ایک اور ایشو

صاف ہوا بلا شبہ قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت اور انسانی زندگی کی بچاؤ کیلئے ناگزیر ہے۔پچھلے بیس سالوں سے آبادی، شہروں کی طرف نقل مکانی اور صنعتی ترقی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے ہمارے اردگرد موجود ہوا کی کوالٹی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔خصوصاًشہروں کی اگر بات کی جائے تووہاں فضائی آلودگی بہت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔افغانستان پر سوویت کے حملے کے بعدپچھلے تیس سالوں سے پشاور میں افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد میں آبادکاری کی وجہ سے بھی یہاں خوراک ، رہن سہن اورمواصلات کی صعنت پر ضرورت سے زیادہ بوجھ پڑی ہے نتیجتاً شہر کی فضا وقت کے ساتھ ساتھ پراگندہ ہوتی گئی ۔جو کہ آج اپنی آخری حدوں کو چھوکر یہاں کے باسیوں کیلئے وبال جان بن چکی ہے۔فضائی آلودگی یقینااس پشت کے لوگوں کی زندگی کیلئے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے اور اس سے بچاﺅایک سوالیہ نشان؟

مواصلات اورصنعتوںسے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی پیدا کرنے کے سب سے بڑے زرائع ہیں۔اس کے علاوہ خشت بھٹیاں،گھریلودھواں،ٹھوس گندگیوں کاجلانااور کچے سڑکوں سے اٹھنے والا گردبھی فضائی آلودگی کا موجب بنتے ہیں۔کاربن مونوآکسائیڈ،نائٹروجن آکسائیڈ،دھواں،گرد،ہائیڈروکاربن ا ور ٹیٹرا ایتائل لیڈ جیسے خطرناک گیسیں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کے ساتھ ہی ہمارے فضا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ایک طرف اگر پچھلے بیس سالوں کے دوران یہاں موجود گاڑیوں کی تعداد چار گنا ہو گئی ہے تو دوسری طرف غیر متناسب ایندھن اور کٹھاراگاڑیوں کا بے دریغ استعمال اس مسئلے کو سنگین تر بنا رہا ہے۔اس کے علاوہ بدقسمتی سے یہاں معدنی تیل سے چلنے والی گاڑیوں کی بہتات ہے جو کہ گیس سے چلنے والی گاڑیوں کی نسبت زیادہ آلودگی پیدا کرتے ہیں۔اگرچہ پاکستان سی این جی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنیوالے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے تاہم ابھی بھی اس حوالے سے ہمیں بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف قسم کے پروگراموں کے زریعے عوام میں اس حوالے سے شعور بیدار کرے کہ وہ اپنی گاڑیاں سی این جی زون میں لائیں اس سے ایک طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر دباﺅ کم ہو جائگا تو دوسری طرف ان گاڑیوں سے کاربن کا اخراج کم ہوگا اور یوں ماحول کم آلودہ ہوگا۔کچی سڑکوں یا سڑک کے کنارے چلنے والے گاڑیاں زمین سے گرد اٹھا کر اسے ہوا کا حصہ بنادیتی ہیں۔جو کہ ہوا میں معلق رہ کرسانس کے ساتھ ہمارے جسم کے اندر چلی جاتی ہے اور مختلف قسم کی خطرناک بیماریوں کا موجب بنتے ہیں۔

پشاور چونکہ افغانستان کے قریب واقع ہے وہاں سے بڑی تعداد میں آنیوالی گاڑیاں اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر رہی ہیں۔ احتیاطی تدابیر کی غیرموجودگی کی وجہ سے صنعتوں سے نکلنے والادھواں بھی اس مسئلے کو مزید گھمبیر کر رہاہے۔خیبر پختونخواہ میں ایک اندازے کے مطابق کچھ دوہزار کے قریب صنعتی یونٹس،چارسوچپس کارخانے اور تقریباً پانچ سو خشت بھٹیاں ہیں۔باقی صوبے کی نسبت پشاور، ہری پور،چارسدہ،نوشہرہ اورگدون امازئی کے آس پاس ان صنعتی یونٹس کی بھرمار ہے۔اگر ہم صرف خشت بھٹی سے پیدا ہونیوالی آلودگی کے حوالے سے حساب لگائیں تو ماہانہ اوسطاًآٹھ لا کھ اینٹ تیا ر کرنیوالی ایک خشت بھٹی آگ لگانے کیلئے ربڑ کی ایک بہت بڑی مقدار، آٹھ ٹن لکڑی، دو سو ٹن سستا کوئلہ اور بیس استعمال شدہ تیل کے بڑے ڈرم استعمال کرتی ہے۔اس کے علاوہ کہیں کہیں استعمال شدہ ربڑ کے ٹائرز بھی جلائے جاتے ہیں۔پشاور کے گردونواح میں آئے روز خشت بھٹیوں کی تعداد میں اضافے سے یہاں فضائی آلودگی دوگنی ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ صنعتی یونٹس بھی ان مخصوص مضر صحت گیسوں کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونیکی وجہ سے فضائی آلودگی کے پھیلاﺅ میں برابر کی حصہ دار ہے۔مناسب حفا ظتی انتظا مات کی غیر موجودگی کے سبب صوبہ خیبر پختونخوامیں فی کس فی دن تقریباً ایک کلو گرام میونسپلٹی کا کچرا سڑکوں پر ڈالا جاتا ہے۔جس کا تقریباً چالیس فیصد حصہ سڑکوں اور گلیوں میں ہی پڑا رہ جاتا ہے جس سے مختلف قسم کے جراثیم اور بدبو ہمارے ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں اور مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔اس کے علاوہ سڑک کے کنارے اس کوڑا کرکٹ کو جلانے سے ایک طرف فضا گندہ ہو جاتی ہے تو دوسری طرف اس سے فران اور ڈائیوکس جیسے خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں جو کہ کینسر سے بھی خطرناک بیماریاں لا حق کرتی ہیں۔ایندھن کا گھریلو استعمال مثلاً لکڑی، گوبرخصوصاً دیہی علاقوں میں فضائی آلودگی پھیلاتے ہیںاگر چہ انکا استعمال بھی محدود ہے اور اس سے پیدا ہونیوالے گیسیں بھی اتنی خطرناک نہیں تا ہم یہ صحت پرا ثرانداز ضرور ہوتی ہیں۔سڑکوں اور چھوٹے سکیل پر ہونیوالی گھریلو کام کاج سے اٹھنے والا گردفضا کو مزید گندہ کردیتا ہے۔شہروں اور بازاروں میں فوڈ سٹالز اور ریسٹورنٹس میں گوشت کو کوئلے سے روسٹ اور فرائی کرنے سے بھی فضا گندہ ہوجاتی ہے۔

ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ صوبہ خیبر پختونخوانے فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے 1997ءمیں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کو ٹیسٹ کرنے کیلئے ایک سٹیشن متعارف کرایا جس سے اب تک تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار گاڑیوں کا معائنہ کیا جا چکا ہے۔ان میں سے سی این جی استعمال کرنیوالی ساری گاڑیاں کلیئر قرار دی گئیں۔جبکہ ڈیزل سے چلنے والی تقریباً اسی فیصد گاڑیاں ماحول کیلئے خطرہ قرار دی گئیں۔اس کے علاوہ گیسولین سے چلنے والی پانچ فیصد گاڑیاں بھی ماحول دشمن قرار دی گئیں۔خشت بھٹہ سے نکلنے والے دھویں سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت نے1999ءمیں ایک آرڈر کے زریعے ان بھٹیوں میں ربڑکے استعمال پرمکمل پابندی لگا دی۔اس کے علاوہ خشت بھٹہ اونر ایسوسی ایشن کی تربیت کیلئے ایک پروگرام بھی شروع کیا گیا تا کہ آلودگی کے اخراج میں کمی لائی جا سکے۔ پشاورمیں موجود سڑکوں کا جال یہاں کے باسیوں کی آمدورفت کیلئے ناکافی ہے۔کئی تجارتی اور رہائشی کالونیاںموجودہ روڈسسٹم سے پہنچ میں نہیں ہیں اور لوگ ان جگہوں کیلئے پرائیویٹ گاڑیاں ،ٹیکسی اور آٹو رکشہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں جوکہ ضرورت سے زیادہ آلودگی پھیلانے کا باعث ہے۔صوبائی محکمہ تحفظ ماحولیاتی آلودگی نے اس ضمن میں اپنی زمہ داری محسوس کرتے ہوئے ایک ایسے مواصلاتی نظام کو ڈیزائن کرنے پر کام شروع کر دیا ہے جوکہ یہاں کے باسیوں کی ضروریات کو بخوبی پورا کر سکے۔یہ ایک بہت بڑااور صبرآزما پراجیکٹ ہے جس کیلئے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاہم صوبائی ترقیاتی پروگرام اس پراجیکٹ کو جلد ازجلد مکمل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے،اس پر کڑی نظر رکھنے اور ماحول دوست حدود میں رکھنے کیلئے جدیداوقابل بھروسہ پیمائشی آلات پرمشتمل ایک مستقل مانیٹرنگ سسٹم کی ضرورت ہے۔موجودہ صورتحال میں کسی ایجنسی کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں ہے تاہم محکمہ تحفظ ماحولیاتی آلودگی اس ضمن میںجاپان کے بین الاقوامی تعاون ایجنسی کی مدد سے موبائل لیبارٹری کے حصول کیلئے کوشاں ہے جس سے گاڑیوں ، صنعتوں اور میونسپلٹی سے نکلنے والے مضر مائعات اور گیسوں پر نگرانی رکھی جا سکے۔حکومتی کوششیں اپنی جگہ پر اس ضمن میں ہمیں بھی اپنی زمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ہمیں بھی آگے بڑھ کر اس ماحولیاتی تحریک کا حصہ بن جانا چاہیے اور اپنی فضا کو اپنے لئے اور اپنے آنیوالی نسلوں کیلئے ایک خطرہ بنانے کی بجائے اسے صاف اور صحت بخش بنانے میں اپنا پورا کردار ادا کرنا چاہئے۔ایک صحت مند ماحول صحت مند معاشرے کی پہچان ہے-
Fattah Ullah Khan Kundi
About the Author: Fattah Ullah Khan Kundi Read More Articles by Fattah Ullah Khan Kundi: 9 Articles with 6937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.