حال ہی میں اکتوبر کے آخری ہفتے میں ڈیموکریٹک پارٹی 60
سے زائد اراکین نے موجودہ صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ’امریکہ
پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں بشمول عمران
خان کو رہائی دلوائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رُکوائے۔‘اس خط میں
صدر بائیڈن کی انتظامیہ پر پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو گرانے کا
الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
مگر پاکستان اور امریکہ کی صورتحال پر دیکھی جائے تو آجکل کی صورتحال میں
امریکی صدارتی انتخاب کا بدھ کی رات مکمل نتیجہ آگیا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو
اکثریت حاصل ہوگئی اور جنوری میں وہ صدارتی منصب کا عہدہ کا حلف لیں گے
ادھر ہمارے ملک میں ایک ہوا چل رہی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گئے تو
کپتان کے لیے جیل کا دروازہ کُھل جائیگا جبکہ جنوبی ایشیاء کی صورتحال
دیکھتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نظر
نہیں آرہی ہے.
ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر صدر منتخب ہوگئے اور وہ جنوری 2025 کو حلف
اُٹھائینگے اس کے بعد یہی نظر آرہا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے ’ان کی توجہ
ماحولیاتی معاملات کے حوالے سے تعاون پر کم ہوگی اور اس میں اُتار چڑھاؤ کا
انحصار اس بات پر ہوگا کہ چین اور ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی کتنی
سخت گیر ہے۔‘
دیکھا جائے تو واقعی اس کا نام جمہوریت اور عوامی رائے کا قدر کی جاتی ہے
بظاہر جو گزشتہ امریکی الیکشن اور حالیہ الیکشن میں امریکی اسٹبلشمنٹ اور
انتظامیہ ٹرمپ کے خلاف تھی لیکن عوامی رائے کے احترام میں رکاوٹ نہیں ڈالی
گی جہاں ووٹ ڈالنا ہے اپنی حق خوداریت استعمال کریں ۔ اس ہی طرح قدر سے ملک
ترقی اور آگے کی طرف بڑھتے ہیں اور عوام کا اپنے اداروں پر اعتماد میں بھی
اضافہ ہوتا ہے۔
جبکہ جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں عوامی رائے کا احترام اس طرح نہیں کیا
جاتا جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں اب تک وہ صیح جمہوریت
سےکوسوں دور ہے. جس کی واضع مثال سری لنکا و بنگلہ دیش و وغیرہ ہیں.
ڈونلڈ ٹرمپ، جان ایف کینیڈی کے بعد دوسرے امریکی صدر ہوں گے، جو امریکی
اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر صدر منتخب ہوں گے۔
امریکی انتخابات کے نتائج کے پاکستان پر ممکنہ اثرات ہمیشہ سے امریکہ کی
پالیسیاں جارحانہ رہی ہیں ، جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ اب کوئی نئی
جنگ نہیں چھیڑی جائی گی۔
’ڈونلڈ ٹرمپ واحد امریکی صدر تھے جنہوں نے افغانستان کی جنگ ہارنے کا
اعتراف کیا اور اس کا ذمہ دار جرنیلوں کو ٹھہرایا۔ اس سے قبل کوئی بھی صدر
یہ ہمت نہیں دکھا سکا تھا۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حالیہ الیکشن کمپین میں اور اپنے ایک اخباری بیان میں
اس طرف اشارہ دیا تھا کہ وہ روس کے صدر کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے اور
یوکرین کی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اس ہی طرح گزشتہ ادوار میں اپنے صدارتی دور میں ’ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر سے
متعلق بھی بات کی تھی . جب عمران خان وزیر اعظم تھے۔ اس وقت انہوں نے آفر
کی تھی کہ وہ مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ
نریندر مودی بھی اس کے حق میں ہیں۔‘
اس وقت زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا میں عالمی امن کے
لیے بہتر امریکی صدر آپ قرار دے سکتے ہیں. ان (ٹرمپ) کے صدر منتخب ہونے کی
صورت میں امریکہ امن کے لیے اہم کردار ادا کرنے کا راستہ اپنائے گا.
ہمارے حُکمرانوں کو اس بات کی اب سمجھ آجانا چاہیے کہ امریکی سسٹم میں واضح
ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو۔ لیکن ہم پاکستانی ہمیشہ سے غلطی کرتے ہوئے چھوٹی
چیزوں پر بارگین کرتے ہیں، ملکی مفاد اور عوام کے مفاد کو ایک طرف کرکے صرف
اور صرف اپنی کرسی بچانے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بات کرتے ہیں
۔
پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں صرف دو حُکمراں ہی ’جنرل ضیاالحق اور
ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ کو خوب سمجھا تھا اور امریکہ سے اچھی بارگیننگ
کی تھی۔ یہ دونوں سابق حُکمراں امریکن سسٹم کو سمجھتے تھے۔ ان کے بعد میں
اور ان سے پہلے کوئی بھی پاکستانی حُکمراں امریکہ سے صیح بارگین نہیں کر
سکا۔‘
اس وقت پاکستان کو امریکہ اور چین سے اپنے تعلقات بنانا پاکستان کے بہترین
مفاد میں ہے۔ یہ پاکستانی کو سوچنا چاہیے کہ ’ان دونوں میں سے کسی ایک مُلک
کی دوستی پر تکیہ نہیں کر سکتے، کیونکہ جو امریکہ ہمیں دے سکتا ہے وہ چین
نہیں دے سکتا اور جو چین نے ہمیں دینا ہے امریکہ سے نہیں مل سکتا۔
’اس حوالے سے پاکستان کے پہلے حُکمران جرنل جنرل ایوب نے بہت اچھی مثال پیش
کی تھی کہ کہ اگر چین سے بگاڑ ہو گا تو ہمارا ملک ٹوٹتا ہے لیکن امریکہ سے
بگاڑ سے ہماری معیشت ٹوٹتی ہے۔‘
حالیہ وقت میں پاکستان کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر چین ہے کیونکہ اسلام
آباد کو جب بھی کسی بھی چیز کی ضرورت ہو، اسلحہ، ہتھیار، پیسے، ہر موقع پر
مکمل طور پر چین پاکستان کا ساتھ دیتا آیا ہے، جب کہ امریکہ آییں بائیں
شائیں کرتا رہتا ہے۔‘
جب بھی کشمیر کی بات ہو، اقوام متحدہ میں کوئی معاملہ ہو یا کبھی بھی کسی
مسئلے پر بات کرنی ہو تو چین ہماری آواز بنتا ہے۔ جب بھی پاکستان کسی
معاملے پر چین سے سپورٹ مانگتا ہے تو وہ مکمل طور پر سامنے آ جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چین ہماری ترجیح ہے۔‘
اس وقت ’ٹرمپ پاکستان میں سوائے عمران خان کے کسی کو بھی نہیں جانتے، عمران
خان سے ان کا ذاتی تعلق رہا ہے اور نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب
حکومت میں آئے تھے تو انہوں نے پاکستان کو کال کی۔ ہم نے اس وقت غلطی یہ
کی ساری گفتگو ٹی وی پر نشر کر دی، جس سے تعلقات تھوڑے خراب ہوئے۔
’لیکن جب عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو ٹرمپ نے بڑا والہانہ استقبال
کیا اور ان کی اہلیہ نے بھی عمران خان کو بڑی عزت دی۔ سیلفی بھی لی اور
پرائیویٹ کوارٹرز کا وزٹ بھی کروایا۔‘
اب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوگئےاور جنوری 2025 میں اپنا صدارتی
اقتدار سنبھالیں گےاس صورت میں پاکستان میں عمران خان کی جماعت پاکستان
تحریک انصاف کو کچھ حد تک فائدہ ہو گا۔‘
گزشتہ ادواروں سے حالیہ دور میں ’پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا برا حال ہو
چکا ہے۔ کوئی ایسی جماعت نہیں جس کا ایک پختہ نظریہ پر کاربند ہو ۔ اس وقت
ضرورت ہے کہ کچھ لوگ آگے آیں اور اس میں پل کا کردار ادا کریں اور ملک کو
جوڑیں۔ عوام کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ملک کے مسائل کوئی ایک شخص، ایک
جماعت یا ایک ادارہ اکیلے حل نہیں کر سکتا۔‘
|