یوم ِ اقبال (۹ نومبر۴۲۰۲ء)
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
شاعر مشرق علامہ اقبال کے ١٤٧ ویں یوم پیدائش کے موقع پر |
|
یوم ِ اقبال (9 نومبر2024ء)
٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اقبال ایک ایسی منفرد اور قابل فخر شخصیت کا نام ہے جس نے کئی حوالوں سے اپنے آپ کو منوایا اور ان کے فن کو مانا گیا۔ اس کی کئی جہتیں، کئی تہیں، کئی رنگ، کئی سا ز اور کئی آوازیں ہیں۔ یہ قدرت کی کرشمہ سازی ہے، نعمت خدا وندی، جو اقبالؔ کو اقبال کر گئی ورنہ بقول اقبالؔ ؎ اقبالؔ بھی ا قبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے اقبال کی فکری اساس قرآن مجید فرقان حمید ہے۔ یہی ان کی سوچ و فکر کا منبع اور مرکز ہے۔ اقبال یقین کی منزل پر تھے ان کی فکر یہ تھی کہ مسلمانوں کی ترقی، عروج، زوال سب اللہ کی کتاب سے وابستہ ہے۔ اسی فکر کی بنیاد پر انہوں نے اپنی شاعری کو قرآن کا محوربنایا۔ ایک نظم کا شعر ؎ وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر اقبال مسلمانوں کوآپس میں ایک ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے کہتے ہیں ؎ حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک اقبال کی فکر و فلسفہ کا مرکز قرآن علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے تخیلات اور فکر کا محور و مرکز ہمیشہ قرآن کو بنایا اور آپ ؒ پر ایسی لازوال حقیقتیں منکشف ہوئیں جو بڑے بڑے علماء کے حصے میں نہ آئیں۔ علامہ اقبالؒ خود صرف ونحو کے ماہر تھے ان کا تدبر و تفکر گہرا تھا۔ اقبال کا فطرت سے کلام علامہ اقبال نے انسان کی داخلی کیفیات، خارجی اثرات، نفسیات سمیت مدنیات، فطرتِ حیات اور آفاقی خیالات کو شاعرانہ رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے فطرت سے بھی کلام کیا اور اس کے خالق سے بھی شکوہ جواب شکوہ کی صورت میں ہم کلام ہوئے۔ اپنے ہم وطنوں میں ولولہ تازہ پیدا کیا،مسلمانوں میں انقلابی روح پھونکی اور بنی نوع ِ انسان کو خود شناسی کا پیام دیا۔ان کی زندہ شاعری نے زندگی کی نئی اور تابناک راہوں کا تعیّن کیا جس پر چل کر انسان عظمت کی بلندیاں سر کر سکتا ہے۔ اقبال پر تصانیف اقبال کی زندگی میں ان پر جو کچھ لکھا گیا اس کی نوعیت زیادہ تر ستائشی اور جذباتی تھی۔ البتہ ان کی وفات کے بعد ارباب فکر و نظر تنقیدی انداز میں اقبال کو اپنی تحریروں اور تصانیف کا موضوع بنانے لگے۔ ان میں سے کچھ نے اقبال کے سوانحی حالات کو موضوع بنایا اور کچھ نے اقبال کے فکر و فلسفہ پر توجہ دی‘۔اقبال ؔ کی زندگی میں اقبالؔ پر لکھنے والوں میں ایک نام ’مولوی احمد دین‘کا ہے جنہوں نے اقبال کی زندگی ہی میں سب سے پہلے کتاب تحریر کی۔ مولوی احمد دین اقبال کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ دونوں میں بہت قربت کے تعلقات تھے۔ اقبال بھی اگر چہ مولوی صاحب سے عمر میں بہت چھوٹے نہ تھے لیکن ان کااحترام ہمیشہ ملحوط رکھتے تھے۔اقبال اور مولوی احمد دین کی طویل دوستی، قربت کا نتیجہ سامنے یہ آیا کہ احمد دین نے اپنے دوست کی شاعری، شخصیت اور تعلق پر مشتمل کتاب لکھنے کا سوچا اور اس پر عمل بھی کردیا لیکن اقبال سے اس کا ذکر نہیں کیا، کتاب چھپ گئی تو اقبال کے علم میں یہ بات آئی کہ ان کے دوست احمد دین نے کتاب لکھی اور شائع بھی کردی۔ اقبال پر یہ پہلی تصنیف تھی۔ احمد دین اقبال سے اپنی دوستی پر اپنے دوست کو ایک ایسا تحفہ دینا چاہتے تھے جواس سے پہلے کسی نے نہیں دیا تھا۔ لیکن احمد دین کو اس وقت افسوس ہوا جب انہیں معلوم ہوا کہ اقبال نے اس بات کو پسند نہیں کیا، احمد دین کو افسوس تو ہونا ہی تھا، انہوں نے اقبال کی رائے پر کوئی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کتاب کے تمام نسخے نظر آتش کردئے۔دوستی کا حق ادا کردیا لیکن زبان سے اف تک نہ کہا۔ یہ واقعہ ہے 1926کا۔ اقبال کا شعری مجموعہ بانگِ درا کی اشاعت کے بعد احمد دین نے اقبال پر اپنی کتاب کے مسودہ کو پھر سے جمع کیا اور اسے شائع کر کے اقبال پر شائع ہونے والی پہلی کتاب کا اعزاز اپنے نام کرالیا۔ اقبال نے کم وقت میں جن جن موضوعات پر نثر اور نظم میں طبع آزمائی کی اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ اقبال نے 16برس کی عمر سے شاعر ی کا آغاز کیا۔ 1977ء میں جنم لیا اور 1938ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اگر 16سال اقبال کی زندگی سے نکال دئے جائیں تو اس کی زندگی کے بچتے ہیں 45سال۔ ان سالون میں اقبال کے علمی، ادبی، سیاسی، سماجی میدان میں جتنا کچھ علمی و ادبی سرمایا اقبال چھوڑ گیا وہ تعداد، معیار اور اپنے اثرات کے اعتبار سے مثالی ہے۔ کنسا موضوع ہے جس پر اقبال نے نثر یا نظم میں نہ لکھا ہو۔ بچون بڑوں، جوانون، مزدورون، غریبوں، امیرون کے لیے سیاست دانوں کے لیے معیشت دانوں کے لیے، چرند پرند، چاپائے، نباتات، جمادات، آسمان، ستاروں اور دنیا الغرض جہاں دیکھو اقبال ہی اقبال دکھائی دیتا ہے۔ شعر وادب میں اقبال ہی اقبال دکھائی دیتا ہے نہ وہ کسی جیسا ہے نہ کوئی اُس جیسا دکھائی دیتا ہے افراد کی اہمیت اپنے اس شعر میں اس طرح بیان کرتے ہیں اور ہر فرد کو ملت کے مقدر کے ستارے سے تشبیح دیتے ہیں ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوم کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا عورت کی عظمت علامہ اقبالؒ عورت کی عزت وعظمت کے داعی تھے اور وہ عورت کے ادب و احترام کی بابت ایسی ایسی زبردست دلیلیں دیتے ہیں کہ جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔انہیں گوارا نہ تھا کہ عورت کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے اور اس کے ساتھ لونڈیوں جیسا سلوک کیا جائے لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ ایسا مرد جس نے عورت کو لونڈی بنا رکھا ہے،اس نے حکمت ِ قرآن سے حصہ نہیں پایا۔ میں بھی مظلومیِ نسواں سے ہوں غم ناک بہت نہیں ممکن مگر اس عقدہ مشکل کی کشود اقبال کی شاعری شاعر مشرق علا مہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ شاعری، فکر و فلسفہ، تاریخ، فلسفہ خودی، تصور پاکستان اور مسلمانوں میں جذبہ ملی بیدار کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ویسے تو ہر ایک کا اپنا پنا مقام و مرتبہ ہے لیکن اقبالؔ کا جو رتبہ اور مقام ہے وہ سب سے جدا واعلیٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بات اقبالؔ کی ہے، جو مقام اقبال ؔ کو حاصل ہے آج تک اس تک کوئی نہ پہنچ سکا، گویا کوئی اور اقبالؔ جیسا تاحال پیدا نہیں ہوا۔اقبال شناس طارق محمود مرزا نے اپنی کتاب حیات و افکار اقبال کلام اقبال کے حوالے سے لکھا کہ ”کلام اقبال میں جو ثروت افکار ہے اردو ادب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اقبال کی شاعری عام شاعری نہیں ہے جو لطف طبع کی غرض سے تخلیق کی جاتی ہے۔ یہ عظیم پیغمبرانہ مقصد کی حامل ہے۔ یہ خواب غفلت سے بیدار کرتی بلکہ جھنجوڑتی ہے اور قلب و ذہن میں نئی جوت جگاتی ہے“۔کلامِ اقبالؔ میں نباتات، جمادات، موسیقی و صورت گری اور علم نباتات کے بیان کی خوبصورتی اقبالؔ کے ان اشعار سے صاف عیاں ہے ؎ تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقد احکامِ الٰہی کا ہے پابند محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی موسیقی و صورت گری و علمِ بناتات معروف اقبال شناس افضل رضوی، علامہ اقبالؔ کی سوچ و فکر اور فلسفہ ان کا خاص میدانِ تحقیق ہے۔ افضل رضوی نے اپنی کتاب ’دَر برگِ لالہ و گل‘میں کلام اقبالؔ میں شامل تذکرہ نباتات کو موضوع تحریر بنایا۔ بلا شبہ یہ ایک منفرد تحقیق ہے، ذکر نبایات اور ان کے ماخذ کے ساتھ افادیت اور استعمال پر روشنی ڈالتی ہے۔ اقبال کی شاعری میں نباتات اور جمادات جیسے پانی، ہوا، آگ، موتی، گوہر، الماس، زمرد، یاقوت، لعل اور دیگر قیمتی پتھروں کا ذکر بھی ملتا ہے، جمادات کے علاوہ حیوانات کا تذکرہ بھی اقبال کی شاعری میں ملتا ہے۔ اس حوالے سے مصنف افضل رضوی نے 60جانوروں کی فہرست مرتب کی جن کا ذکر اقبالؔ کے اشعار میں ملتا ہے۔اقبال کے حوالے سیافضل رضوی کا کہناہے کہ علامہؒ نے سو (100)سے زائد مختلف الا نواع پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں، اشجار اور اجناس کو اپنے اشعار کی زینت بنایا ہے۔ بچوں کے لیے ان کی نظمیں اقبال نے ہر ایک کو مخاطب کیا، بچوں کو، بڑوں کو، خواتین کو مردوں کو۔ بچوں کے بارے میں اقبال کی متعدد نظمیں بے انتہا مقبول ہوئیں۔جیسے مکھی اور مکڑا ، پہاڑ اور گلہری،لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری اور دیگر آخر میں اپنے بات اقبال کی نظم ”ہمدردی“ کا آخری شعر جس میں اقبال نے عام لوگوں کو خوبصورت پیغام دیا ہے۔ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے ٢٠یوم یوم |