پھر قافلے چلے ۔سفر نامہ حج تیسرا حصہ

یہ سارے مقامات رسولﷺ کے قدموں تلے رہتے تھے! اس خیال نے صدیوں پیچھے اس دور میں پہنچا دیا جب ذات گرامیﷺ اﷲکی دعوت لوگوں کو دینے کے لیے دنیا جہاں کی تکالیف اٹھا رہے تھے! انہوں نے تو اپنا کام کردیا، اب ہماری ذمہ داری ہے! حوصلوں کی کمی،نہ وہ اخلاق نہ وہ کردار ! نہ وہ دل سوزی ہے نہ صبر! جبھی تو امت کا یہ حال ہے؟ ؟؟؟ نماز ظہر کا وقت ہو رہا تھالہٰذا واپس ہوئے۔

وقت تیزی سے گزررہا ہے۔ گروپ نے دعوتوں کا سلسلہ شروع کیا ۔ہر دوسرے دن کسی ممبر کی طرف سے کھانا ہوتا۔ دن میں کسی وقت ہم قرآن کی منتخب سورتوں کے معنی اور مفہوم مل کر سمجھنے کی کوشش کرتے ۔جمعہ کے دن بھائی انور عظیم (جو حرم میں ہی ہوتے ہیں ) کی طرف سے زمزم ٹاور کے فوڈ کورٹ میں لنچ ہوتاجس میں احباب سے ملاقات ہوجاتی۔کبھی کبھار ضروری اشیا مثلًا چپل، اسکارف،بیگ یا پھر چھتری چٹائی وغیرہ لینے حرم سے ملحقہ بازار کا رخ کرنا پڑا تو لگا کہ صدر یا پھر اتوار بازار میں گھوم رہے ہیں! اور اگر کبھی ٹاور کی کسی شاپ میں گھسنے کا اتفاق ہوا تو قیمت سن کر پسینہ پونچھتے ہوئے باہر کا رخ کرتے۔

رش بڑھنے کے ساتھ ساتھ سول ڈیفنس والوں کے ایس ایم ایس آنا شروع ہوگئے تھے کہ چونکہ حرم فل ہے، راستوں میںجگہ نہیں ہے لہٰذا نمازیں اپنی قریبی مقامات میں ہی ادا کریں! ان اعلانات کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر سے ٹریفک غائب کردی گئی۔ اب دور کے لوگوں کے لیے حرم پہنچنا ناممکن ہوگیاہے! جمعہ ۶ ذوالحج کو ہم پانچ افراد صبح ہی صبح ٹیکسی میں روانہ ہوچکے تھے لہٰذا حرم پہنچ گئے جبکہ ہمارے گروپ کے دیگرممبران نہ جاسکے تھے۔واپسی میں پیدل آنا پڑا۔ تقریباً گھنٹہ بھر لگا بلڈنگ تک پہنچنے میں ،مگر امام کعبہ عبدالرحمٰن السدیس کی پرسوز آواز میں خطبہ اور نماز نے تھکن کے احساس کے بجائے ایک نیا جوش اور جذبہ سا بھر دیا تھا! آیتوں کا چناﺅ بھی بڑا برمحل تھا۔حج کے احکامات پر مبنی آیات ، حاجیوں کو فلسفہ حج بتا رہی تھیں!

اگلا دن یعنی 7ذوالحج منٰی روانگی کی تیاری کے حوالے سے تھا! وہ قلیل سامان جو ہمیں اپنے ساتھ حج کی ادائیگی کے لیے لے جانا ہے ۔بیگ کھلتے بند ہوتے رہے ۔ اطلاع یہ تھی کہ شاید آج ہی کسی وقت ہمیں منیٰ پہنچا دیا جائے گا۔رات گئے تک ہم منتظر رہے ، حتیٰ کہ فجر آپہنچی! نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ بس آگئی۔ہم سب نے احرام کی نیت کرلی اور وہ تیاری جس کا 24 گھنٹے سے انتظار تھا بالآخر فائنل ہوگئی! منیٰ کی حیثیت ویٹنگ روم کی ہے جہاں حاجی کوپانچ روز قیام کرناضرو ری ہے ۔وہ ارکان حج ادا کرنے کے لیے یہاں سے روانہ ہوتا ہے مگر رات کو یہاں ٹھہرنے کی پابندی ہوتی ہے۔

اندھیرا اجالے میں بدل رہا تھا اور ہم لبیک پڑھتے ہوئے جانب منیٰ تھے۔بس سے باہر دیکھا تو صبح کی پر نور روشنی میں دکانوں کے شو رومز میں سجی عریاں ڈمیز ہماری حالت احرام کے لیے چیلنج بن رہی تھیں! گھبرا کر پردے برا بر کردیے مگر اس سے وہ فحاشی اور عریانی ختم تو نہ ہوگی جس سے روکنے کے لیے انبیاءآتے رہے؟ جب بھی مکہ میں آلودگی کا سوچا، سڑکوں پر تھوکتے لوگ، حرم کی حدود میں سگریٹ پھونکتے مرد ہی ذہن میں آئے مگر یہ پلوشن جو سود کی کمائی سے منسلک ہے، خطبہ حجةالوداع کا مذاق اڑاتا نظر آیا اپنی سوچوں کو بریک لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ لبیک پڑھنا شروع کیا ۔حاجی کا ترانہ ،شاید لوگ زیرلب ہی پڑھ رہے تھے جبھی کوئی گونج پیدا نہ ہو پا رہی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم منیٰ پہنچ گئے جو حج کے دوران ہمارا مستقر رہے گا!

منیٰ میں قیا م
بس سے اترکر ،ا ورسامان اٹھاکر پہاڑ پر بنے اپنے خیمے پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں طے کیں ۔ خیمہ نمبر دیکھ کر اندر داخل ہوئے تو لگا کہ سیلاب زدگان کے کیمپ میں آگئے ہیں ! !

بیڈ نمبر98،جو ہمارے کارڈ پر درج تھا تلاش کرنے کی کوشش کی مگر معلوم ہوا کہ ایسی کوئی نمبرنگ نہیں ہے! جہاںدل چاہے بیٹھ جائیں! چونکہ ہم اولین پہنچنے والوں میں تھے لہٰذا نسبتاً صاف اور مناسب جگہ دیکھ کر اپنا سامان رکھ دیا۔ اس خیمے میں ڈیڑھ فٹ چوڑے اور پانچ فٹ لمبے تقریبا 500 گدے (انتہائی کثیف معہ ایک ننھا تکیہ) اسطرح رکھے گئے تھے کہ درمیا ن میں نماز توکجا چلنے کی بھی کوئی جگہ نہ تھی! گدوں پر پڑے انواع و اقسام کے دھبے ان کو پاکی کے حوالے سے مشتبہ بنا رہے تھے۔ سخت حبس تھا۔ پنکھے ندارد،گرچہ روم کولر لگے تھے مگر آن نہ تھے۔ اتنی بڑی جگہ میں محض دو تین بلب جل رہے تھے۔اس خیمے کا کرایہ 700 ریال فی حاجی لیا گیا ہے!!!

جب آمد شروع ہوئی تو صورت حال خاصی گھمبیر ہوچکی تھی! گنجائش سے کہیں زیادہ خواتین اور اس سے بڑھ کران کی رہبری کے لیے انکے محرموں کا دخول سخت تکلیف دہ تھا۔ مردوں اور خوا تین کے در میان کوئی آڑ نہ تھی۔ جس کے حل کے لیے چادریں لگا کر پردے کا انتظا م کیا مگرداخلی دروازے پر پردہ لگانے کی کوشش کو وہاں موجود خواتین اور حضرات نے سختی سے رد کردیا بلکہ بدزبانی پر اتر آئے! افسوسناک حالات تھے!واش روم کا جائزہ لیا تو تعداد میں بہت کم، انتہائی گندے اور تعفن زدہ، پانی ندارد! سوال یہ تھا کہ لوگ تو ابھی آرہے ہیں استعمال کس نے کیے؟ایک نے رائے زنی کی پچھلے سال سے ایسے ہی پڑے ہوں گے !کچھ کا خیال تھا کہ یہ یہاں انتظام کرنے والوں کا کارنامہ ہے جسے پا نی کی عدم دستیابی نے مزید خراب کردیا۔کافی دیر بعد پانی آیا (بعد میں معلو م ہوا کہ یہ بھی لوگوں کے گھیراﺅ کا نتیجہ تھے ) تو اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کی گئی ۔ اﷲ ان کو اجر عطا کرے!جگہ سے مانوس ہونے لگے تو بھوک پیاس کا احساس ہوا ۔کھانے کے نا م پر بسکٹوں اور پانی کی بوتلوںکا ڈھیر لگ گیا جبکہ کچھ لوگ چائے کی تلاش میں نکلے اورکامیاب رہے۔بہت سے افراد چٹائی لے کر نیچے سڑک پر قیام کے ارادے سے گئے مگر تیز ٹریفک یا پھر پولیس کارروا ئی سے گھبرا کر وا پس خیمے میں آگئے۔

معزز قارئین ! سفر حج کی روداد پڑھتے ہوئے یہ ساری باتیں یقیناً ناگوار لگ رہی ہوں گی اور ہمارا ارادہ بھی نہیں تھا ان باتوں کا ذکر کرنے کا ! مگر یہ باتیں تو چہار سو پھیل رہی تھیں۔ کراچی سے بھائی کا فون آیا کہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے اپنے خیمے کا ناگفتہ بہ حال میڈیا کے ذریعے بتایا ہے ، آپ لوگ کیسے ہیں؟ نہ چاہتے ہوئے بھی حال بتانا پڑا !

بلاشبہ حج ایک مشقت والی عبادت ہے جس میں گھر کا آرام تج دینا ہے مگر پاکی اور حیا پرتو کوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا!بات آسائشوں کی نہیں سہولتوں کی ہے! اپنی کرپشن تو ہم جانتے ہیں!مگر سوال سعودی حکومت کی میزبانی کا ہے؟ انہوں نے ان خیموں کوکس طرح اوکے کیا تھا؟سچ تو خاتون بیگم نے کہا ہم بیٹی کو سسرال بھیج کر خیر خبر نہ لیں تو اسکی قدر نہیں ہوتی اسی طرح جب حکمرانوں کو عوام کا خیال نہ ہو تودوسری حکومت کوکیا فکر؟ ہمارے کارندوں نے تو حقارت اور شاید فخرسے یہ ہی کہا ہوگا نا کہ بھئی ہماری عوام تو گزارا کر ہی لے گی! اپنی اوقات سوچ کر آنسو آجاتے ہیں!! کب ہماری تقدیر بدلے گی؟؟؟

وضوکے لیے ایک سلیب پر چھے نل لگے ہوئے تھے جن میں سے تین خواتین کے نام تھے مگر عملامرد ہی مستفید ہورہے تھے کیونکہ مردوں سے کندھا ملا کر وضو کرنا تو عام حالت میں بھی جائز نہیں کجا کہ حالت احرام میں ! چنانچہ بوتل میں پانی لے کر کونے میں کر رہے تھے لیکن اب کوئی خشک جگہ نہ رہی تھی،ہر جگہ کیچڑ! اور جہاں نل تھے وہاں سریے نکلی جگہوں پر جوہڑ بن چکے تھے! اﷲکسی بھی حادثے سے محفوظ رکھے ورنہ متوقع تو بہت کچھ تھا! شام ہوتے ہوتے کچرے کے ڈھیر لگ گئے تھے اور زندگی میں پہلی دفعہ اتنے قریب سے واش رومز اور کچرے کی مشترکہ بو میں فرق کرناہماری ناک نے تجربہ کیا! یااﷲ! کیا میزبانی ہے تیری؟ زبان پر نہ آیا مگر دل میں تو تھا! لوگ انتہائی زودرنج ہورہے تھے۔ جو لوگ ابتدا میںجارحانہ موڈ میں تھے اس وقت تک بے بس اور پسپا ہوچلے تھے! اسی عالم میں ظہر سے عصر اور مغرب پڑھی گئی!مغرب کے بعد اجتماعی دعا کروائی ۔ حالات کی خرابی سے خودبخود رقت پیدا ہوگئی تھی!
سیلاب اور کیمپ زدگان کی تکالیف کا احساس آج ہم شاید بہتر طور پر کرسکتے تھے! کچھ نے جل کر رائے زنی کی ”بھئی حاجی ہی پہلے آگئے! یہ بے چارے تو انتظام ابھی کرہی رہے تھے “ عشاءپڑھ کر لیٹے تو نیند آہی گئی۔کروٹ کی تو گنجائش ہی نہ تھی ہڑبڑا کے اٹھے تو محض بارہ بجے تھے! اٹھ کر تہجد پڑھنے لگے تو دیکھا سبھی جاگ رہے ہیں ! اﷲکیا رات ہے اور ہم دکھڑوں میں گزار رہے ہیں ؟ محرومی کے احساس نے سخت شرمندہ کیا ہوا تھا مگر عبادت کے لیے بھی یکسوئی چاہئے،! کیا کریں ؟ شا ید اﷲکو یہ بے کسی ہی منظور ہے! فجر کی نماز کے بعد پھر اجتماعی دعا کی۔اب عرفات کو روانگی تھی ۔یہاں کے غیرمحفوظ اور مخدوش حالات کے با عث یہ فیصلہ ہوا کہ سامان سا تھ لے کر ہی جایا جائے ! جیسے ہی بسوں کی آمد کا اعلان ہوا ، لوگ نیچے کی طرف دوڑے۔ جب ہم سڑک پر آئے تو معلوم ہوا کہ گروپ کے آدھے افراد روانہ ہوچکے ہیں !

(جاری ہے)
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74607 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.