آلودگیِ دھند (اسموگ) جو جنوبی ایشیا کے آسمانوں پر ہر
سال چھا جاتی ہے، ہمارے دور کی ایک نمایاں اور سنگین ماحولیاتی بحرانی صورت
اختیار کر چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے کروڑوں افراد کے لیے، سردیوں کا
آغاز صرف موسم کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک صحت کی ایمرجنسی کا پیش خیمہ بن
جاتا ہے۔ جو مسئلہ کبھی موسمی اذیت کا باعث تھا، وہ اب ایک عالمی سطح پر
بڑھتا ہوا خطرہ بن چکا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا
اشارہ دے رہا ہے اور اس کے سدباب کے لیے عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت کو
اجاگر کر رہا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں، دہلی، لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں اسموگ کی سطح
انتہائی خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے، جس سے روزمرہ کی زندگی متاثر ہو رہی ہے،
عوامی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں اور معیشت کو زبردست نقصان ہو رہا ہے۔ یہ
زہریلی دھند جو دھواں، صنعتی اخراجات، گاڑیوں کی آلودگی اور فصلوں کی
باقیات کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے، ان شہروں کو دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ
شہروں میں شامل کر چکی ہے۔ اس موسمی اسموگ کے اثرات نہ صرف ہوا کے معیار کو
متاثر کرتے ہیں بلکہ معیشت، زراعت اور عوامی تحفظ پر بھی گہرے اثرات مرتب
کرتے ہیں۔
2023 کی سردیوں میں بھارت اور پاکستان میں اسموگ کا موسم اب تک کے بدترین
موسموں میں سے ایک رہا ہے، جس کے دوران کئی شہروں میں فضائی معیار کے
اشاریے (AQI) خطرناک حد تک پہنچ گئے ہیں۔ دہلی میں، AQI 500 سے تجاوز کر
گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ماسک کے بغیر سانس لینا بھی جان لیوا ثابت
ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں حالات انتہائی
سنگین ہیں، جہاں اسموگ کی شدت کی وجہ سے باہر کا کام کرنا خطرناک ہو جاتا
ہے اور سانس کے امراض میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ مسلسل دھند صرف ایک مقامی مسئلہ نہیں، بلکہ عالمی سطح پر ایک خطرے کی
گھنٹی ہے۔ جنوبی ایشیا میں اسموگ کی بڑھتی ہوئی شدت اور تعدد ماحولیاتی
تبدیلی، شہریकरण اور بے قابو صنعتی ترقی کا نتیجہ ہے۔ جیسے جیسے عالمی درجہ
حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ واقعات زیادہ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں،
ان کی مدت طویل ہوتی جا رہی ہے اور ان کا اثر بڑے پیمانے پر بڑھتا جا رہا
ہے۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ ہم ان حالات کا سامنا کس طرح کریں گے بلکہ یہ ہے
کہ ہم مستقبل میں ہونے والی تباہی کو کس طرح روکیں گے۔
جنوبی ایشیا میں اسموگ کی تشکیل میں کئی عوامل کردار ادا کرتے ہیں، جنہیں
مقامی عادات اور عالمی ماحولیاتی تبدیلی مزید بڑھا دیتی ہے۔ ان عوامل میں
فصلوں کی باقیات کا جلنا، گاڑیوں کی آلودگی، صنعتی فضلہ، گھریلو کچرے کا
جلانا اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسمی حالات میں تبدیلی شامل ہیں۔
ہر سردی میں بھارت کے شمالی حصوں اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں بڑے پیمانے
پر فصلوں کی باقیات جلانے سے اسموگ کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسان،
خصوصاً پنجاب میں، فصل کاٹنے کے بعد کھیتوں کو تیزی سے صاف کرنے کے لیے
باقیات جلاتے ہیں۔ یہ عمل اگرچہ سستا پڑتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں بہت بڑی
مقدار میں مضر مادے (PM2.5)، کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر زہریلے گیسیں فضا
میں شامل ہوتی ہیں۔ سردیوں کے موسم میں خوشگوار موسمی حالات جیسے کم ہوا کی
رفتار اور ٹھنڈی ہوا ان آلودگیوں کو زمین کے قریب پھنسنے پر مجبور کر دیتے
ہیں، جس کے نتیجے میں شدید اسموگ پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان اور بھارت میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کی وجہ سے گاڑیوں کی
تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو فضائی آلودگی کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ پرانی
اور غیر فعال گاڑیاں نائٹروجن آکسائیڈز (NOx) اور مضر ذرات زیادہ مقدار میں
خارج کرتی ہیں۔ سردیوں میں، کم درجہ حرارت آلودگی کو پھیلنے سے روکتا ہے،
جس سے گاڑیوں کے اخراجات جمع ہو کر اسموگ کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔ خاص
طور پر دہلی جیسے شہروں میں، جہاں ٹریفک کی بھیڑ بھاڑ ہے، اس آلودگی کا اثر
زیادہ سنگین ہوتا ہے۔
دونوں ممالک میں صنعتی آلودگی بھی اس بحران کا ایک اہم سبب ہے۔ بھارت اور
پاکستان میں سینکڑوں صنعتی ادارے ہیں، جن میں سیمنٹ فیکٹریاں، پاور پلانٹس
اور کیمیکل کی پیداوار شامل ہیں، جن میں سے زیادہ تر فیکٹریاں کوئلے کا
استعمال کرتی ہیں۔ کوئلے کی جلانے سے بڑے پیمانے پر سلفر ڈائی آکسائیڈ،
نائٹروجن آکسائیڈز اور دیگر مضر ذرات فضا میں شامل ہوتے ہیں، جو اسموگ کی
شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔ مزید برآں، ماحولیاتی قوانین میں نرمی اور جدید
ترین صاف توانائی کے طریقوں کا کم استعمال اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
علاقے میں مسلسل تبدیلیوں کے ساتھ، گذشتہ دہائی میں اسموگ کے واقعات میں
واضح اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ بھارتی محکمہ موسمیات کے مطابق، بھارت میں
اوسط درجہ حرارت میں تقریباً 0.7 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے، اور
گرمی کی لہریں بڑھ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں بھی کراچی جیسے شہروں
میں گرمی کی لہریں زیادہ شدت اختیار کر چکی ہیں۔
دنیا بھر میں اسموگ کے اثرات محض مقامی بحران نہیں ہیں بلکہ یہ عالمی سطح
پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ مضر ذرات (PM2.5) جو فصلوں کی باقیات،
صنعتی اخراجات اور گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہوتے ہیں، نہ صرف پڑوسی ممالک
میں بلکہ دنیا بھر میں آلودگی کی سطح کو بڑھاتے ہیں۔ عالمی موسمی نظام میں
ان آلودگیوں کے اثرات عالمی سطح پر شدید موسمی واقعات کو بڑھا سکتے ہیں اور
عالمی آب و ہوا کے نظام میں خلل ڈال سکتے ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف باتوں تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی اقدامات کریں۔
2023 کی اسموگ کی تباہی دونوں ممالک کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ ہمیں
آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات
اٹھانے ہوں گے۔ حکومتوں کو مزید سخت ماحولیاتی قوانین نافذ کرنے، سبز
ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے اور صنعتی اور گاڑیوں کے اخراجات کو کم کرنے کی
ضرورت ہے۔ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، چاہے وہ کچرے کی کمی کی
کوشش ہو، صاف توانائی کے متبادل کی اپنانا ہو یا ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف
پالیسیوں کی حمایت ہو۔
آخرکار، یہ بحران محض ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ یہ پورے سیارے کے مستقبل
کا سوال ہے۔ اس کے حل کے لیے مشترکہ اقدامات، جدید حل اور ماحول کو محفوظ
رکھنے کے عزم کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور صاف
ستھرا ماحول فراہم کیا جا سکے۔
|