ’’ہندوستان بنیادی طور پر ایک مذہبی ملک ہے‘‘۔ اسی کے ساتھ یہ سوالات
بھی مبنی بر انصاف ہیں کہ ’’ کیا دینی ہدایات کو تعلیم نہیں سمجھا جا سکتا
ہے؟ مدارس پر پابندی لگانا قومی مفاد میں ہے یا انہیں قومی دھارے میں لانا
قومی مفاد میں ہے؟ نصاب کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے مدارس کی تعلیم کو
منظم کرنا ریاست کا کام ہوگا‘‘حکومت اس چور دروازے کا غلط استعمال کرسکتی
ہے لیکن ساتھ ہی جسٹس چندرچوڑ نے سرکار کو یہ نصیحت بھی کی کہ ’’ ہمیں
کینوس کے وسیع دائرہ کار کو دیکھنا چاہیے‘‘۔ جسٹس چندر چوڑ کو اس فیصلے کے
لیے یاد رکھا جائے گا۔
|