کاربن کریڈٹ سے مراد ایک معاہدہ
ہے جس کی رو سے ایک ملک دوسرے ملک کو ایک ٹن کاربن ڈائی آوکسائیڈ تک خارج
کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اس ہدف سے کم کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے اخراج پر
کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ یہ کریڈٹ کسی بھی ملک کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ عام
کسان اور صنعت کار بھی کم کاربن ڈائی اوکسائیڈ یا گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج
کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کاربن کریڈٹ کو دینے کا مقصد دنیا بھر میں
کاربن ڈائی اوکسائیڈ اور ماحول پرمنفی اثرات مرتب کرنے والی دیگر گیسز پر
قابو پانا ہے۔ کاربن کریڈٹ ایک ایسی چیز ہے جس میں آلودگی کو خریدا اور
بیچا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں کاربن ڈائی آوکسائیڈ کے اخراج میں
سب سے زیادہ حصہ امریکہ، چین، بھارت، روس، جاپان، بھارت، جرمنی، برطانیہ،
کینیڈا، جنوبی کوریا اور اٹلی کاہے۔وطن عزیز پاکستان خدا کے فضل و کرم سے
ان ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جو کاربن ڈائی اوکسائیڈ یا گرین ہاﺅس گیسز
کا کم اخراج کرتے ہیں۔پاکستان کے مقابلے میں بھارت گیسزکا اخراج زیادہ کرتا
ہے۔ پاکستانی صنعتکار اپنی صنعتوں کے عالمی سطح سے کم کاربن اخراج کے ذریعے
ترقی یافتہ ممالک سے کاربن کریڈٹس حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان چینی اور سیمنٹ کی صنعت کے ذریعے کروڑوں روپے کا کاربن کریڈٹ بنا
سکتی ہے جس کے لئے وزارت ماحولیات کوششیں کر رہی ہے۔ کیوٹو پروٹوکول کا ایک
فریق ہونے کے ناطے، پاکستان مختلف صنعتوں کے منصوبوں سے کلین ڈویلپمنٹ
میکنیزم (سی ڈی ایم) کے طریقہ کار کے تحت کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کا اہل ہے۔
آلودگی سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ سی ڈی ایم یعنی کلین ڈیولپمنٹ مکینزم
کاربن کریڈٹ کے لیے رقوم فراہم کرتا ہے۔ وزارت ماحولیات صنعتوں کے لئے ایسے
منصوبے بنانے کی کوشش کر رہی ہے جن سے کاربن کریڈٹ حاصل کیا جا سکے۔
پاکستان میں توانائی کی قلت اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے آٹھ
سے دس سالہ پاکستان ڈومیسٹک بائیو گیس پروگرام (پی ڈی بی پی) شروع کیا گیا
ہے، جس کے تحت پاکستان بھر میں تین لاکھ بائیو گیس پلانٹ لگائے جائیں گے
اور سی ڈی ایم کے تحت اس پر کاربن کریڈٹ بھی حاصل ہو گا۔ سرکاری ادارے کے
مطابق 14000 بائیو گیس پلانٹس پنجاب میں لگائے جاچکے ہیں جبکہ باقی لگائے
جا رہے ہیں۔ اس منصوبے کے لئے متعدد این جی اوز اور مائیکرو فنانس اداروں
نے بھی تعاون کے لئے رضا مندی ظاہر کی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان نے ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے کا بھارتی ریکارڈ
توڑ دیا۔ یہ پودے ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے کیٹی بندر میں ایک دن میں لگائے
گئے۔ پاکستانی رضاکاروں نے چھ گھنٹوں کی مسلسل کوششوں کے بعد یہ اعزاز حاصل
کیا۔ اس مختصر وقت میں چار لاکھ 94 ہزار درخت لگائے گئے۔ بھارت نے اس سے
قبل ایک دن میں چار لاکھ 47 ہزار 814 درخت لگائے تھے اور اپنا نام گینز بک
آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کردیا تھا۔ ایسے ہی مزید پودے لگا کر پاکستان کاربن
کریڈٹ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ پودے کاربن ڈائی اوکسائیڈ کو جزب کرتے ہیں
اور اس طرح ایسی گیسز کی مقدار میں کمی ہوتی ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق یورپ میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کا اخراج اوسطاً دس
میٹرک ٹن فی کس سالانہ جبکہ امریکہ سالانہ 20 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آوکسائیڈ
خارج کرتا ہے جو دنیا میں کاربن ڈائی آوکسائیڈ کے اوسط اخراج سے چھ گنا
زیادہ ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق 2030ء تک توانائی سے متعلقہ کاربن ڈائی
اوکسائیڈ کے اخراج میں چین کا حصہ 55 فیصد اور بھارت کا 18 فیصد ہوگا۔ فضا
میں گرین ہاؤس گیسز آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس
اوکسائیڈ اور اوزون موجود ہیں جو تھرمل انفراریڈ شعاعوں کو جذب اور خارج
کرتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق اگر یہ گیسز فضا میں موجود نہ ہوں تو کرہ
ارض کا درجہ حرارت اوسطاً 33 ڈگر ی سینٹی گریڈ ہوگا۔دنیا بھر میں صرف
کمپیوٹرز کے ذریعے 45 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی اوکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔
صنعتی زمانہ شروع ہونے کے بعد فضا میں گرین ہاوس گیسز کی سطح بڑھی ہے جس سے
فضائی درجہ حرارت متاثر ہورہا ہے۔ درجہ حرارت میں زیادتی کی وجہ سے اوزون
کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے جو فضا کی اوپر والی سطح میں موجود نقصان دہ
الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین پر پہنچنے سے روکتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق
بیسویں صدی کے نصف کے بعد فضائی درجہ حرارت میں اضافے سے آج کل موسمی
تغیرات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ
چینج یو این ایف سی سی کے تحت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے
سلسلے میں 1997ء میں کیوٹو پروٹوکول کے نام سے بین الاقوامی معاہدہ کیا جا
چکا ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ نے بھارت کو دلی میں چلائی جانے والی میٹرو ٹرین
سروس پر اسے اپنے کاربن کریڈٹ کے لیے منتخب کیا ہے کیونکہ ٹرین شہر میں
گرین ہاوس گیسز میں کمی کے لیے کافی مدد گار ثابت ہوئی ہے۔ بھارت کے
دارالحکومت دلی کی میٹرو ریل دنیا کی ایسی پہلی ریل سروس ہے جسے کاربن
کریڈٹ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس سے متعلق اپنی رپورٹ میں
کہا ہے کہ میٹرو کا یہ نیا ٹرانسپورٹ نظام شہر میں سالانہ چھ لاکھ تیس ہزار
ٹن آلودگی کی سطح کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔ اس کے مطابق اگر
میٹرو نہیں ہوتی تو پھر تقریبا اٹھارہ لاکھ لوگ ہر روز کار، بسوں اور موٹر
سائیکل سے سفر کرتے جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا۔ سی ڈی ایم حوصلہ
افزائی کے لیے ترقی پذیر ممالک میں ان کمپنیوں کی مدد کرتا ہے جو گرین ہاوس
گیسز کے لیے کام کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ کلین ڈیولپمنٹ میکنزم نے،
جو کیوٹو پروٹوکول کے تحت کام کرتا ہے، اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دلی کی
میٹرو نے فضائی آلودگی میں کمی کی ہے۔ یہ ادارہ اب دلی کی میٹرو ریل کو
آئندہ سات برس تک کاربن کریڈٹ کے طور پر سالانہ ساڑھے نو لاکھ ڈالر کی رقم
فراہم کریگا۔ یو این کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کا
ادارہ کلین ڈیولپمنٹ میکنزم جو کیوٹو پروٹوکول کے تحت کام کرتا ہے نے اس
بات کی تصدیق کی ہے کہ دلی کی میٹرو نے فضائی آلودگی میں کمی کی ہے۔ اس کے
مطابق دنیا میں کوئی دوسرا میٹرو کاربن کریڈٹ اس لیے حاصل نہیں کر سکا
کیونکہ فضائی آلودگی میں کمی کرنے کے لیے جو ثبوت مہیّا کرنے ہوتے ہیں ان
کا عمل کافی سخت ہے۔
جب بھارت ایک میٹرو ٹرین کے ذریعے کاربن کریڈٹ حاصل کر سکتا ہے تو پاکستان
کیوں نہیں ہمارے ملک میں بھی ایسے بہت سے ذرائع ہیں جن سے کاربن کریڈٹ حاصل
کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے کسان اور زمیندار پودوں کو وسیع مقدار کو لگا کر
کاربن کریڈٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی کے ایک منصوبے کے تحت افریقی
ملک گھانا میں دو کروڑ چالیس لاکھ درخت لگائے جا رہے ہیں۔ منصوبے کا مقصد
ملک کے قدیم جنگلوں کو بحال کرنا ہے۔ جنگلات کی بحالی کے اس منصوبے کے
پیچھے برطانوی تنظیم آربورکارب کا ہاتھ ہے۔ فرم کے مطابق اتنی زیادہ مقدار
میں درخت لگا کر اور ان کے ذریعے کاربن کو ختم کرنے سے وہ کاربن کریڈٹ
فروخت کر سکے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بالکل صحیح وقت پر شروع کیا
گیا ہے اور مکمل ہونے تک یہ نوّے لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہضم کر جائے
گا۔ |