جہان ِ خورشید/مؤ لف ڈاکٹر قمر فاروق
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
جہان ِ خورشید/مؤ لف ڈاکٹر قمر فاروق ٭ پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی میَں ڈاکٹر قمر فاروق صاحب سے واقف نہیں۔کون ہیں، کہاں رہتے ہیں، کیا کرتے ہیں، ان کے مشاغل کیا ہیں۔ البتہ وہ میرے فیس بک دوست ضرور ہیں اور اس حوالے سے میں ان کی کچھ پوسٹوں کو لائک یا کمنٹ کردیا کرتا تھا اور وہ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے مجھے یاد نہیں کہ میری کسی پوسٹ پر ان کا کوئی کمنٹ یا لائک نظر سے گزرا ہو۔ ویسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ ہومیوڈاکٹر ہیں مخلوق انسانی کی خدمت کرتے ہوں گے اور ادیب ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں ان سے اس سے اچھا تعلق کوئی اورہو نہیں ہوسکتا۔ چند دن قبل ڈاکٹر صاحب کا میسیج ملا جس میں انہوں نے میرا پوسٹل ایڈریس مانگا، ساتھ ہی لکھا کہ اپنی کوئی کتاب بھیجنا چاہتے ہیں۔ میں نے بلا تعامل جواب دیا۔کچھ وقت گزرا معمولی سے کاغذ میں لپٹی خوبصورت کتاب میرے ہاتھوں میں تھی، عنوان اس کا ’جہانِ خورشید‘، جس پر صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم کی تصویر جس کے نیچے ہے ”صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم کے حکمت و دانش اور پند و نصیحت کے موتی“، کتاب کو دوسری جانب پلٹا تو وہاں قبلہ ڈاکٹر قمر فاروق صاحب کی تصویر اور ساتھ ہی چند اکابرین ِادب ڈاکٹر انور سدیدمرحوم، ڈاکٹر مھر فیاض، سید قاسم علی شاہ اور محمد ناصر زیدی صاحب کی ڈاکٹر موصوف کے بارے میں مختصر مختصرآراء درج ہیں۔ یہ مختصر آرا ڈاکٹر صاحب کا اچھا خاصا تعارف کرانے کے لیے کافی ہیں۔ اب مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹرصاحب موصوف لکھاری ہیں متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں، ہیں تو پاکستانی لیکن اسپین کے شہر بارسلونا کے باسی ہیں۔ڈاکٹر انور سدید کی رائے دل کو لگی کہ ڈاکٹر قمر فاروق صاحب انسانوں کا علاج دو طریقوں سے کرتے ہیں وہ جسمانی بیماریوں کا علاج ہومیوپیتھک ادوایات سے رفع کرتے ہیں جو علاج بالمثل شمار ہوتا ہے روحانی بیماریوں کا لیے دانش مشرق کا نسخہ تجویز کرتے ہیں معنو ی طور پر یہ بھی علاج ابالمثل ہی ہے یعنی یہاں ایک دانشور کا زندگی بھر کا تجربہ جب چند الفاظ میں ڈھل جاتا ہے تو اس تجربے کوپر لگ جاتے ہیں اور یہ ہر اس شخص تک پہنچ جاتا ہے جسے روحانی مرض لاحق ہو“۔ ڈاکٹر انور سدید کی رائے میں نے پڑ ھ تو لی اور اپنے اظہاریہ میں ان کی رائے لکھ بھی دی لیکن ذہن کو یہ بات پریشان کر رہی تھی کہ ڈاکٹر انور سدید تو کافی وقت ہوا، جب میں سرگودھا یونیورسٹی سے وابستہ تھا ان کا ذکر ادبی حلقوں میں خوب رہتا تھا لیکن وہ تو دنیا چھوڑ چکے، ڈاکٹر قمر فاروق کی تحریر ”جہاں خورشید“ پڑھتے پڑھتے یہ پڑھا کہ ”جہان خورشید مرتب تو 2004ء کے آس پاس کر لی تھی لیکن حوادث زمانہ کی نذر ہوگئی۔ وقت گزرتا گیا اور ان اوراق پر گرد پڑتی گئی۔ 2023ء میں پاکستان کا چکر لگا تو پرانی یادوں کی جھاڑ پھونک کی تو ”جہانِ خورشید“ کا مسودہ بھی ایک خوبصورت یاد بن کر سامنے کھڑا ہوگیا اور دل سے آواز آئی کہ اسے منظر عام پر لایا جائے“۔ ڈاکٹر قمر فاروق کی اس وضاحت سے اطمینان ہوا۔دیکھئے پرانی چیزوں پر جھاڑ بھونک سے ایک خوبصورت کتاب دنیا میں آگئی، طباعتی ادب میں اضافہ ہوا،صاحبزادہ صاحب کی روح کو بھی تسکین ملی ہوگی، ان سے محبت کرنے والوں، شخصیات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ تصنیف عمدہ حوالہ ثابت ہوگی۔ میں 2010ء میں سرگودھا یونیورسٹی سے وابستہ تھا اور اردو کے معروف ادیب، شاعرومحقق ڈاکٹر طاہر تونسوی مرحوم اور مَیں یونیورسٹی کے ٹیچرز ہاسٹل میں آمنے سامنے کمروں میں مقیم تھے، جہاں رات میں میرے روم میں محفل سجتی اور بہت سے ادیب و شاعر ز یر بحث آیا کرتے ان میں ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹروزیر آغا،احمد ندیم قاسمی اور دیگر احباب کے ساتھ ساتھ ادیبوں کے مابین ہونے والی محبتوں کی داستانوں پربھی گفتگو ہوا کرتی۔ لیب ٹاپ پر فیض کی غزلیں بھی سنا کرتے۔ اللہ پاک ان ادیبوں کی مغفرت فرمائے، آمیں۔ ’جہان خورشید‘ جو 2024ء میں شائع ہوئی، کتاب کے ابتدا میں درج فہرست کے مطابق ڈاکٹر قمر فاروق کی یہ 15ویں تصنیف ہے۔ اس سے قبل جواہر سعید، دانشِ آزاد، حرف حرف اجالا، تیری آنکھیں ہیں کائنات مری، ماں عظیم ماں، مادر ملت نے فرمایا، نوابزادہ نصراللہ خان، شہید قائد نے فرمایا، میاں محمد شریف(مرحوم)، اطرافِ جسم، منزل مراد، من کہی، سراغ، ابو الکلام آزاد سے انٹر ویواور جہان خورشید۔ ڈاکٹر صاحب کی تصانیف سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نثرکے آدمی ہیں، شاید شاعربھی ہیں، شخصیات سب سے زیادہ ان کے رشات قلم میں رہیں۔ سید قاسم علی شاہ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے جس میں انہوں لکھا کہ ”ڈاکٹر قمر فاروق کے مشاہدے اور مطالعے کی وسعت اور گہرائی کے ساتھ ان کے الفاظ میں احساس درد مندی کا بھی اندازہ ہوتاہے آپ پاکستان سے محبت کرنے والے انسان ہیں فی الحال بارسلونا اسپین میں مقیم ہیں لیکن ان کی شخصیت حب الوطنی ادب نوازی، انسان دوستی، سادگی اور تصوف کا فیضان نظر ہے کہ ان کا قلم فکری رسائی میں ڈوبا نظر آتا ہے“۔فکری رسای کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم کے حکمت و دانش اور پند و نصیحت کے موتیوں کو ’جَہانِ خورشید‘ کے عنوان سے جمع کر کے ادب کے شیدائیوں کو خوبصورت تحفہ دیا۔ اب ڈاکٹر قمر فاروق کو یہی چھوڑتا ہوں اور جہان خورشید کا مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم مذہبی انسان تھے، پنجاب سے تعلق رکھتے تھے، بہت کم عمر پائی، 1956ء میں پنجاب کے شہر راجن پور میں جنم لیا اور5 جون2001ء میں 45برس دنیا میں گزار کر دنیا کو خیر باد کہا۔ صاحبزادہ صاحب اسلامی علوم پر دسترس رکھتے تھے، تحریر و تقریر کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچانے میں بھر پور کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر فاروق نے لکھا کہ ”صاحبزادہ خورشید گیلانی مرحوم کی سوچ ایک آفاقی نظریے سے مستعار ہے یعنی حاکمیت الہیہ کانفاذاور اتحاد بین المسلمین کی خواہش اور کون مسلمان ہوگا جو اس سوچ سے متاثر نہ ہو، اللہ سبحان تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم نہ کرے، مرحوم اتحادبین المسلمین کے داعی تھے ان کی سوچ اور فکر کا ایک ہی دائرہ تھا کہ تمام مسلمان ایک لڑی میں پروئے جائیں۔ یہ سوچ صرف لکھنے تک محدود نہیں تھی بلکہ قدرت اظہار کی جرات بھی عطا فرمائی تھی“۔ صاحبزادہ صاحب نے مضامین لکھے، کالم تحریر کیے، آپ کی تصانیف میں فکر امروز، الہدیٰ، قلم برداشتہ، روح تصوف، نوابزادہ صاحب کا نفسیاتی مسئلہ، وحدت ملی، عصر یات، روح انقلاب شامل ہیں۔ڈاکٹر قمر فارق کے مطابق انہوں نے صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم کی تمام تصانیف کا فکری نچوڑ ’جہاں خورشیدُکے نام سے مرتب کردیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جہانِ خورشید صرف صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم کے رشحات فکر ہی نہیں ہیں بلکہ محبت کا نذرانہ بھی ہے جو اس کے ایک قاری نے پیش کیا ہے اور جس کی ایک بھی ملاقات نہیں ہوسکی جو صرف ان کے لفظوں سے محبت اور انہیں ایک قرینے اور سلیقے سے جمع کرتا ہے۔ یہ محبت کا تحفہ ہے، ایک نظریہ ایک سوچ اور شاہ سوار خطابت کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بعد بھی خراج عقیدت ہے جسے خوبصورتی سے پیس کرنے کی کوشش کی ہے“۔ جہانِ خورشید بہ ظاہر 80صفحات پر مشتمل تصنیف ہے لیکن اس میں شامل صاحبزادہ صاحب کی فکر و علم کے موتیوں کو خوبصورتی سے ایک لڑی میں پرود یا گیا ہے۔ صاحبزادہ صاحب کے بارے میں پاکستان کے قابل تعزیم ادیبوں اور دینی مفکرین اور مشاہیر نے اپنے ذرین خیالات کا اظہارکیا ان میں ڈاکٹر انور سدید، ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی، کالم نگارپروفیسر محمد اجمل نیازی، انجینئر سلیم اللہ، فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر محمد شفیق چوہدری، ارشاد احمد عارف، علامہ شاہ احمد نورانی اور نعمان قادر مصطفائی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں مجیب الرحمن شامی نے صاحبزادہ صاحب کے کالموں کے بارے میں لکھا کہ ”اُن کے کالم ”قلم برداشتہ“ نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے،تو خطابت کے میدان میں آغاشورش کاشمیری اور علامہ احسان الہیٰ ظہیر کے بعد ان کا پرچم لہرانے لگا، وہ علماء اور مشائخ کی صفوں میں نمایا تھے، اہل صحافت میں بھی ممتاز تھے۔ ان کی فکر ی مثلث کے تین نکتے تھے، اتحاد، انقلاب اور اجتہاد“۔ آصف شفیع نے لکھا ”صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کا نام ہمارے ادبی اور صحافتی افق پر ایک بلند پایہ ادیب، مفکر، مذہبی اسکالر، راست گو کالم نگار ار ایک شعلہ بیان مقرر کی حیثیت سے ہمیشہ تابندہ رہے گا“۔ ڈاکٹر قمر فاروق نے صاحبزادہ خورشید مرحوم کے افکار، خیالات اور فکر کے خاص خاص نکات کو مختلف عنوان جیسے دعوت فکر، رشحات فکرکے تحت سلیقہ سے جمع کردیا ہے۔ ڈاکٹرقمر فاروق نے صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم ذرین خیالات و افکار کو قرطاس پر منتقل کر کے جہانِ خورشید کے عنوان سے جو گلدستہ پیش کیا ہے اس کے توسط سے صاحبزادہ صاحب کے خیالات سے لوگ فیض حاص کرتے رہیں۔ ڈاکٹرصاحب موصوف کو اس خدمت پر دلی مبارک باد۔ 8دسمبر2024ء
|