گھر کے کام، یعنی ہماری زندگی کا وہ حصہ جو دیکھنے میں تو
معمولی لگتا ہے لیکن اصل میں یہ چھپے ہوئے “کمر دشمن” ہیں۔ کبھی کبھی ایسا
محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کام ہمیں بتانے کی کوشش کر رہے ہوں کہ "بھئی، تم بس
آرام سے بیٹھو گے تو زندگی کا مزہ کیسے آئے گا؟ ذرا کمر توڑ لو، صبر آزما
لو، پھر مزہ آئے گا!"
اب آپ سوچیں کہ صفائی ستھرائی جیسے معمولی سے کام میں کیا ہے؟ لیکن جب آپ
کو چوتھی بار جھاڑو لگاتے وقت کسی کونے میں چھپی ایک ضدی مٹی کی تہہ دکھائی
دیتی ہے، تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ مٹی بھی چیلنج کر رہی ہو: "بس تم ایک قدم
اور آؤ، پھر میں تمہیں دیکھوں گی!" اور یہی لمحہ ہوتا ہے جب آپ کو اندازہ
ہوتا ہے کہ آپ کا صبر اور کمر دونوں بیک وقت آزمائش میں ہیں۔
پھر آتے ہیں برتن دھونے کے لمحات۔ برتن دھونا بظاہر آسان ہے، مگر جب پانی
کے چھینٹے آپ کے کپڑوں کو ایسے بھیگاتے ہیں کہ لگے آپ کسی تیرتے ہوئے بحری
جہاز پر ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کام بس آسان نہیں۔ سب سے
دلچسپ بات یہ ہوتی ہے جب برتن کے آخری ڈھیر کے نیچے سے ایک پلیٹ اور نکل
آتی ہے! دل چاہتا ہے کہ بس کہیں سے کرسی کھینچیں اور ایک لمبی سانس لے کر
زندگی پر سوال اٹھائیں۔
کپڑے استری کرنا تو گویا "کمر شکن تربیت" کا حصہ ہے۔ پہلی قمیض استری کرتے
وقت تو انسان بڑا مطمئن ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی پانچویں قمیض آتی ہے، تو
ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے کسی عالمی مقابلے میں شرکت کر لی ہے اور ہر قمیض
آپ کے صبر کو ایک نیا چیلنج دیتی ہے۔ آخر میں آپ تھک کر سوچتے ہیں، "بس، اب
یہ آخری ہے۔" اور تب ہی اچانک کہیں سے ایک اور قمیض نکل آتی ہے جو آپ کی
تمام امیدوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
آخر میں سب سے خطرناک کام، یعنی جھاڑ پونچھ، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپ
مارشل آرٹس سیکھ رہے ہوں۔ ایک بار، بس ایک بار، کسی الماری کے نیچے جھک کر
دیکھیں تو ایسی گرد جمع ہوگی جیسے کسی گہرے سمندر میں صدیوں پرانا خزانہ مل
گیا ہو۔
تو جناب، یہ ہیں ہمارے روزمرہ کے "چھپے ہوئے دشمن" جو بظاہر ہمیں کچھ نہیں
کہتے، مگر در پردہ ہمارے صبر اور کمر کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔ اب جب بھی
گھر کے کام کریں، یاد رکھیں کہ یہ تو بس زندگی کی ایک مزاحیہ قسط ہے جو
ہمیں صبر اور مزاح کی انتہا سکھا رہی ہے! |