ایک سو اکیس ترقی پسند قلم کار (فکر و فن، تحقیق و تجزیے کے تناظر میں)
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
ایک سو اکیس ترقی پسند قلم کار (فکر و فن، تحقیق و تجزیے کے تناظر میں) مصنف: شفیق احمد شفیق ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پروفیسر ایمریٹس: منہاج یونیورسٹی، لاہور شفیق احمد شفیق ایک ترقی پسند ادیب ہیں اور ترقی پسند ادیبوں کو روشناس کرانے، ان کے علمی ورثہ کو کتابی صورت میں متعارف کرنے کی عملی کاوشیں تصانیف کی صورت میں منظر عام پر لانے میں پیش پیش ہیں۔ پیش نظر تصنیف جو 121 شخصیات پر مشتمل ہے اسے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔یہ تصنیف1024 صفحات پر مشتمل ہے اس کے عنوان ”ایک سو اکیس ترقی پسند قلم کار“ سے ہی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ترقی پسندقلم کاروں سے متعلق ہے۔ شفیق احمد شفیق ترقی پسند ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر، افسانہ نگار، تنقید نگار محقق ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ کتاب کی اشاعت کے حوالے سے دلچسپ بات مولئف نے کتاب کے مقدمہ کے لکھی، لکھتے ہیں کہ ”جس طرح لڑکیوں کے والدین بچی کے جوان ہوجانے کے بعد ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر کرنے لگتے ہیں اسی طرح ایک سچا قلم کار بھی اپنی کتاب کے مسودے کی تکمیل کے بعد اُسے کتاب کی اشاعت کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ لڑکیوں کے ہاتھ تو پیلے ہوہی جاتے ہیں اور ان کو شریک حیات بھی مل جاتے ہیں مگر مصنف کی کتاب نہ چھپ پاتی ہے اور نہ ان کو دیانت دار ناشرملتے ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً سب ہی ناشرین کو جیسے علم و ادب سے چڑہے۔ وہ اس قسم کی کتابیں شائع کرنے کو تضیع مال و زراور وقت کا زیاں تصور کرتے ہیں“۔ باتیں دونوں ہی شفیق صاحب نے سچ کہیں ہیں۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ مختصر وقت میں ان کی تصانیف کے مسودوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے اور انہیں اچھے شریکِ سفر (ناشرین) بھی مل گئے۔ بقول شفیق صاحب تین سال میں اُن کی تسلسل کے ساتھ آٹھ کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں مدحت خیر الوریٰ، چند ہم عصر ترقی پسند افسانہ نگار، نقد و تجزیہ، آئینہ دار(شعری مجموعہ)، سوکھا ساون (افسانوی مجموعہ)، جدید اردو افسانہ: کل اور آج، آپ کو کیسے بھول جائیں ہم (نظموں کا مجموعہ)، ایک انگریزی کی کتاب لٹریٹیرز(Litterateurs) اور نویں ایک سو اکیس ترقی پسند قلم کار شامل ہے۔ تو شفیق احمد شفیق کی نو تصانیف کے ہاتھ پیلے ہونے اور انہیں شریک حیات (ناشرین) مل جانے کی دلی مبارک باد۔اللہ پاک سب ہی مصنفین کو ایسی خوشیوں سے مالا مال کرے۔ ترقی پسندی کی تاریخ اور ترقی پسند ادیبوں کے بارے میں تفصیل میں جانا اس مختصر سے تعارف میں ممکن نہیں۔ البتہ ترقی پسند ہونا، خود کو ترقی پسند لکھنا عام سی بات چلی آرہی ہے، ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کا آغاز 1936ء میں ہوا ، پہلی کانفرنس 1936ء میں ہوئی پھر متعدد کانفرنسیں الہٰ آباد، کلکتہ، دہلی، بمبئی، حیدر آباد دکن میں منعقد ہوئیں اور ادیبوں، شاعروں، قلم کاروں کی بڑی تعداد خود کو ترقی پسند کہلانے لگی۔ ترقی پسندی کی بنیاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز روس کے واقعہ سے ہوا جہاں پرادبی دنیا میں ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔واقعہ روس 1917ء میں وقوع پذیر ہواتھا، یوتو اس کے اثرات پوری دنیا میں ہوئے لیکن ہندوستان میں واقعہ روس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے ادیبوں میں اشتراکی، ٹالسٹائی، مارکسی خیالات نے جنم لیا، جرمنی میں ہٹلر کی زیادتیوں کا اثر یہ ہوا کہ پوری دنیا کے ادیبوں کی بلائی گئی کانفرنس جس کا عنوان تھا The World Congress of the Writers for the defence of Culture۔ اس کانفرنس کے اثرات نے ہندوستان میں ملک راج آنند اور ڈاکٹر سجادظہیر نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر دین محمد تاثیر اس کے صدر مقرر ہوئے۔ اس کے بنیادی مقاصد حسب ذیل قرار پائے : ٭ ادب اور فن کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجاد دلوانا، فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا ٭ ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔ ٭ واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا، بے منقصد روحانیت اوربے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا ٭ ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائیٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔ ٭ بیمار فرسودہ روایات جو سماجی میں ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا۔ ان مقاصد میں کوئی بھی بات ایسی نہیں تھی جو قابل اعتراض ہوتی یا اس کا ٹکراؤ دیگر مختلف نظریات سے ہوتا چنانچہ اُس دور کی نامی گرامی شخصیات نے اس کی تعریف کی اور تحریک کا حصہ نہیں بھی بنے لیکن اس کی مخالفت بھی نہیں کی۔ جیسے علامہ اقبال، منشی پریم چند، عبد الحق، جوش، مجنو گورکھ پوری مجاز، جان نثار اختر و دیگرشامل تھے بعد میں دیگر ادیب جیسے احسان دانش، فیض احمد فیض اور دیگر شامل ہوئے۔ بعد ازاں اس تحریک میں ایسے ادیب بھی شامل ہوئے جنہوں نے بنیادی مقاصد سے ہٹ کر دیگر موضوعات کو مقاصد کا حصہ بنایا جس کے نتیجہ میں اختلافات در اختلافات ہوتے گئے۔ لیکن اس تنظیم کا وجود آج بھی ہے اور بڑی شد و مد سے وہ ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد ترقی پسندوں کی بڑی تعداد نے پاکستان ہجرت کی اور پاکستان میں بھی ترقی پسند اپنے پلیٹ فارم سے ادب کے فروغ اور ترقی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ترقی پسند تحریک میں جن پاکستانی ادیبوں، شاعروں، تنقید نگاروں نے اہم کردار ادا کیا جن کا ذکر پیش نظر کتاب میں ملتا ہے ان میں نا’قدین‘میں فیض احمد فیض، اختر حسین رائے پوری، سید سبط حسین، ممتاز حسین، پروفیسر مجتبیٰ حسین، ڈاکٹر حنیف فوق، پروفیسر آفاق صدیقی، مصطفی زیدی،پروفیسر منظور احمد، مظہر جمیل، پروفیسر ریاض صدیقی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، مسلم شمیم، جمال نقوی، نجیب عمراور دیگر شامل ہیں۔’شاعروں‘میں سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، اختر الا ایمان، احمد ندیم قاسمی، مجروح سلطان پوری، صہبا لکھنوی، سرور بارہ بنکوی، سلام مچھلی شہری، عزیز حامد مدنی، شیخ ایاز، منہاج برنا، حمایت علی شاعر، احمد فراز، محسن احسان، محسن بھوپالی، سحر انصاری، محمود شام، نقاش کاظمی، عارف شفیق، پروفیسر صفدر علی خان انشاء اور دیگر۔’افسانہ نگاروں‘میں سعادت حسن منٹو، پروفیسر عزیز احمد، رضیہ سجادظہیر، شوکت صدیقی، ابراہیم جلیس، قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور، زاہدہ حنا، شہناز پروین اور دیگر، ڈرامہ نگاروں میں سلطان جمیل نسیم اور محمد اسمعیل یوسف اور دیگر کے فکر و فن کے بارے میں مختصر مختصر ان کے فکر و فن کے بارے میں لکھا ہے۔بعض اور بھی احباب ہیں جن کے بارے میں لکھا گیا ہے لیکن معروف احباب کے نام ہی تحریر کرنا مناسب جانا۔ اب یہ احباب ترقی پسند ہیں یا نہیں یہ مصنف بہتر جان سکتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد دوسری سمت سے مخالفت میں آوازیں بلند ہوئیں، مخالفت بھی ہوئی لیکن ترقی پسندوں نے اس مخالفت کا مقابلہ کیا اوراپنے آپ کو ترقی پسند، مارکسسٹ اور کامریڈ جیسے القابات کا استعمال کیا جانے لگا۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ بعض ترقی پسندی اپنے آپ کو کمیونسٹ یا مارکسی خیالات و افکار کا پیرو کہنے لگے۔ یہ کمیونسٹ پارٹی سے اپنے آپ کو وابستہ کیا کرتے تھے۔ اس قسم کی آوازوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کو نقصان بھی پہنچایا۔ اس تحریک کے شدت پسندوں نے ہی تحریک کو نقصان پہچایا لیکن رفتہ رفتہ ترقی پسندوں کی سوچ سے شدت میں کمی آتی گئی۔ خود کو ترقی پسند کہلا نے والے آج اس شدت کے ساتھ تحریک کا پرچار نہیں کرتے اور نہ ہی وہ دیگر سوچ رکھنے والوں سے غیر ضروری بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ مولئف نے معروف شاعر اور تنقید نگار فیض احمد فیضؔ کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے لکھ کہ ”بحیثیت شاعر فیض نے ناقدین، مخالفین کی ہر تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ نہ ان سے الجھے نہ ان کی تنقید کو برا بھلا کہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مزاجاً نرم طبع اور صوفی منش قسم کے آدمی تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ تنقید و تجزیے کو ادب کے ارتقا کے لیے ناگزیر تصور کرتے تھے اور تیسری وجہ یہ تھی کہ انہوں نے تنقید کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے خود بھی تنقید نگاری کی ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی، وہ اس حقیقت کے معترف تھے کہ تنقید کرنے والے اگر تنقید برداشت نہیں کرسکتے تو انہیں تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا“۔ کتاب کا تعارف ’سرنامہ‘ کے عنوان سے معروف افسانہ نگار، کالم نگار محترمہ زاہدہ حنا جو خود بھی ترقی پسند کی121 کی فہرست میں شامل ہیں لکھتی ہیں کہ ”اس وقت ایک سو اکیس ترقی پسند قلم کار“ کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے’آمن حوطب‘کا خیال اس لیے آیا کہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کا پہلا ترقی پسند تھا۔ دنیا کے ہر خطے میں ترقی پسندی مختلف رجحانات سے گزری ہے۔ ہمارے ہاں ادب میں یہ بیسویں صدی میں ابھر کر سامنے آئی اور اس کا سہرا سجاد ظہیر، ملک راج آنند اور دوسروں کے سر ہے۔ اس تحریک نے 1936ء سے تقسیم تک کئی دور دیکھے جس کی تاریخ ہمیں بہت اسرار و رموز سے آشنا کرتی ہے“۔شفیق احمد شفیق کا کہنا ہے کہ ”میں نے اس کتاب میں جن کو شامل کیا ہے ان میں سے بیشتر افراد سے دریافت کیا کہ کیا وہ خود کو ترقی پسند تسلیم کرتے ہیں اور اس کے نظریے سے متفق ہیں؟ اس پر ان سب نے یہ جواب دیا کہ وہ بے شک ترقی پسند ہیں مگر کمیونسٹ یا الحادپسند نہیں“۔ مصنف کا ایک دلچسپ مکالمہ معروف قلم کار خاتون سے ہوا، جو دلچسپ ہے۔ ادیبہ جو افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں نے بے باکی سے اپنی رائے کا اظہار دو ٹوک الفاظ میں کیا۔ مولئف شفیق احمد شفیق لکھتے ہیں کہ انہوں نے ”افسانہ و ناول نگار محترمہ نسیم انجم سے پوچھا تو انھوں نے موبائل پر یہ میسج دیا ”میری تحریریں ترقی پسند سوچ کی عکاسی کرتی ہیں مگر میں جدیدیت پسند ہوں۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، مگر میں پکی مسلمان ہوں“۔مولئف نے اس کے جواب میں اپنے مقدمہ میں لکھا ”چنانچہ میں نے انھیں جدیدیت پسند ہی رہنے دیا۔ ترقی پسندوں میں شامل کر کے ان کی جدیدیت پسندی کو ضرر نہیں پہنچائی“۔ قلم کاروں کی ترتیب تین موضوعات کے تحت ہے یعنی ’ناقدین‘،”شعرا‘،’افسانہ نگار‘اور’ڈراما نگار‘۔ ہر موضوع کے تحت قلمکاروں کی ترتیب ان کی تاریخ پیدائش کے مطابق ہے یعنی جو جتنے پہلے پیدا ہوا اس کا اتنے ہی پہلے تذکرہ ہے۔ ناقدین میں سب سے زیادہ عمر فراق گورکھپوری نے پائی، شعرا میں جوش ملیح آبادی عمر رسیدہ ہیں، افسانہ نگاروں میں منشی پریم چند عمر میں سب سے بڑے ہیں۔آخر میں اپنی بات محترمہ زاہدہ حنا کے ان جملوں پر ختم کرتا ہوں کہ شفیق صاحب نے ترقی پسند قلم کاروں کی یہ تاریخ نہایت ژرف نگاہی سے لکھی ہے اور کوشش یہ کی ہے کہ وہ لوگ جو بھلادیے گئے ہیں، ان کو بھی یاد کیا جائے“۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پیش نظر کتاب علمی طور پر وقیع ہے اور طلبا کے لیے اور محققین کے لیے خاص طور پر ایک عمدہ حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے ہر کتاب خانے میں ہونی چاہیے۔کتاب کی اشاعت انجمن ترقی اردو پاکستان نے اکادمی ادبیات پاکستان کی معاونت سے عمل میں آئی۔شفیق احمد شفیق کو ترقی پسند قلم کاروں کے فکر و فن کو تحقیق و تجزیے کے تناظر میں متعارف کرانے پر دلی مبارک باد۔ (5نومبر2024ء)
|