میرے نزدیک زندگی ایک کتاب کی مانند ہے ، جس کے کچھ صفحات
تو ہم اپنی مرضی سے پڑھنا چاہتے ہیں اور بہت سے صفحات کو پڑھ کر صرف گزارنا
چاہتے ہیں. زندگی ایک ایسے سفر کا نام ہے، جو ہم میں سے کئی نہ چاہتے ہوئے
کررہے ہیں اور چندایک ایسےبھی ہیں جو چاہ کر اِس سفر کو طے کر رہے ہیں. کیا
زندگی واقعی انہی مشقتوں کا نام ہے؟ اور کیا زندگی اِک ایسے ہی سفر کا نام
ہے؟ کیا یہ زندگی خوش رہنے کا نام ہے یا دوسروں کو خوش رکھنے کا نام ہے؟
میرے مطابق ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات انسان ساری زندگی تلاش
کرتا رہتا ہے. مجھے ایک عرصے تک لگتا تھا کہ زندگی صرف عیش و عشرت کا نام
ہے. انسان کا اچھا کھانا پینا ، اچھا پہننا ، اچھی سواری اُس کی زندگی کو
مکمل کر دیتا ہے. لیکن میں نے ان میں سے ایک چیز سے بھی کبھی دل کا سکون
نہیں پایا. ہاں! میرا جسم، میرے رشتہ دار، میرےآس پاس کے لوگ اِسے میرا
خوشی اور سکون سمجھتے ہوں گے. روح کا سکون میں نے اُسی دن پایا ہے، جس دن
میں نے کسی کے لیے کچھ کیا ہے. میری ہر وہ مسکراہٹ جو کسی کے دکھ کا مداوا
کرگئی، میرے لیے وہ انمول ہے. میری ہر وہ کاوش، جس سے اگلے کو خوشی ملی،
مجھے اپنی جان سے پیاری ہے. ہر وہ ہاتھ ، جس نے مجھے اپنی مدد کے لئے پکڑا
، میرے لئے ایک حسین یاد ہے. آپ سے روزِ محشر یہ سوال نہیں ہونا کہ آپ نے
کتنے گھر بنا لیے؟ آپ سے روزِ محشر یہ پوچھا جائے گا کہ آپ کو جو عطا کیا
گیا تھا، اُس میں سے آپ نے آگے کتنا بانٹا؟ میں نے اگر قانون کی تعلیم حاصل
کی ہے تو میرا رب مجھ سے یہ سوال کرے گا کہ میرے بندے تو نے میری اِس عطا
سے کتنوں کو سیراب کیا ہے؟ کتنے بے کس اور مجبور لوگوں کی تو نے مدد کی؟
اور مجھے اُس دن سے خوف آتا ہے کہ مجھے اپنے رب کے آگے یہ سوچنا پڑے کہ میں
نے کس کس کی مدد کی، آیا کسی کی مدد کی بھی تھی یا صرف اپنی انا کو تسکین
دی تھی. دیکھیں! جس کو جو کچھ بھی ملا ہے، اُس کا اُس چیز کو پانے میں کوئی
ہاتھ نہیں ہے، یہ سب میرے رب کی عطا ہے. اور آپ ہر اُس چیز کے جواب دہ ہیں
، جو آپ کو عطا ہوئی ہے. زندگی کا سفر آپ کو اُس وقت حسین لگے گا ، جب آپ
اسے دوسروں کے لئے صرف کرنا شروع کر دیں گے. آپ کو ابھی اپنی زندگی گزرتی
ہوئی لگے گی، لیکن جب آپ لوگوں کے لئے کچھ کرنا شروع کر دیں گے تو آپ کو
یوں محسوس ہوگا کہ آپ اپنی زندگی گزار رہے ہیں، آپ اپنی زندگی کو حقیقی
معنوں میں جی رہے ہیں. میرا شمار بھی آج کل کی نوجوان نسل میں ہوتا ہے اور
میں بخوبی آج کل کے حالات اور ضروریات کو جانتی ہوں. میں یہ نہیں کہتی کہ
آپ اپنا سب کچھ چھوڑ کر کسی کو دے دیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے نیکی کے عمل سے
زندگی کے اِس حسین باب کا آغاز کریں. مثلاََ میں اگر ایک گاڑی میں سوار ہوں
تو مجھے کسی مسافر کو کہیں چھوڑتے ہوئے کوئی مسئلہ نہ ہو، میں جو خود کھا
رہی ہوں مجھے وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے کو کھلاتے ہوئے کوئی مشقت نہ
درپیش ہو، میں خود اگر کسی برانڈ کا سوٹ پہن رہی ہوں تو اپنے سے مالی حیثیت
میں کم والے کو وہ سوٹ لے کر دیتے ہوئے مجھے کوئی مشکل نہ ہو. یقین کیجئے!
جس دن آپ نے اور میں نے اپنی زندگی کو اِس نظریے سے دیکھنا شروع کر دیا ،
اُس دن ہمیں اپنی زندگی کا مقصد بھی سمجھ آجائے گا اور اِس کتاب کا ہر صفحہ
اپنی مرضی سے بھرنا بھی آجائے گا. آپ سب کی دعاؤں کی طالب گار سروش جاوید۔
|