ملتان کے نشتر اسپتال کی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ
اسپتال کے ڈائیلیسز یونٹ میں ایک ایچ آئی وی پازیٹو مریض کی موجودگی کی وجہ
سے وائرس دوسرے مریضوں میں منتقل ہوا۔ یہ واقعہ اسپتال میں موجود مریضوں کی
حفاظت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے اور صحت کے شعبے میں موجود
حفاظتی تدابیر کی کمی کو واضح کرتا ہے۔ اسپتال کے ترجمان کے مطابق، اس وقت
ڈائیلیسز یونٹ میں 240 مریض زیر علاج تھے، جن میں سے ایک مریض ایچ آئی وی/ایڈز
کا شکار تھا۔ اسپتال نے واضح کیا کہ ایچ آئی وی پازیٹو مریض کو الگ مشین پر
علاج فراہم کیا گیا تھا تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے، مگر باوجود
اس کے، وائرس کے دوسرے مریضوں میں منتقلی کی خبریں سامنے آئیں، جس سے
اسپتال کے انفیکشن کنٹرول اقدامات پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔
اس واقعے کے بعد، تمام رجسٹرڈ مریضوں کی دوبارہ اسکریننگ کی جا رہی ہے اور
ایچ آئی وی کی منتقلی کی مکمل تفصیلات معلوم کرنے کے لیے ایک انکوائری
کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس وقت 30 مریضوں میں ایچ آئی وی کی موجودگی کی
تصدیق ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ، دو ڈائیلیسز مشینوں کو مزید استعمال سے روک
دیا گیا ہے تاکہ مزید مریضوں میں وائرس کی منتقلی کو روکا جا سکے۔ تاہم، یہ
واقعہ اسپتال کے حفاظتی اقدامات پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے اور یہ واضح
کرتا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات کو روکنے کے لیے کیا تدابیر ضروری ہیں۔
اگرچہ اسپتال کی فوری کارروائیاں جیسے مریضوں کی دوبارہ اسکریننگ اور
متاثرہ مشینوں کی بندش قابل تحسین ہیں، لیکن اس واقعے سے اسپتال کے انفیکشن
کنٹرول کے طریقہ کار میں موجود خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ڈائیلیسز یونٹس
اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسے ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں کراس کنٹیمینیشن کا
خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ مریضوں کے علاج کے لیے مشترکہ مشینوں کا
استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسپتالوں کو انتہائی سخت صفائی کے معیارات پر
عمل پیرا ہونا چاہیے، اور یہ حادثہ اس بات کا اشارہ ہے کہ شاید موجودہ
حفاظتی تدابیر یا تو ناکافی تھیں یا ان پر مناسب عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو اس کے طویل مدتی اثرات سنگین ہو
سکتے ہیں، خاص طور پر متاثرہ مریضوں اور اسپتال کے لیے۔ ایچ آئی وی سے
متاثرہ مریضوں کو اب طویل المدتی علاج کی ضرورت ہوگی، اور اگر مناسب اینٹی
ریٹرو وائرل تھراپی نہ کی گئی تو وائرس ایڈز میں تبدیل ہو سکتا ہے، جس سے
مریض کا مدافعتی نظام شدید متاثر ہوتا ہے اور دوسری بیماریوں کے حملے کا
خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مزید برآں، جو مریض اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں، انہیں
تشخیص اور علاج میں تاخیر کا سامنا ہو سکتا ہے، جس سے ان کی حالت مزید بگڑ
سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، متاثرہ مریضوں پر نفسیاتی اور جذباتی اثرات بھی مرتب ہو سکتے
ہیں۔ ایچ آئی وی کی غیر متوقع تشخیص انہیں ذہنی دباؤ، اضطراب اور افسردگی
کا شکار بنا سکتی ہے۔ اس میں اضافی طور پر، جب مریض یہ جانتے ہیں کہ انہیں
اسپتال میں علاج کے دوران وائرس منتقل ہوا ہے، تو ان کے ذہن میں اسپتال کی
حفاظت کے حوالے سے سنگین سوالات ابھرتے ہیں، جو ان کی ذہنی حالت پر مزید
اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
اس واقعے کا اثر صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا صحت کے
شعبے پر بھی وسیع اثر پڑ سکتا ہے۔ اگر نشتر اسپتال اس معاملے کو مؤثر طریقے
سے حل نہیں کرتا، تو یہ عوام کا اعتماد کھو سکتا ہے اور اسپتال کی شہرت کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خاص طور پر وہ مریض جو ڈائیلیسز جیسے
پیچیدہ اور حساس علاج کے لیے اسپتال آتے ہیں، ان کا اس اسپتال سے علاج
کروانے پر اعتماد متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس نوعیت کے واقعات صحت
کے شعبے میں موجود دیگر اسپتالوں اور علاج گاہوں پر بھی منفی اثر ڈال سکتے
ہیں، خاص طور پر جب عوام میں یہ تاثر پیدا ہو کہ اس نوعیت کی بیماریوں کی
منتقلی کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ واقعہ ایک اور سنگین مسئلہ کی عکاسی
کرتا ہے، جو ملک میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خطرات کو
ظاہر کرتا ہے۔ اگر فوری طور پر موثر اقدامات نہ کیے گئے، تو پاکستان اس
مسئلے میں ان دوسرے ایشیائی ممالک کے نقش قدم پر چل سکتا ہے، جہاں ایچ آئی
وی کے پھیلاؤ کی روک تھام میں سخت تدابیر اپنائی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر،
بھارت، تھائی لینڈ اور فلپائن میں، جہاں ایچ آئی وی/ایڈز ایک سنگین عوامی
صحت کا مسئلہ ہے، وہاں کے اسپتالوں نے ڈائیلیسز یونٹس اور دیگر صحت کے حساس
شعبوں میں کراس کنٹیمینیشن کو روکنے کے لیے سخت حفاظتی پروٹوکولز نافذ کیے
ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان میں ابھی بھی بہت سی اسپتالوں میں بنیادی حفاظتی
تدابیر کی کمی دیکھنے کو ملتی ہے، جس کا نتیجہ اس جیسے حادثات کی صورت میں
نکلتا ہے۔
اگر نشتر اسپتال اور دوسرے اسپتال اس واقعہ کے بعد اپنی حفاظتی تدابیر کو
مزید مؤثر نہیں بناتے، تو پاکستان میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی صورتحال
مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے، جیسے کہ دوسرے ایشیائی ممالک میں جہاں حفاظتی
تدابیر کی کمی کی وجہ سے ایچ آئی وی کی منتقلی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا
نتیجہ صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے بوجھ، عوامی اعتماد میں کمی، اور بیماریوں
کی روک تھام میں ناکامی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر، یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسپتال اپنی حفاظتی تدابیر
کا فوری طور پر جائزہ لے اور ان میں درکار تبدیلیاں کرے۔ اس میں ڈائیلیسز
یونٹس میں مناسب صفائی کے معیار کی پابندی، مریضوں کی اسکریننگ کے عمل کو
مزید مضبوط کرنا اور ایچ آئی وی یا دیگر خطرناک بیماریوں کے مریضوں کے لیے
خصوصی پروٹوکولز کا نفاذ شامل ہونا چاہیے۔ مزید برآں، پاکستان کو دیگر
ایشیائی ممالک سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنے صحت کے شعبے میں انقلابی
تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ ایچ آئی وی اور دیگر خون سے منتقل ہونے
والی بیماریوں کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکے۔
اسپتال کو اس مسئلے پر عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے مکمل شفافیت کے
ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہیے اور متاثرہ مریضوں کو مکمل معلومات فراہم کرنی
چاہیے کہ ان کے علاج میں کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انکوائری کمیٹی کو اس
معاملے کی جامع تحقیقات کرنی چاہیے اور عوام کے سامنے اس کی تفصیلات رکھنی
چاہیے تاکہ لوگوں کا اعتماد دوبارہ بحال ہو سکے۔ صرف ان اقدامات کے ذریعے
نشتر اسپتال اور دیگر صحت کے ادارے اس حادثے کے طویل مدتی اثرات کو کم کر
سکتے ہیں اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کر .سکتے ہیں۔
|