امریکا مردہ باد سے امریکا زندہ باد تک کا سفر: ایک سبق اور نجات کا راستہ

پاکستان کی سیاست میں جذباتی بیانیوں کا استعمال ہمیشہ سے عام رہا ہے۔ حکمرانوں نے عوام کو مختلف نعروں کے ذریعے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، کبھی قوم پرستی، کبھی مذہب اور کبھی غیر ملکی سازشوں کا سہارا لے کر۔ عمران خان کے دور میں بھی ہم نے ایسی ہی حکمت عملی دیکھی جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو انہوں نے امریکا کو اپنی سیاسی مشکلات کا ذمہ دار قرار دے دیا اور ایک نیا بیانیہ متعارف کروایا۔ "ہم غلام نہیں"، "امریکا مردہ باد" اور دیگر جذباتی نعروں کے ذریعے عوام کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان کو بیرونی سازشوں کا سامنا ہے۔

عمران خان کا بیانیہ اور عوام کی جذباتی شمولیت

عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکا کی سازش قرار دیتے ہوئے عوامی جذبات کو بھڑکا دیا۔ لوگ سڑکوں پر نکلے، امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا عزم ظاہر کیا، اور قومی خود مختاری کے تحفظ کے لیے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ عوام نے اسے اپنی عزت اور وقار کی جنگ سمجھا اور ہر وہ شخص جو عمران خان کے خلاف تھا، ان کی نظر میں ملک دشمن بن گیا۔ مگر یہ سب زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا۔

جیسے ہی امریکا کے صدارتی انتخابات قریب آئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کی امیدیں پیدا ہوئیں تو عمران خان کے حامیوں کا رویہ بدلنے لگا۔ وہی لوگ جو کل تک امریکا کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، آج ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے لیے دعائیں کرنے لگے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں امریکی جھنڈے لہرائے جانے لگے اور لوگوں میں امید پیدا ہونے لگی کہ ٹرمپ عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے میں مدد کرے گا۔ یہ تبدیلی اس بات کا ثبوت تھی کہ سیاست میں عوامی جذبات کو کس طرح وقتی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سیاستدانوں کی چالیں اور عوام کی حقیقت

یہ حالات ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سیاستدان وقتاً فوقتاً مختلف کارڈز کھیلتے ہیں: کبھی قومی غیرت کا کارڈ، کبھی مذہبی کارڈ اور کبھی عوامی جذبات کا کارڈ۔ عوام کو کبھی کسی ملک کا خوف دلا کر تو کبھی مذہب کے نام پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔ مگر ان نعروں اور دعووں کے پیچھے اکثر سیاستدانوں کے ذاتی مفادات چھپے ہوتے ہیں۔ عمران خان نے پہلے "امریکا مردہ باد" کا نعرہ لگایا اور جب سیاسی مفاد سامنے آیا تو امریکی جھنڈے لہرائے گئے اور "امریکا زندہ باد" کی دعائیں کی جانے لگیں۔

نجات کا راستہ: الہی نظام کی طرف واپسی

ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم جب تک انسانی مفاد پر مبنی نظاموں کا حصہ رہیں گے، ہمیں ایسی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی رہیں گی۔ سیاستدانوں کا مقصد صرف اقتدار اور ذاتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے، جس کے لیے وہ عوام کو وقتاً فوقتاً جذباتی بیانیوں میں الجھاتے ہیں۔ ہماری نجات اور حقیقی آزادی کا راستہ محض نعروں اور وقتی جذبات میں نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام میں ہے جو انصاف اور عدل پر مبنی ہو، جو الہی اصولوں پر قائم ہو اور جس میں حکمرانی کا مقصد عوام کی بھلائی ہو نہ کہ ذاتی مفادات کا حصول۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو انسانیت کے لیے بہترین ہے۔ نظامِ الہی ہمیں محض دنیوی سیاست کی قید سے نکالتا ہے اور حقیقی انصاف و عدل کا پیغام دیتا ہے۔ اسلامی نظام کی بنیادیں انصاف، اخوت، مساوات اور حاکمیتِ الہی پر ہیں۔ اس نظام میں نہ کسی کو طاقت کے بل بوتے پر ظلم کرنے کا حق ہے اور نہ ہی کسی کے جذبات کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت۔ جب ہم الہی نظام کو اپنائیں گے تو ہمیں ایسی بےچینی اور عدم استحکام کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو آج ہمارے معاشرے میں ہے۔

سبق: عوام کی بیداری اور الہی نظام کی طرف رجوع

عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی نعروں کے بجائے اپنی زندگی کے حقیقی اصولوں کو سمجھیں اور سوچیں کہ حقیقی نجات کس میں ہے۔ ہمیں ایسے نظام کی طرف رجوع کرنا ہوگا جو اللہ کی ہدایات پر مبنی ہو اور جس میں ہر فرد کا مقصد انسانیت کی خدمت ہو اور عدل قائم ہو سکے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ سیاستدان اپنے مفادات کے لیے ہمیں استعمال کرتے ہیں اور جب تک ہم الہی اصولوں کو بنیاد نہیں بناتے، ہم اس دائرے میں پھنستے رہیں گے۔

علی جان سلیمانی
About the Author: علی جان سلیمانی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.