انجنیر کرمانی کی گرفتاری اور رہائی

21 نومبر2006 کو دہلی پولیس نے ایک پریس کانفرنس میں یہ سنسنی خیز ”انکشاف“ کیا کہ دہشت گرد تنظیموں نے26/11 کی طرح کا ایک اور حملہ کرنے کی سازش رچی تھی جس کو پولیس نے ناکام کردیا ہے ۔پولیس نے دو کشمیری نوجوانوں کو بھی کانفرنس میں پیش کیاجن میں ایک نوجوان ایرونوٹک انجنیرامین کرمانی تھا اور دوسرا غلام رسول بافندہ۔ پولیس اسپیشل سیل کے افسران نے گرفتاری کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان دونوں کو دوارکا کے سیکٹر6کے شاپنگ ایریا میں رنگے ہاتھوں اس وقت گرفتار کیا گیا جب کرمانی بافندہ کو ڈیڑھ کلو آرڈی ایکس دے رہا تھا۔ کرمانی کے قبضے سے ساڑھے چار لاکھ روپیہ بھی برآمد ہوئے ہیں جو اس کو دہشت گردکاروائی کےلئے حوالہ کے ذریعہ موصول ہوئی تھی۔ ان کے قبضے سے کچھ اسلحہ وغیرہ بھی برآمد ہوا ہے۔بتایا گیا کہ نوجوان انجنیر کرمانی کے تار دہشت گردوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ پریس کانفرنس ٹی وی کیمروں کا رخ کرمانی اور بافندہ کی جانب تھا جبکہ رپورٹرپولیس افسران سے چھوٹی سی چھوٹی تفصیل معلوم کرنے کےلئے سوالوں کی جھڑی لگائے ہوئے تھے۔ چند ہی ثانیوں میں سارے ٹی وی چینلز پر ”دو خطرناک دہشت گردوں“ کی گرفتاری کی ”بریکنگ نیوز “ دکھائی جانے لگی۔ منٹوں میں پوری دنیا کو یہ بتادیا گیا دہلی پولیس نے ایک بڑی دہشت گرد سازش کو ناکام کردیا ہے۔ بین السطور میں یہ بھی باور کرایا گیا کہ مدرسوں کے فارغین ہی نہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ ’مسلم ‘ نوجوان بھی”اسلامی دہشت گرد“ ہوسکتے ہیں ۔ حسب معمول ٹی وی اینکرس نے اچک اچک کر ، ایک ایک لفظ پر زور لگا کر”اسلامی دہشت گردی“ کی کہانیاں دوہرائیں۔ پرانی کلپنگس دکھائیں۔ دہشت گردی خلاف سرکار کے نرم رویہ پر لعن طعن بھی ہوئی۔سرحد پار تربیتی کیمپوں کو تباہ کرنے کا مطالبہ دوہرایا گیا۔ رسیوں پر ، بلیوں پر اور میدانوں میں خود کار اسلحہ سے لیس نوجوانوں کی تربیت کے مناظربھی دکھائے گئے۔ دانشوروں، سیاست دانوں، سفارتکاروں اورکالم نگاروں کو اچھاخاصا موضوع مل گیا اور چینلز پر مباحثے ہونے لگے۔ غرض عوام کو درپیش سارے مسائل پس پشت چلے گئے ۔چند روز کےلئے ہی سہی، لوگ مہنگائی، بدانتظامی اور لوٹ کھسوٹ کے غموں کو بھول گئے اوران ”سنسنی خیز انکشافات“ کوخوف ، حیرت اور نفرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سنتے سناتے اور ان پر تبصرے کرتے رہے۔

قانون کے محافظ پریس کو جس وقت یہ کہانی سنارہے تھے ،امین کرمانی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس کواسی دن شاپنگ مال سے گرفتار نہیں کیا تھابلکہ5دن قبل اس کے فلیٹ سے اٹھایا گیا تھا۔ اس کو حوالہ کے ذریعہ کوئی رقم بھی نہیں ملی تھی اور بافندہ اس کےلئے قطعی اجنبی تھا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ پولیس نے بافندہ کو ہوائی اڈے سے پکڑا تھا۔5دن تک کرمانی کو بلا جواز ٹارچر کیا جاتا رہا جس سے اس کے حوصلے بالکل پست ہوگئے۔ اس کو اپنی دنیا تاریک نظر آنے لگی اوروہ پولیس کی تردیدمیں زبان کھولنے کی ہمت بھی نہیں کرسکا۔وہ ششدر تھا کہ آخر اس کو کیوںپھنسایا جارہا ہے؟ پولیس نے جو کہانی بیان کی اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

کشمیر کے ایک دوردراز گاﺅں کے باشندہ کرمانی کو تعلیم کا شوق تھا۔ والدین نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ اس نے چنڈی گڑھ سے تعلیم پوری کی اور جے پور سے ہوائی جہاز کے رکھ رکھاﺅ (ایرونوٹک انجنیرنگ) کا کورس مکمل کیا۔16 نومبر کی شام جب اس کے دروازے پر دستک ہوئی، وہ اپنے دیرینہ خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کے تصور سے نہال زندگی کے اگلے مرحلے کی تیاری میں مگن تھا۔کافی انتظار کے بعد اسے ایک بڑے ادارے سے کال لیٹر ملا تھا اور اب وہ 21 نومبر کو سروس جائن کرنے والاتھا۔ لیکن اس دستک پر جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا اس کی دنیا بدل گئی۔ سول لباس میں ملبوس چند پولیس افسر اندر داخل ہوئے اور اپنے روالور نکال کر سامنے میز پر رکھ دئے۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک کیس میں اس کی مدد چاہتے ہیں۔اس کو ان کے ساتھ چلنا ہوگا۔ پولیس نے وہ رقم بھی اپنے قبضہ میں لے لی جو اس کے والد نے اسے فلیٹ خریدنے کےلئے فراہم کی تھی۔افسران نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ یہاں کوئی ہنگامہ ہو اور پڑوسیوں کی نظر میں وہ مشکوک ہوجائے۔ اچانک اس صورتحال سے حواس باختہ 23 سالہ کرمانی ان کے ساتھ ہولیا۔ اگلے چار دن تک بلا جوازاس کو غیر قانونی حراست میں رکھ کراذیتیں دی جاتی رہیں۔21 کی شام پولیس کرمانی کو شاپنگ ایریا میں لے گئی۔ تھوڑی دیر میں کرمانی نے دیکھا کہ پولیس ایک اور شخض کو لائی ہے۔ ا س کو ایک تھیلا دیکر کہا گیا کہ وہ جائے۔ جیسے ہی وہ چند قدم چلا ، پولیس نے شور مچادیا ، ”پکڑو ، پکڑو “اور بھاگ کر اسے پکڑ لیا۔ اسی دن ان کو پریس کے روبرو لایا گیا اور یہ کہانی سنائی گئی۔ اس کہانی کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ پریس کانفرنس میں کسی نے یہ ضرورت نہیں سمجھی کہ کہانی کے دوسرا رخ سے بھی سن لے اور دہشت گردی جیسے بھیا نک جرم کے ملزمان سے بھی پوچھ لے کہ وہ کیا کہتے ہیں؟

حسب معمول دوسری صبح دونوں کو عدالت میں پیش کیا گیا اور پھر جیل بھیج دیا گیا۔ ان کے خلاف مقدمہ کی سماعت 4سال 5مہینہ21 دن میں پوری ہوئی۔ کرمانی اور اس کے اہل خاندان کو مقدمہ کی سست رفتاری کا شکوہ ہے۔ شاید ان کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ہمارا نظام قانون ایسا ہے کہ معمولی معمولی جرائم کے الزام میں گرفتار ملزمان کی بھی عمریں جیلوں میں گزر جاتی ہیں اور عدالتی کاروائی ملتوی ہوتی رہتی ہے ۔کرمانی اور بافندہ کا معاملہ یکے بعد دیگرے چھ ججوں کے سامنے پیش ہوا۔مگر بدقسمتی سے کسی کو بھی اتنی مہلت نہیں ملی کہ اس پر توجہ کرلیتا۔ آخرمعاملہ جسٹس ایس ایس راٹھی کی عدالت میں پہنچا اور انہوں30اپریل 2011 کو پولیس کی کہانی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جب دونوں کو باعزت بری کرنے کا حکم صادر کیا تو نہ وہاں کوئی ٹی وی کیمرہ موجود تھا، نہ کوئی رپورٹر تھا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ سارا میڈیا جس نے اپنی لن ترانیوں سے بے قصوروں کو رسوا کیا تھا اور ان کو ”دہشت گرد“ باور کرانے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا، ان کی بے گناہی کی خبر کو بھی ویسی ہی اہمیت دیتا۔لیکن ان کے نزدیک خبر تبھی لائق توجہ ہوتی جب پولیس ان کو سزا دلانے میں کامیاب ہوجاتی۔صحافتی اخلاق اورا نصاف کے تقاضوں کی پامالی جس کارپوریٹ میڈیا کی شناخت بن گئی ہے وہ کس منھ سے اظہار خیال کی مکمل آزادی کی دہائی دیتا ہے؟ کیا صحافتی آزادی کا مطلب یہ تو نہیں ایک ریاست کے باشندوں ، ایک فرقے کے افراد کے خلاف جھوٹ کی تو تشہیر کی جائے اور جب سچائی ظاہر ہو تو اس کو نظرانداز کردیا جائے۔ عدالت کے فیصلے سے پہلے کسی ملزم کو مجرم قرادیدینا، پولیس کے بیان پر کسی کو’ ہتھیارا‘،’ چور‘ یا ’دہشت گرد‘ کہنا یقیناایک بڑا ظلم ہے۔ اس کی روک تھام ہونی چاہئے۔کرمانی واپس وطن پہنچ جانے کی خبرتو دو ہفتہ بعد چند مقامی اخباروں میں مختصراً شائع ہوئی، لیکن کسی قومی اخبار میں ایسی رپورٹ نظر نہیں آئی جس سے پوری کہانی کا پتہ چلتا۔ البتہ رہائی کے 5ماہ بعد2 اکتوبر کے انڈین ایکسپریس نے سرینگر سے اپنے نمائندہ مزمل جلیل کی ایک تفصیلی رپورٹ صفحہ اول پربڑی سرخی کے ساتھ شائع کرکے تاخیر کا بڑی حد تک تلافی کی ہے۔قومی میڈیا کے اس رویہ کا سبب یہ معلوم دیتا ہے اس طرح کی خبریں ایک مخصوص ذہنیت کی سازش کے تحت بنائے ہوئے اس ماحول کو کمزور کرتی ہیں جودہشت گردی کے حوالے سے پورے ملک میں کشمیریوں کے خلاف بنا دیا گیا ہے۔ زعفران زدہ افسرشاہی، پولیس اور میڈیا ان خبروں کی اشاعت میں تو جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کشمیریوں کو داغدار کریں، مگر ان واقعات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے،جن سے ان کی مظلومیت ظاہر ہو۔ چاہے معاملہ ہزار ہا افراد کی مشتبہ ہلاکتوں کا ہویا اینٹ کے جواب میں سیدھے گولی چلائے جانے کا۔ بیشک یہ رویہ ہمارے مجموعی قومی مفاد کے خلاف ہے۔ اس سے ایک اہم سرحدی ریاست کے عوام میں برگشتگی پیدا ہوتی ہے اور فرقہ ورانہ کھائی بھی بڑھتی ہے۔

جسٹس راٹھی کا فیصلہ : پولیس نے جو استغاثہ عدالت میں پیش کیا اس میں اور اس کہانی میں جو پریس کانفرنس میں بیان کی گئی بڑا فرق ہے۔ استغاثہ میں اہم انکشاف یہ کیا گیا کہ کاروائی مرکزی سراغرساں ایجنسی(غالباً آئی بی) سے موصولہ ”قطعی سراغ“ پر کی گئی۔ایک جگہ کہا گیا ہے کہ21 نومبر کو شام ساڑھے تین بجے یہ خفیہ اطلاع ملی تھی کہ کرمانی شام ساڑھے چھ بجے شاپنگ کمپلکس آئے گا اور ساڑھے چار لاکھ روپیہ اور آرڈی ایکس دوسرے ملزم کو دیگا۔ان کواس اطلاع پر کاروائی کرکے پکڑا گیا اورڈیڑھ کلوگرام آرڈی ایکس، دو خود کار ٹائمر اور ساڑھے چارلاکھ روپیہ حوالے سے موصولہ برآمدکئے گئے۔ عدالت نے یہ بات نوٹ کی ہے اگر ایسی کوئی اہم اطلاع ملی تھی تو اسے حسب دستور ضبط تحریر میں کیوں نہیں لایا گیا۔ جرح کے دوران تین الگ الگ پولیس افسران نے دعوا کیا کہ اطلاع اس کو ملی تھی۔ان کے بیانات میں بھی تضاد ہے۔ ایک گواہ کانسٹبل کا بیان ہے کہ گرفتاری کے بعد موقع پر جو رقعہ تیار کرکے اس کو دیا گیا تھا وہ دو صفحہ پر مشتمل تھا جب کہ ایف آئی آر کے ساتھ سات صفحہ کا رقعہ منسلک ہے۔ جو خود کار ٹائمر ضبط کئے جانے کا دعوا کیا گیا ان کی تفصیل بھی کہیں درج نہیں کی گئی ۔ اہم بات یہ کہ سارے گواہ پولیس عملے کے ہی پیش کئے گئے۔ اس بات کو کوئی ثبوت نہیں کہ رقم حوالے سے موصول ہوئی تھی۔ لائق جج نے پولیس کی تفتیش کو لیپا پوتی اور انتہائی ناقص قرار دیا اور حکم دیا کہ ضبط شدہ رقم واپس کردی جائے کیونکہ ملزمان نے پختہ ثبوت پیش کیا ہے کہ رقم جائداد فروخت کرکے فراہم کی گئی تھی۔ عدالت کے حکم پر دونوں ملزمان کو رہا کردیا گیا ۔ ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ پولیس نے اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل کی ہو۔ جس سے جھوٹ کی پول صاف کھل جاتی ہے۔ اس فیصلے سے رہائی تومل گئی، مگر سوال یہ ہے کہ ان کے بیش قیمت ساڑھے چار سال کا خمیازہ بدل کیاہو گا؟کون کرمانی کو اب ملازمت دیگا؟ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت ان کی بازآبادکاری پر توجہ دے اور ایسا قانون لائے جس سے جھوٹے مقدمات میں بے قصور افراد کی زندگیوں کو تباہ کرنے کے رجحان پر روک لگ سکے۔اور ایسے غیر ذمہ دار پولیس افسران اس کےلئے کو جوابدہ ہوں۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164269 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.