سابق امریکی صدر اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار
ڈونالڈ ٹرمپ پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات جیت کر، آئندہ
سال بیس جنوری کو وائٹ ہاؤس پہنچے والے ہیں۔ اس امریکی صدارتی انتخابات میں،
ٹرمپ کا مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار، ہند نژاد امریکی خاتون کملا
ہیرس سے تھا۔ کملا ہیرس جو بائیڈن کی حالیہ مدت صدارت میں نائب صدر ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے، انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے میں، جو بائیڈن
نے اگلی مدت کے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے پر امید ہوکر، انتخابی مہم
شروع کی تھی۔ مگر وہ اپنی انتخابی مہم چلانے میں بری طرح ناکام رہے۔ چناں
چہ کملا ہیرس کو امید وار بنایا گیا۔ اس نے مقابلہ تو کیا، مگر وہ کامیاب
نہیں ہوسکیں۔ وہ جس بائیڈن انتظامیہ کا حصہ ہیں، وہ مشرق وسطی میں، غاصب
وقابض ریاست اسرائیل کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں اور لبنانیوں کے نسل کشی
کی سرپرستی کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ ناراض ہیں اور کملا ہیرس کا ہارنا
بالکل متوقع تھا۔ آج اگر بائیڈن انتظامیہ قابض ریاست اسرائیل کی حمایت سے
دست بردار ہوجائے، تو صہیونی ریاست کو ایسی شکست فاش کا سامنا کرنا پڑے گا،
جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔
اس تاریخی انتخابات میں، ری پبلکین امیدوار ٹرمپ نے بھاری اکثریت سے جیت
حاصل کی ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو شکست کا سامنا
کرنا پڑا ہے۔ کچھ رپورٹ سے یہ بھی پتہ چل رہا ہے کہ بہت سے لوگوں نے
ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو اس لیے ووٹ نہیں کیا کہ اس کی
انتظامیہ فلسطینیوں کے نسل کشی کو رکوانے میں ناکام رہی؛ بلکہ دل کھول کر
اسرائیل کی مدد کرتی رہی اور صہیونی ریاست غزہ کے شہریوں کے خلاف نسل کشی
کے جرائم کا ارتکاب کرتی رہی اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ ٹرمپ نے اپنی
تاریخی کامیابی کے بعد، اپنی پہلی تقریر فلوریڈا میں کی۔ اس تقریر میں اس
نے ایک اہم بات یہ کہی ہے وہ نئی جنگیں شروع کرنے کے بجائے جاری جنگوں کو
ختم کریں گے۔
اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اسی طرح غاصب وقابض ریاست
اسرائیل فلسطین اور لبنان کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ قابض اسرائیل گاہے بگاہے
شام، یمن، عراق وغیرہ پر بھی حملے کر رہا ہے۔ ٹرمپ کی اس کامیابی کے بعد،
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے ایک بیان میں ٹرمپ کو مبارکباد پیش کی اور
ان کی ہمت کو سراہا ہے۔ پوتن نے مزید کہا: "ٹرمپ کے ساتھ رابطے بحال کرنے
پر کوئی اعتراض نہیں۔" ٹرمپ نے بھی روسی صدر پوتن سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے
اور یوکرین جنگ کو مزید نہ بڑھانے اور امن وامان کے بحالی کا مشورہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے پوتن کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی ہے کہ زمینی قبضہ کا لین دین کرکے
امن معاہدہ کرلیا جائے۔
جہاں تک فلسطینی انتظامیہ کی بات ہے؛ تو محمود عباس نے ٹرمپ کی کامیابی کے
بعد، ٹرمپ کے ساتھ مل کر، امن کے لیے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
حماس کے عہدیداران نے ٹرمپ کی جیت کے بعد، چند جملوں میں اپنی ساری بات کہہ
دی ہے۔ حماس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ: "امریکی انتخابات میں
ڈیموکریٹس کی شکست غزہ پر ان کے مجرمانہ موقف کی قیمت ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ جو
بائیڈن کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔"
نسل کشی کے مجرم اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو سے ٹرمپ کے اچھے تعلقات ہیں۔
قابض ریاست اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کی دلیل
ٹرمپ کے وہ فیصلے ہیں جو انھوں نے اپنی سابقہ مدت صدارت میں لیے ہیں۔ اب
سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ فلسطینیوں کے خلاف جاری اسرائیلی جنگ اور نسل کشی
کو بھی رکوانے کی کوشش کریں گے؟ اگر وہ کوشش کرتے ہیں، تو کیا وہ اپنی کوشش
میں کامیاب بھی ہوپائیں گے؟ وہ جنگ بندی کے لیے مظلومین کے حقوق کا بھی
خیال رکھیں گے یا صرف اپنی طاقت کے بل پر، اپنی شرائط منواکر جنگ بندی
کرانے کی کوشش کریں گے؟ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت میں، قابض اسرائیل کے
حوالے سے جو جابنداری برتی ہے، اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کی جیت سے
فلسطینیوں کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ ٹرمپ فلسطینیوں کے جائز حقوق کی
باتیں نہیں کریں گے۔ وہ صہیونی ریاست اسرائیل کو مزید طاقتور بنانے کی کوشش
کریں گے۔ پھر نتن یاہو ٹرمپ کی موجودگی سے حوصلہ پاکر، مغربی کنارے میں
اسرائیلی خود مختاری اور نئی بستیوں کی تعمیر میں اضافہ کرے گا۔ اس طرح
اسرائیل کی طرف سے انضمامی عمل جاری رہے گا اور فلسطین دن بدن سکڑتا چلا
جائے گا۔
ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدرات، سن 2017 سے سن 2020 تک، قضیہ فلسطین کے حوالے
سے جو فیصلے لیے، وہ سب کے سب فلسطین کے خلاف تھے۔ وہ فیصلے یک طرفہ طور پر
قابض صہیونی ریاست کے حق میں تھے۔ وہ پہلا امریکی صدر ہے جس نے یک ریاستی
حل کے فارمولے کی بات کی۔ اس نے 16/ فروری 2017 کو نتن یاہو کے ساتھ ایک
پریس کانفرس کی۔ اس پریس کانفرنس میں اس نے یہ کہا تھا کہ فلسطین اور
اسرائیل تنازع کے حل کے لیے جہاں وہ دو ریاستی حل کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں
"یک ریاستی حل" بھی زیر غور ہے۔ یہ وہی زبان جو بہت سے شدت پسند اسرائیلی
سیاستداں استعمال کرتے ہیں۔ ابھی چند دنوں قبل جدعون ساعر قابض اسرائیل کا
نیا وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ وہ 12/ نومبر کو مقبوضہ بیت المقدس میں
نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ عرب ممالک سے
نارملائزیشن کے بدلے میں، کیا اسرائیل فلسطینی ریاست کا قیام گوارا کرلے
گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جدعون نے کہا: "ایک آزاد اور مقتدر فلسطینی
ریاست کے قیام کی باتیں غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ اس لیے میں کہوں گا کہ ہمیں
حقیقت پسند ہونا چاہیے۔"
ٹرمپ نے اپنی سابقہ مدت صدارت میں، 6/ دسمبر 2017 کو مقبوضہ "بیت المقدس"
کو قابض اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کیا؛ جب کہ یہ عالمی قانون اور اقوام
متحدہ کے اصول کے خلاف ہے۔ پھر اس نے یہ حکم صادر کیا کہ تل ابیب میں قائم
امریکی سفارت خانہ برائے اسرائیل کو بیت المقدس منتقل کیا جائے۔ چناں چہ اس
کے حکم کے بعد، 14/ مئی 2018 کو امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے بیت
المقدس منتقل کردیا گیا۔ ٹرمپ نے اس دن یہ کہا تھا کہ "یہ اسرائیل کے لیے
عظیم دن ہے۔"
ٹرمپ انتظامیہ نے اگست 2018 میں یہ حکم صادر کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی
ریلیف اور ورکس ایجینسی (UNRWA) کو امریکہ کی طرف دی جانے والی امداد مکمل
طور پر روک دی جائے۔ یہ ایجینسی اردن، شام، لبنان وغیرہ میں موجود فلسطینی
مہاجرین کے لیے انسانی بنیادوں پر کام کرتی ہے۔ امریکہ میں ایک لمبی مدت سے
"فلسطینی مشن" قائم تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس مشن کو 10/ ستمبر 2018 کو بند
کردیا۔ مزید یہ کہ جو شخص فلسطینی مشن میں سفیر کی حیثیت سے مامور تھے، ان
کا ویزا منسوخ کرکے، انھیں امریکہ سے نکال دیا۔ مقبوضہ بیت المقدس میں
امریکی قونصل خانہ برائے فلسطین قائم تھا۔ اسے بھی ٹرمپ انتظامیہ نے 18/
اکتوبر 2018 کو بند کروا دیا۔ مزید یہ شگوفہ یہ چھوڑا کہ امریکی سفارت خانہ
برائے اسرائیل میں ہی ایک کورنر فلسطین کے لیے خاص کردیا جائے گا۔
ٹرمپ نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کے حوالے سے ایک ڈیل کی بات کی
تھی۔ پھر اس نے نتن یاہو کی موجودگی میں، 28 جنوری 2020 کو اس ڈیل کو پیش
کیا۔ وہ ڈیل کیا، بلفظ دیگر، یک طرفہ، جابندار اور یک ریاستی حل کا فارمولہ
تھا۔ اس ڈیل کو ڈیل آف دی سنچری اور ٹرمپ امن منصوبہ کے نام سے پیش کیا
گيا۔ در حقیقت اس ڈیل میں فلسطین کے حق میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر وہ ڈیل
فلسطینیوں کی طرف سے قبول کرلی جاتی، تو فلسطین اسی دن ختم ہوجاتا۔ مگر
فلسطین کے قائدین وعوام نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ڈیل کو مسترد
کردیا، الحمد للہ۔
اگست 2020 میں ٹرمپ نے امریکی ثالثی میں، کچھ عرب ممالک اور قابض اسرائیل
کے درمیان نارملائزیشن کا ایک سلسلہ شروع کرایا۔ وہ نارملائزیشن "ابراہم
اکورڈ" (معاہدۂ ابراہیمی) کے نام سے کرایا گیا۔ کچھ عرب ممالک نے اسرائیل
کے ساتھ دوستی شروع کی، سفارتی تعلقات قائم کیے، ایک ملک کا وزیر دوسرے ملک
کا دورہ شروع کیا۔ اس ابراہیمی اکورڈ کا مقصد قابض اسرائیل کی مقبولیت میں
اضافہ کرنا اور فلسطین کو کنارے لگانا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ "معاہدۂ
ابراہیمی" صرف چند ممالک تک ہی محدود رہا اور ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہوگئی۔
ٹرمپ نے فلسطین اور قابض اسرائیل کے حوالے سے جو بھی قدم اٹھایا، وہ دو
ریاستی فارمولے کے بالکل خلاف تھا۔ لہذا ابھی ٹرمپ کے آنے کے بعد اور اس کے
اس دعوے کے بعد بھی کہ جنگ ختم کروائیں گے، فلسطین کے حوالے سے بہت سے
خدشات ہیں۔ وہ خدشات بجا ہیں؛ کیوں کہ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت میں جس
جابنداری سے صہیونی ریاست اسرائیل کے لیے کام کیا ہے، وہ عالم اسلام اور
فلسطینیوں کے لیے ایک تلخ اور تکلیف دہ تجربہ رہا ہے۔ ان کی پہلی مدت صدارت
کے فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ صہیونی ہے اور قابض اسرائیل کی حمایت میں
کسی حد تک جاسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ میرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں۔
مشرق وسطی کے حالات ابھی نہایت ہی نازک ہیں۔ ٹرمپ ایک ضدی اور انتقام پسند
آدمی ہے۔ وہ اپنی انا کے سامنے کسی کی نہیں چلنے دیتا ہے۔ اس کی خواہش ہوگی
کہ مشرق وسطی میں کچھ نیا کرکے، خود کو دنیا میں ایک ہیرو ثابت کرے۔ ممکن
ہے کہ اسرائیل فلسطین قضیے کے حوالے سے، وہ اپنی پرانی ڈیل: "ڈیل آف دی
سنچری" ایک بار پھر پیش کرے۔ اسی طرح موجودہ جنگ کے سلسلے میں، اسرائیلی
مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے، وہ اپنی شرائط پر جنگ ختم کروانا چاہے۔ اگر
حماس نے اس کے شرائط ماننے سے انکار کردیا، تو بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ
صہیونی قابض ریاست کو پوری چھوٹ دے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے بہانے پورے
غزہ کو ختم کردے۔ خدا کرے کہ ٹرمپ کو کوئی اچھا اور مناسب مشیر میسر ہو اور
ٹرمپ اپنی اس دوسری مدت صدارت میں کچھ مثبت فیصلے کے حوالے سے تاریخ میں
جانا جائے! ∎∎∎∎
٭ مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
|