لندن میں نواز شریف کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے
ہوئے مریم نواز نے کہا کہ اسموگ کا مسئلہ سالوں سے ہے اور یہ فوری طور پر
حل نہیں ہوسکتا، پنجاب حکومت تدارک کیلیے تمام اقدامات اٹھارہی ہے اور امید
ہے کہ ہم اس پر قابو پالیں گے۔مریم نواز نے واضح کیا کہ اسموگ پر قابو پانے
کے حوالے سے اقدامات کررہے ہیں اور اس میں چند سال لگیں گے لیکن انشاء اﷲ
مسئلہ حل ہوجائے گا۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسموگ کی وجہ چاول کی فصل کی باقیات جلانے کو
مسترد کردیا ہے۔سماجی رابطے کی سائٹ پر انہوں نے اسموگ سے متعلق ایک چارٹ
شیئر کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ فضائی آلودگی کی وجہ
ٹرانسپورٹ ہے، اس کے بعد فصلوں کا جلانا، پھر کچرے کو نذر آتش کرنا دوسری
اور تیسری بڑی وجوہات ہیں۔اس چارٹ کو شیئر کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ
’صرف شور ہے کہ اسموگ چاول کی فصل کی باقیات جلانے سے ہوتی ہے۔انہوں نے
لکھا کہ اسموگ بھارت سے امپورٹ ہو رہی ہے کیونکہ ہوا مشرق سے مغرب کی طرف
چل رہی ہے، جب مغرب سے مشرق کی طرف چلے گی تو پھر کیا ہوگا۔ان کا کہنا ہے
کہ پاکستان اور خصوصاً پنجاب کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہاں مارکیٹیں
دوپہر کے بعد یعنی 2 بجے کے قریب کھلتی ہیں اور آدھی رات کے بعد یعنی 2 بجے
کے بعد تک کھلی رہہتی ہیں۔خواجہ آصف نے مزید لکھا کہ تاجر تنظیمیں ایک بڑی
قوت ہیں اور وہ ان منفرد اوقات کو تبدیل کرنے کی حامی نہیں، ہم سیاست دان
کی بھی سیاسی دکان داری ہے کہ ہم مصلحتوں کا شکار ہیں کہ ہمارے کاروبار
سیاست کو کوئی زک نہ پہنچے، پاکستان زندہ باد۔
وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ اسموگ کو کم کرنے کے لیے
تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں۔وزیرِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ اسموگ کم کرنے کے
لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کریں گے، ہوا کا رخ جب بھی لاہور کی
جانب ہوتا ہے تو اسموگ بڑھ جاتی ہے۔گورنر پنجاب سلیم حیدر خان نے کہا ہے کہ
سموگ پرکاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، عوام کو سموگ کے رحم وکرم
پرنہ چھوڑا جائے، پنجاب حکومت کہیں نظر نہیں آرہی، وہ حالات کی سنگینی کو
سمجھے،عوامی مسائل، سموگ پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔مہمند لویہ جرگہ وفد
نے کہا شناختی کارڈ، پاسپورٹ حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ماہرین ماحولیات
کا کہنا ہے مصنوعی بارش سے بھی اسموگ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، چین اور انڈیا
کی طرز پر مسٹ کینن استعمال کرنا ہوں گے۔
پنجاب حکومت نے اسموگ میں کمی کے لئے مصنوعی بارش کا منصوبہ بنایا تھا تاہم
اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے '' مصنوعی
بارش '' کے لئے پچاس فیصد تک بادلوں کا ہونا ضروری ہے لیکن حالیہ سیزن میں
بادل بننے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی کے ماہرماحولیات
ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے مصنوعی بارش اس وقت ممکن ہے جب قدرتی طور پر
بادل موجود ہوں اور ان پر کیمیکل کا چھڑکاؤ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ
مصنوعی بارش سے بھی اسموگ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، گزشتہ سال بھی مصنوعی
بارش کی گئی تھی لیکن چند علاقوں میں ہی بوندیں برسی تھیں۔ اس کے علاوہ جب
بادلوں پر کیمیکل کا چھڑکاؤ ہوتا ہے تو وہ کیمیکل بارش کے پانی میں شامل
ہوجاتا ہے جس کے زولوجیکل اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ڈاکٹر ذوالفقار علی کا یہ
بھی کہنا تھا کہ چین کی طرز پر ائیرپیوریفائر ٹاور لگانا بہت مہنگا پراجیکٹ
ہے، پاکستان کے اس وقت جو معاشی حالات ہیں وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ لاہور
سمیت بڑے شہروں میں یہ ٹاور لگائے جاسکتے ہیں۔
فرانسیسی ماہر موسمیات ارک دوشے نے ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان کے شہر
لاہور میں اسموگ کے معاملہ پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسموگ کا مکمل
خاتمہ کرنے کیلیے ضروری ہے کہ کاروباری مراکز شام کے بعد بند کرنے پر سختی
سے عمل کیا جائے۔انکا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ سارا سال جاری رہنا چاہیے جب تک
انسان قدرتی روشنی کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنی روز مرہ زندگی کا عادی
نہیں ہوگا اس وقت تک موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام ممکن نہیں۔انھوں نے کہا
کیونکہ کاروباری مراکز میں تعداد میں تیز ترین لائٹنگ سے ہوا میں نمی ختم
ہو جاتی ہے، دوسری بات یہ کہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلیے فوارے بہت ضروری ہیں،
لہٰذا پارکوں، چوراہوں اور زیادہ ٹرانسپورٹ والے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ
فوارے لگائے جائیں۔انکا مزید کہنا تھا کہ یہ فوارے تین چار گھنٹوں بعد خود
بخود چلائیں تاکہ ہوا میں خشکی اور گرمی کا تناسب کم ہو جائے یہ سلسلہ صرف
بارش کے دنوں میں روکا جائے۔انھوں نے کہا اس سسٹم کو چلائے رکھنے سے آلودگی
پر قابو اور ہوا میں خشکی ختم ہو جائے گی۔انکا مزید کہنا تھا کہ حکومتیں اس
وقت متحرک ہوتی ہیں جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے، لہٰذا اسموگ کو کم کرنے
کیلیے نہیں بلکہ ہمہ وقت ماحول کو درست رکھنے کے تمام اقدامات جاری رکھی
جائیں۔ یہ طریقہ مسلسل استعمال کرنے سے اسموگ پر قابو پایا جاسکے گا اور
بیماریوں میں کمی ہو گی۔ انہوں کہا کہ یہاں بھی یہی صورتحال ہوا کرتی تھی
مگر یہاں یہ اقدام کرنے کے باعث اسموگ پر قابو پالیا گیا۔
وزیراعلیٰ مریم یہ کہہ کر نوازقوم کوخوش خبری سنارہی ہیں یافی الوقت تسلی
دے رہی ہیں کہ سموگ کامسئلہ چندسالوں میں حل ہوجائے گا۔خواجہ آصف نے اس بات
کومسترد کردیا ہے کہ فصلوں کی باقیات کوجلاناسموگ کی بڑی وجہ ہے۔وہ سموگ کی
سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کوقراردیتے ہیں۔وہ فصلوں اورکچرے کوجلانے کوسموگ کی
دوسری اورتیسری وجہ قراردیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت سے سموگ اس لیے آرہی
ہے کہ ہواکارخ مشرق سے مغرب کی طرف ہے۔خواجہ آصف سموگ کی ایک وجہ مارکیٹوں
کادوپہرکے بعد کھلنے اوررات گئے بندہونے کوبھی قراردیتے ہیں۔فرانسیسی
ماہرموسمیات بھی سموگ کومکمل ختم کرنے کے لیے مارکیٹوں کاشام کے بعدبندہونے
کوضروری قراردیتے ہیں۔ ماہرین نے سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش کے
پوائنٹ کوبھی مستردکردیاہے۔
سموگ کے تدارک کے لیے ہردورمیں وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ عوام
کی بھی ذمہ داری ہے۔ سموگ کے خاتمے کے لیے صوبائی حکومت اقدامات کر تو رہی
ہے مزیداقدامات بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانسیسی ماہرین موسمیات نے زیادہ
ٹرانسپورٹ کے علاقوں اورپبلک مقامات پرپانی فوارے لگانے کامشورہ دے چکے ہیں
اس مشورہ پرعمل کرنے کی ضرورت ہے۔ مارکیٹوں کوصبح کے وقت کھلوانے اورشام کے
وقت بندکرانے کی متعدد بارکوشش کی جاچکی ہے۔ کروناکے دنوں میں مارکیٹیں شام
کے وقت بندکرائی جاچکی ہیں۔ صوبائی حکومت مارکیٹیں صبح کے وقت کھلوانے
اورشام کوجلدی بندکرانے میں سنجیدہ ہوجائے تواب بھی ایساہوسکتا ہے۔ جن
علاقوں میں سموگ خطرناک حدتک ہو وہاں اس اصول پرسختی سے عمل کرایاجائے۔ جن
علاقوں میں سموگ کم ہے یانہیں ہے وہاں رات کے گیارہ بجے کے بعدکاروبارکی
اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بازارصبح کے وقت جلدی کھل جائیں اورشام کوجلدی
بندہوجائیں تو اس سے بجلی کی بچت بھی ہوگی اورسموگ کا تدارک بھی ہوسکتا
ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ کوبجلی پرمنتقل کرنے کاسلسلہ شروع ہوچکا ہے۔اس سلسلہ
کوتیزکرنے کی ضرورت ہے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کوروڈ پرنہ آنے دیاجائے۔
سڑک پردوڑنے والی گاڑی دھواں چھوڑ رہی ہو یااینٹوں کابٹھہ دھواں چھوڑ رہاہو
اس کوپہلی بارایک ماہ کے لیے بندکردیاجائے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہاں کام کرنے
والے مزدوروں کے روزگارکابھی متبادل انتظام کیاجاناچاہیے۔بھارت سے آنے والی
سموگ سے بچنے کے لیے ایسانظام وضع کیاجائے جس سے اس طرف سے آنے والی سموگ
اسی طرف واپس مڑ جائے۔ہوٹلوں اورگھروں میں تندورجلائے جاتے ہیں ۔ان تندوروں
میں لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں جن سے دھواں پیداہوتا ہے۔ ہوٹلوں کے تندوروں
کوگیس پرمنتقل کرایاجانا چاہیے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سی این جی اورایل
پی جی گیسیں سستی کرناہوں گی۔ گزشتہ چندسالوں میں گیس کی قیمتیں اتنی زیادہ
بڑھائی گئی ہیں کہ لوگوں نے گیس پرلکڑی کے استعمال کوترجیح دیناشروع
کردیا۔جب سی این جی اورایل پی جی سستی ہوں گی تولوگ لکڑیوں کوگیس کے
استعمال کوترجیح دیں گے ۔ جس سے لکڑیوں کے جلانے کاسلسلہ کم ہوجائے
گااوریوں دھواں کے اخراج میں کمی واقع ہوسکے گی۔ایسے حمام جہاں گیزرمیں
لکڑیاں جلائی جاتی ہیں وہاں گیس یابجلی کے گیزرلگوائے جانے چاہییں۔ سموگ کے
تدارک کے لیے بجلی اورگیس دونوں چیزیں اتنی سستی کرناضروری ہیں کہ ہوٹلوں
،ریسٹورانوں اورگھروں میں سالن بجلی پراورروٹیاں گیس پرپکائی جائیں۔لوگ
سردیوں میں آگ تاپنے کے لیے لکڑیاں یاکوئلہ جلاتے ہیں۔ جب بجلی اورگیس سستی
ہو جائیں گی تولوگ کوئلوں پربجلی اورگیس کے ہیٹرکوترجیح دیں گے۔ ہوتا یوں
ہے جس چیزکااستعمال بڑھنے لگے تواس کی قیمتیں بھی بڑھناشروع ہوجاتی ہیں
۔اسی لیے بجلی اورگیس سے چلنے والے ہیٹرز کی قیمتیں نہ بڑھنے دی جائیں بلکہ
کم کرائی جائیں۔ سموگ کے تدارک کے لیے لکھے گئے اقدامات کوقابل عمل بنانے
کے لیے ضروری ہے کہ پانچ سویونٹ تک بجلی کی فی یونٹ قیمت وہی ہونی چاہیے
جودوسویونٹ سے کم استعمال کرنے والوں کے لیے ہے بلکہ اس سے بھی کم کی جانی
چاہیے۔
|