یورپ میں، نيدرلينڈ بارہ صوبوں پر مشتمل ہے اور اس کی
سرحدیں مشرق میں جرمنی، جنوب میں بیلجیم، شمال اور مغرب میں شمالی سمندری
ساحلی پٹی کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی سمندری سرحدیں دونوں ممالک کے ساتھ اور
شمالی سمندر میں برطانیہ کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔
نیدرلینڈ کی ٹوٹل آبادی 17942942 ہے.
یورپی ملک نیدر لینڈ ( ہالینڈ ) میں پچھلے ایک سال میں 43 ملین کی کتابیں
فروخت ہوئ ہیں۔ جبکہ اس سے پچھلے سال نیدر لینڈز میں تقریبا 40 ملین کی
کتابیں فروخت ہوئ تھیں۔ یہ hard books کی سیل ہے۔ آنلائن PDF books اس میں
شامل نہیں ہیں۔
اور پاکستان جس کی آبادی سرکاری زرائع سے تقریبا 23 کروڑ سے زیادہ تجاویز
کرگئی ہے. اتنی آبادی والا ملک کا حال دیکھو تو اب رونا بھی اب نہیں آتا کہ
روکے ہم کیا کرلینگے.
کچھ دن پہلے ایک اخباراور پھر میڈیا میں یہ خبر موضوع بعض بنی کہ انہی دنوں
لاہور کے کسی کالج نے کتاب میلہ کا انعقاد کیا تو اس کتاب میلہ پر بے شمار
برگر اور شوارمے سیل ہوئے اور خوب بریانی نے کاروبار کیا۔ اور کولڈ ڈرنکس
دھڑا دھڑ سیل ہوئیں جبکہ کتاب میلے میں صرف 35 کتابیں سیل ہوئیں۔
قوم کی ترجیحات میں فرق دیکھیے اور پھر دونوں اقوام کا معاشرتی اور اخلاقی
موازنہ کیجئے۔ یاد رہے کہ نیدر لینڈ وہی ملک ہے جس کا وزیر اعظم سائیکل پر
دفتر جاتا ہے۔ اور نیدرلینڈز ملک میں لوگ سائیکلوں کے شوقین ہیں اور سڑکوں
پہ گاڑیاں کم اور سائیکل زیادہ دکھائ دیتے ہیں۔
ان دونوں ممالک میں اتنا بڑا فرق یہ ہے کہ نیدر لینڈ میں کوئی وراثتی
حُکمراں نہیں آئے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت نے اس طرح کا کردار اپنی
جماعت میں برقرار رکھا. جبکہ دوسرا فرق یہی ہے جس سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا
ہے کہ جو بھی حُکمراں آیا وہ پڑھا لکھا اور ہائی کوالیفائیڈ میرٹ سے اپنے
منصب پر پہنچا اور اس نے ملک میں بھی یہی میرٹ اور قابلیت کو پروان چڑھایا
جس کا نتیجہ آج دنیا بھر میں نیدر لینڈ آبادی کم ہونے کے باوجود بھی سب سے
زیادہ بکس خریدی اور پڑھی جاتیں ہیں.
جبکہ ایک ہمارا ملک جس میں ہمیشہ کسی بھی ادارے یا سیاسی جماعت میں وراثتی
لوگ ہی آئے جو مُلک کو ترقی دینے کے بجائے اپنے اپنے وراثتی بچوں کو ہی
ترقی کے لیے راہ ہموار کرتے رہے قابلیت اور اہلیت کو ایک کونے میں رکھ کر
نااہلوں اور کند زہنوں کو ہی آگے لائے جس ک خمیازہ ملک اور قوم کی نسلوں کو
بھگتنا پڑ رہا ہے اور کب تک بھگتنا پڑئیگا کتابیں کیا پڑھنے کا شوق ہو تو
جب ہی خریدی جائینگی یہ شوق تو 1977 کی دھائی سے ہی اپنے زوال کی طرف آہستہ
آہستہ چلا پڑا تھا مگر اب گزشتہ ادوار سے ایسا لگتا ہے کہ جو پڑھ بھی رہے
ہیں وہ بھی اکثریت کے زیر اثر اُن پر بھی جاہلیت کا اثر کافی حد تک پڑئیگا
اس کی مثال آئے دن پاکستان کے روڈوں پر اکثر مختلف حادثات میں نظر آتا ہے.
جب تک اس ملک پاکستان میں میرٹ اور قابلیت کو نافذ نہیں کیا جائیگا تو
لوگوں کی تفریح صرف اور صرف یہی فوڈ اسٹریٹ کی طرف ہی رواں دواں رہیگی
کیونکہ جب جن کا پڑھنے لکھنے سے دماغ خالی ہے تو وہ ان فوڈ اسٹریٹ وغیرہ پر
جاکر ہی ان کو بھریگا تو اگلے دن کے لیے پھر تازہ دم ہوکر پھر کوئی نئی
اسٹریٹ کی طرف اپنے دماغ کو لگائے گا.
|