ہم نے اونچی عمارتوں ، شاہراہوں پردوڑتی بڑی بڑی
گاڑیوں ،دھواں اگلتی فیکٹریوں اورفضا میں کیمیکل کی آمیزش کرتے کارخانوں
کوترقی کانام دیاجبکہ اس نام نہاد ترقی کے منفی اثرات نے انسانیت کیلئے کئی
قسم کے خطرات پیداکردیے ہیں۔ بدقسمتی سے اب بھی موسمیاتی تبدیلی کے خطرات
کوسنجیدہ نہیں لیا جارہا۔اس وقت پاکستان سمیت جوملک موسمیاتی تبدیلی کے
مضمرات اورنقصانات کاسامنا کررہے ہیں انہیں تنہا چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں،
متاثرہ ملکوں کیلئے فنڈ کاقیام ناگزیر ہے۔عالمی برادری ایک دوسرے کے قومی
وسائل میں نقب لگانے اورمہلک ہتھیار بنانے اورانہیں استعمال کرنے کی بجائے
انسانیت کی بقاء کیلئے مفید ایجادات پرفوکس کرے۔بیماریوں سے نجات اورزندگی
بچانے کیلئے ادویات تیارکرنے جبکہ جدید میڈیکل مشینیں اور اوزار بنانیوالے
کردارپوری انسانیت کیلئے سرمایہ افتخار ہیں ۔ پاکستان نے ماضی میں بھی کئی
طرح کی زمینی وآسمانی آفات کاسامنا کیا ہے لیکن سموگ نامی آفت یقینا
حکمرانوں کی بدانتظامی کے ساتھ ہماری انفرادی واجتماعی بداعمالی کاشاخسانہ
ہے ۔افسوس ہم اپنے بچوں کو صحتمند اورصاف ستھرا ماحول فراہم کرنے میں ناکام
رہے ۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے سموگ نے ہماری فضا میں زہرگھول دیا جبکہ ہم نے
سموگ کاسدباب کرنے کی بجائے اپنے بچوں پرتعلیمی اداروں کے دروازوں
کوبندکردیا۔بچوں کاتعلیمی نقصان پاکستان کاقومی نہیں بلکہ عالمی سانحہ ہے ۔
سموگ کے مستقل سدباب کیلئے مسلسل کئی برسوں تک اصلاحات کرنا ہوں گی ۔
لاہور سمیت متعدد صنعتی شہروں میں دھواں شہریوں کی رگ رگ میں اتر رہا
ہے۔فضائی آلودگی ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس سے انسانوں
کی صحت کو شدید نقصان پہنچنافطری ہے جبکہ سموگ سمیت موسمیاتی تبدیلی نے
روزمرہ کی زندگی کو ناقابل برداشت بنادیا ہے۔ اس آلودگی کی بنیادی وجوہات
میں صنعتی اداروں سے نکلتا غیر قابو شدہ مواد، کثافت زدہ اورزہریلہ
دھواں،شہری آبادیوں کے اندرناکارہ ٹائرنذرآتش کرنا ،کسانوں کااپنے کھیت
کھلیانوں میں فصل کی باقیات کو آگ لگانا اورگاڑیوں کی بے ہنگم آمدورفت ہیں،
جو ہمارے اورآسمان کے درمیان ایک طرح سے شدیداورگہری دھند کی چادر تان دیتے
ہیں۔ اس کے نتیجہ میں سانس کی شدید بیماریوں، زندگی کے معیاراورزندگی کی
معیاد میں کمی، اور قبل از وقت اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور سمیت
دوسرے شہروں میں دھواں شہریوں کیلئے مستقل خطرہ بن گیا ہے۔ بدترین آلودگی
کے عوامی صحت پر سنگین اثرات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ خاص طور پر PM2.5 جیسے
باریک ذرات اور زہریلی گیسیں، جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ،
جو فیکٹریوں، بجلی گھروں، اور گاڑیوں سے خارج ہوتی ہیں، انسانوں کیلئے
انتہائی مضر اور خطرناک ہیں۔ یہ آلودگی سانس کے ذریعے آسانی سے انسانی
پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتی ہے اور فوری اور طویل مدتی صحت کے مسائل پیدا
کرتی ہے۔ خاص طور پر بچوں اورخواتین سمیت ضعیف العمرمردوزن اور حساس افراد
برونکائٹس، دمہ اور دائمی رکاوٹی پھیپھڑوں کی بیماریوں (COPD) میں مبتلا ہو
رہے ہیں۔
لاہور اور ملتان جو کبھی اپنی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کیلئے مشہورہواکرتے
تھے، اب اپنی آلودہ فضائی کیفیت کیلئے جانے جاتے ہیں۔ صورتحال اس قدرابتر
ہو چکی ہے کہ یہ شہر اکثر دنیابھر میں سب سے زیادہ آلودہ شہروں کی فہرست
میں ٹاپ پوزیشن پرہوتے ہیں۔ یہ ان کی شہرت، سیاحت، اور کاروباری مواقع کو
بھی متاثر کر رہا ہے۔شہروں میں صنعتی سرگرمیوں کی غیر قابو شدہ ترقی آلودگی
کے ہاٹ سپاٹ پیدا کر رہی ہے۔فیکٹریاں اور کارخانے بغیر مناسب فلٹریشن کے
سیاہ دھواں خارج کرتے ہیں جبکہ چھوٹے پیمانے کی صنعتیں زہریلے کیمیکل ہوا
میں چھوڑ رہی ہیں۔ اسی طرح، سڑکوں پر دوڑتی پرانی اور غیر معیاری گاڑیوں کی
تعداد میں دن بدن اضافہ بھی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ان دونوں
شعبوں سے خارج ہونے والے زہریلے مواد جیسے نائٹروجن آکسائیڈ، وولیٹائل
آرگینک کمپاؤنڈز (VOCs)اور کاربن مونو آکسائیڈ، مخصوص موسمی حالات میں مل
کر دھند نماسموگ پیدا کرتے ہیں۔ یہ بحران خاص طور پر لاہور میں سردیوں کے
دوران زیادہ شدت اختیار کرجاتا ہے، جب دھند کئی دنوں تک شہر پر چھائی رہتی
ہے اور مضر آلودگیوں کو زمین کے قریب ہی پھنسائے رکھتی ہے۔
صورتحال کی سنگینی کوپوری طرح ادراک کرتے ہوئے پاکستان کے ارباب
اقتدارواختیار ، خاص طورپر وزارت ماحولیات، وزارت تجارت، اور ٹریفک پولیس
کے حکام نے سخت اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں لیکن یہ سبھی سال بھر ہاتھ
پرہاتھ دھرے بیٹھے اوراس بحران کاانتظار کرتے رہے۔ ماحولیات کے قوانین کی
خلاف ورزی کرنے والی فیکٹریوں پر بھاری جرمانے، بندش اور بعض اوقات قانونی
کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس گاڑیوں کی جانچ میں اضافہ کر رہی ہے
اور ماحولیاتی معیار پر پورا نہ اترنے والی گاڑیوں کو جرمانہ کر رہی ہے
۔وزارت ماحولیات نے فضائی آلودگی کے صحت پر مضر اثرات کے بارے میں آگاہی
مہمات بھی شروع کی ہیں اور صنعتوں اور افراد کو ذمہ داری اٹھانے کی ترغیب
بھی دی ہے۔ تاہم ان اقدامات کے طویل مدتی اثرات کیلئے سخت قوانین اور ان کا
مستقل نفاذ ضروری ہے۔یہ اقدامات ایک مثبت آغاز ہیں، لیکن بحران کی سنگینی
اورگہرائی کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقل بنیادوں پرایک مربوط حکمت عملی کی
ضرورت ہے۔
لاہور سمیت آفت زدہ شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ
سڑکوں پر گاڑیوں کی تعدادمیں نمایاں کمی آئے ۔ صاف ٹیکنالوجی، جیسے برقی
گاڑیاں اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دیا جائے اور عوام کیلئے قابل رسائی
بنایا جائے۔ مزید سبز مقامات اور شہری جنگلات بھی قدرتی فلٹر کے طور پر کام
کر سکتے ہیں، جو آلودگی کو جذب کرکے ہوا کے معیار کو بہتر بناتے ہیں۔مزید
برآں حکومت نجی شعبوں اور این جی اوز کے ساتھ شراکت سے عوام کو کاربن کے
ذاتی اثرات میں کمی کرنے، صاف گاڑیاں استعمال کرنے اور ماحولیاتی قوانین کی
پاسداری کے بارے میں تعلیم دے سکتی ہے۔میں سمجھتی ہوں اگر جامع اور مسلسل
اقدامات نہ کئے گئے تو لاہور سمیت آفت زدہ شہروں کی فضائی کیفیت مزید ابتر
ہوسکتی ہے اوراس کے نتیجہ میں مزید لوگ آلودگی کے صحت پر سنگین اثرات کا
شکار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے دل لاہور سمیت ہمارے اہم ترین شہر ایک بار پھر
ترقی پذیر شہری مراکز بن سکتے ہیں لیکن آلودگی ان کی شہرت اور شہریوں کی
صحت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ صرف مضبوط اورمربوط حکومتی اقدامات، عوام کا
بھرپورتعاون، اور صنعتی ذمہ داری کی مددسے سیاہ دھواں چھٹ سکتاہے اورہمارے
ہم وطنوں کیلئے ایک صاف اور صحت مند مستقبل کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔
|