ہمارے ہاں کی برصغیری ماؤں کو ہمیشہ ہی سے اپنے بیٹے کے
لئے چاند سی دلہن درکار ہوتی ہے خواہ خود اپنا بیٹا جتنا بھی سانولا سلونا
ہو نکٹا چپٹا ہو موٹا بھدا ہو مگر اُس کے لئے بیوی چاند کا ٹکڑا ہی چاہیئے
۔ اور جو لڑکے بہت معقول شکل و صورت کے ہوں تو ماں بہنوں کے مزاج ہی نہیں
ملتے ۔ پھر جو لڑکی خود اپنی جوتیاں گھسا کر لاتی ہیں بعد میں وہی انہیں
زہر لگنے لگتی ہے ۔ بیٹا جب اپنی ماں ہی کی پسند کی ہوئی بیوی پر لٹو ہوتا
ہے تو ماں کے کلیجے پر تیر چلنے لگتے ہیں ۔ لڑکی حسین ہونے کے ساتھ ساتھ
بہت حسن سلوک والی بھی ہو اور اپنے شوہر کا دل اپنی مٹھی میں کر لے تو اس
کی ماں بہنوں کو لگتا ہے کہ اِس چڑیل نے جادو ٹونا کر کے میاں کو اپنے قابو
میں کر لیا ہے ۔ پھر لڑکا اپنی بیوی کا بہت خیال رکھے اسے مالی آسودگی اور
معاشی تحفظ بھی فراہم کرے تو پیروں تلے جنت رکھنے والی ہستی حسد کی آگ میں
جل بھن کر خاک ہونے لگتی ہے اور اکثر ہی اسے ہوا دینے میں اس کی بیٹیوں کا
پورا پورا ہاتھ ہوتا ہے ۔
ایسی ہی حسد و بغض میں مبتلا سفاک ماں بیٹیوں کے ہاتھوں حاملہ بہو زارا کے
انتہائی بہیمانہ و وحشیانہ قتل نے پورے سماج کو لرزا کے رکھ دیا ہے ۔ سانحے
کو منظر عام پر آئے دس روز سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور کیس کی تفتیش و
تحقیق کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں ہر خبر
پچھلی سے مختلف بھی ہوتی ہے اور ہوشربا بھی ۔ مگر ابتدائی اطلاعات کا مختصر
خلاصہ یہی ہے کہ زارا اپنی ڈائن ساس کی سگی بھانجی تھی ۔ شوہر سعودیہ ہوتا
تھا اپنی خوبرو بیوی سے بہت پیار کرتا تھا اور دل کھول کر اس پر خرچ کرتا
تھا بس اس کا یہی التفات اس کی ماں بہنوں سے ہضم نہیں ہو رہا تھا اور وہ
زارا کو اتنا ستانے لگیں کہ اس کے شوہر قدیر نے اسے اپنے پاس سعودیہ بلا
لیا اور اپنی کمائی کا بڑا حصہ اس کے اختیار و تصرف میں دے دیا جس سے اس کی
ماں بہنیں مزید چراغ پا ہو گئیں اور انہیں لگا کہ زارا نے قدیر پر جادو
ٹونے تعویذ گنڈے کر کے اسے اپنے قابو میں کر لیا ہے اور ہم سے چھین لیا ہے
۔ اور پوری منصوبہ بندی اور انتہائی بے دردی کے ساتھ اسے قتل ہی نہیں بلکہ
ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا اس کے سر کو چولہے پر جلایا ۔ پھر قدرت نے ان کے جرم
کو بے نقاب کر دیا ۔ اب روزانہ جس طرح کی خبریں آ رہی ہیں تو صاف لگ رہا ہے
کہ کچھ نہیں ہو گا زارا کا دوہرا خون رائیگاں ہی جائے گا ۔ ہمیشہ سے ایسا
ہی ہوتا آ رہا ہے بڑے سے بڑا جرم ٹھوس ثبوت و شواہد کی موجودگی کے باوجود
کمزور و ناقص عدالتی نظام کے صدقے صفر ہو جاتا ہے ۔ نور مقدم کا بھی سر قلم
کیا گیا تھا اسے ذبح کرنے والے قصائی کو کیا سزا ملی؟ غریب کانسٹیبل پر
گاڑی چڑھا دینے والے فرعون کا جاہل ازلی غلاموں نے پھول کی پتیاں نچھاور کر
کے خیر مقدم کیا ۔ ایک بگڑی نشئی رئیس زادی دو باپ بیٹی کو کچل کر نکل لی ۔
بہت لمبی فہرست ہے مقتولوں کے ورثاء کو ڈرا دھمکا کے یا ان کے خون کی قیمت
لگا کے صاف بچ نکلنے والوں کی ۔ قرار واقعی سزا ملتی ہی نہیں جو بار بار
ایسی درندگی اور وحشناکی کا اعادہ نہ ہو ۔
حالیہ انتہائی ہولناک واقعے نے ذہن میں ہو بہو ایک ایسے ہی واقعے کی یاد
تازہ کر دی جو ایک ساس ہی کے اپنی بہو سے حسد کا شاخسانہ تھا ۔ کیسی بد بخت
مائیں ہوتی ہیں جنہیں خود اپنے جگر گوشے کی خوشیاں خار بن کر چبھنے لگتی
ہیں بیٹے کے دل کی کلی ان کے کلیجے کی پھانس بن جاتی ہے ۔
یہ کوئی لگ بھگ پچیس برس پہلے کی بات ہو گی کراچی کی ایک نواحی بستی میں
ملک کے کسی دوسرے صوبے سے نقل مکانی کر کے آئے ہوئے ایک نیم خواندہ مزدور
پیشہ گھرانے میں ایک شادی ہوئی ۔ اور ساس نے صرف دو ماہ بعد نئی نویلی بہو
کو قتل کر دیا اور گھر کے کچھ دوسرے افراد کے ساتھ مل کر اس کے ٹکڑے کر کے
مرتبان میں بھر دیئے ۔ یہ وہ دور تھا جب نہ سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی سمارٹ
فون کا دور دورہ ۔ ملک کے کسی بھی حصے میں پیش آنے والے واقعے کی اطلاع
باقی کے عوام تک پہنچنے کا ذریعہ اخبارات ہوتے تھے ۔ اور اس اندوہناک واقعے
کے پس پردہ خبر یہ تھی کہ مقتولہ منیرہ بےحد حسین تھی اور شوہر اس پر دل و
جان سے فریفتہ ۔ اور یہ بات اس کی ماں سے برداشت نہیں ہو رہی تھی اور محض
دو ماہ کے عرصے میں وہ اپنے حسد و بغض میں اتنی جنونی ہو گئی کہ اس نے نئی
نویلی دلہن کو قتل ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ٹکڑے تک کر ڈالے ۔ ان دو ماہ میں
اس کا بیٹا چوبیس گھنٹے تو گھر میں نہیں پڑا رہتا ہو گا ۔ دو چار دن کی
چاندنی کے بعد اپنے روزگار پر بھی جانا شروع ہو گیا ہو گا ۔ ایک غریب محنت
کش نے کون سے چاند تارے توڑ کر بیوی کی جھولی میں ڈال دیئے ہوں گے ۔ اُسی
کی ماں کی پسند سے وہ لڑکی اس گھر میں آئی ہو گی مگر بیٹے کا اس سے التفات
شیطان صفت کینہ پرور ماں کے کلیجے کا ناسور بن گیا ۔ بعد میں اس سارے کیس
کا کیا بنا وہ کچھ تو معلوم نہیں ہے اور یاد بھی نہیں ہے ۔ لیکن اتنا یقین
ضرور ہے کہ اس بد بخت ماں کو اسی کے بیٹے نے معاف کر دیا ہو گا آخر اس کے
قدموں تلے جنت ہے جسے پکی کرنے کے لئے لوگ اپنی منکوحہ کو جہنم کے حوالے کر
دیتے ہیں ۔ زارا کے شوہر قدیر کے بارے میں بھی خبر سنی کہ اس نے اپنی ماں
کو معاف کر دیا ہے ۔ اگر یہ افواہ نہیں ہے اور واقعی سچ ہے تو بھائی یہ
قدیر ہوتا کون ہے معاف کرنے والا؟ کیا زارا اس کی ملکیت تھی یا زر خرید؟ اس
کا خون اتنا سستا تھا اس کی کوئی قیمت نہیں؟ اپنی جنت کو آخرت کے عذاب سے
بچانا چاہتا ہے تو اُسے اسی دنیا میں اپنے کیے کی سزا پانے دے ۔
|