ہم جا پہنچے گلگت میں (وقار کا سفرنامہ۔۔۔دسویں قسط)

یہ سفر ہم نے اگست ٢٠٢٤ میں فیصل آباد سے گلگت تک موٹرسائیکل پر کیا۔ اس کی مختصر روداد ہے۔ ویب سائٹ کی پالیسی کے مطابق یہاں صرف ایک تصویر اپلوڈ ہو سکتی ہے۔ اس لیے وقار کا سفرنامہ فیس بک پر تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ امید ہے یہ سفری روداد قارئین کو پسند آرہی ہوگی۔

تھری ماؤنٹین جنکشن گلگت

کچن گارڈننگ کے شاہکار کے دورہ سے فراغت پا کر ہم گیراج میں پہنچے، اپنا اپنا موٹرسائیکل نکالا اور روانہ ہوگئے منزل تھی گلگت کا خوبصورت علاقہ *نلتر ویلی* ، کوشش تھی کہ بائک میں پیٹرول PSO پمپ سے ہی ڈلواؤں لیکن یہاں گلگت میں کوئی خاطر خواہ نظر نہیں آیا۔ دیگر کمپنیوں کے موجود تھے۔ خیر اس ٹور کا پہلا پیٹرول اسلام آباد بھارہ کہو سے 2700 میں ٹینکی فل کروائی، جس میں پہلے کچھ موجود تھا۔ اس کے بعد بالاکوٹ سے 1000 کا، اس کے بعد ناران سے 1000 کا، گلگت سے 1200 کا ڈلوایا اور نلتر کی طرف سفر شروع کر دیا۔ میرے بائک کی پیٹرول گیج بہت فائدہ مند ہے بندہ بے فکر ہو کے سفر جاری رکھتا ہے۔ یہ پیٹرول بھی احتیاطاً ہی ڈلوایا تھا ورنہ ابھی ڈیڑھ سو کلومیٹر کر سکتا تھا، گلگت سے نلتر کا روڈ بہت شاندار بنا ہوا ہے، ارد گرد خشک اور لمبے تڑنگے پہاڑ عجیب منظر پیش کر رہے تھے جیسے ٹی وی پر افغانستان یا بلوچستان کے پہاڑ دکھائے جاتے، راستہ میں ایک دو مقامات ایسے بھی آئے کہ سڑک جیسے پہاڑوں کے اندر گم ہو رہی ہو، ڈیم اور ان کیلئے پانی کی بڑی پائپ لائن بھی ملی، روڈ شاندار تھا، زیادہ بل وغیر نا تھے، تھوڑا سفر کرنے کے بعد چیک پوسٹ آئی وہاں اپنی انٹری کرواکے آگے بڑھ گئے۔

یہاں سے آگے ایک عجیب کام ہوا کہ کوشش کے باوجود جیسے موٹرسائیکل کیلئے چلنا دشوار ہو رہا تھا۔ ہائیں یہ کیا؟ چڑھائی بھی نہیں اور موٹرسائیکل چلنے سے انکاری ہو رہی تھی۔ پہلے سوچا کہ یہ خشک پہاڑوں کی کشش نا ہو جیسی وادی جن میں ہوتی ہے، ابھی کشمکش میں تھا کہ میزبان عثمان بھائی نے ایک پل کراس کرتے ہی بریک لگا دی۔ ہم بھی رک گئے۔ کہتے چلو گاڑیوں کو ریسٹ دے کے ٹھنڈا کر لیں۔ تب معلوم ہوا کہ بظاہر چڑھائی لگ نہیں رہی تھی لیکن ہم مسلسل کئی کلومیٹر سے چڑھائی کا سفر ہی جاری رکھے ہوئے تھے۔ قریب آدھا گھنٹہ رکے رہے، اس دوران جیپوں، کاروں اور موٹر سائیکل سواروں کو گرم انجمن سے نبرد آزما پایا۔ کچھ کو اترنا پڑا، کچھ نے انجن ٹھندے کیے اور کچھ انجن کی سنے بغیر زور آزمائی سے آگے بڑھتے چلے گئے۔

نلتر پہنچے تو ایک بار پھر انٹری ہوئی، یہاں ائرفورس کا کالج بھی ہے اور رینجرز بھی۔ علاقہ نہایت خوبصورت تھا، موٹرسائیکل ایک مناسب مقام پر کھڑے کیے اور دستی سامان اٹھا کے اس وسیع میدان کی طرف بڑھ گئے جہاں سردیوں میں برف پر پھسلنے والی گیمز کھیلی جاتی ہیں، ایک طرف آئس ہاکی کی گراؤنڈ بھی موجود تھی۔ مطلب یہاں اچھی خاصی برف باری ہوتی ہے۔ چیئر لفٹ بھی موجود تھی لیکن ان کی مرمت کا کام جاری تھا۔ گھڑ سواری کیلئے گھوڑے 🐴 بھی موجود تھے، سیاحوں کی ٹولیوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، راما لیک کے بعد یہاں بھی کچھ غیر ملکی سیاح دیکھے۔

ہم نے یہاں پکنک منانے کیلئے چائے بنانے کا فیصلہ کیا، گیس سلنڈر ، کپ و دیگر سامان عثمان بھائی ہمراہ لائے تھے، بسکٹس اور رات والے میٹھے چاولوں نے لطف دوبالا کر دیا۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد یہاں سے واپسی کا ارادہ کیا۔ بلیو جھیل اور ست رنگی جھیل کا معلوم ہوا لیکن آف روڈ کی بدولت ارادہ آئندہ ٹور تک ملتوی کر دیا۔ واپسی کے سفر میں دریا کے کنارے کچھ دیر ریسٹ کیا ایک بار پھر دریا کے کنارے چائے نوشی کی، واپسی ایک دو اور علاقوں سے گزرے، ایک خوبصورت پل پر بھی تصویر کشی کی۔ نام فی الحال یاد نہیں اور ایک لمبا چکر کاٹ کے واپس گھر پہنچے کھانا بالکل تیار تھا جس میں پائے اور گوشت اک ساتھ پکائے گئے تھے عموماً پائے اور گوشت الگ الگ پکایا جاتا ہے یہ بھی عجوبہ دیکھنے کو ملا۔ ساتھ گھر کی بنی مکرونی نما سویاں جو چائینیز سٹک کے ساتھ کھاتے ہیں ہم نے کانٹے والے چمچ کے ساتھ کھائی کیونکہ ہم کو چھڑیوں کے ساتھ صرف علم حاصل کرنے کی عادت ہے سویاں کھانے کی نہیں ۔😀

بعد از کھانا ایک بار پھر بازار کی طرف نکل پڑے مقصد تھا کہ گھر والوں کیلئے اور بچوں کیلئے کوئی گفٹس لیے جائیں۔ جا پہنچے این ایل آئی کمپلیکس مارکیٹ، افسوس کہ آج ہفتہ کا دن تھا اور مارکیٹ شام آٹھ بجے کے قریب آدھی سے زیادہ بند ہو چکی تھی۔ حیرت ہوئی کہ کل اتوار کی چھٹی ہے مارکیٹ رات دیر تک کھلنی چاہیے لیکن شاید یہاں فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد ، کراچی والی عادتیں ابھی نہیں پہنچی رات کو دیر تک سونے اور صبح دیر سے اٹھنے والی۔

کافی تلاش و بسیار کے بعد خاطر خواہ کامیابی نا ملی، شہید ملت روڈ سے ایک بار پھر برف کا گولا کھایا، اور رات گیارہ بجے گھر واپس پہنچ گئے۔ سو بھی جلدی گئے کیونکہ صبح ہم نے واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔

11 اگست 2024ء اتوار کی صبح ہم نے گلگت میں اس دورہ کا آخری ناشتہ کیا، میزبانوں کا دل سے شکریہ ادا کیا، خوبصورت مہمان نوازی کی حسین یادیں لیکر صبح 7 بجے واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا، گلگت سے جگلوٹ اور جگلوٹ سے دریا کے پل تک بہترین روڈ تھا، صبح صبح کا وقت اور بادلوں کی آنیاں جانیاں رائڈ کا لطف دوبالا ہوگیا۔ دریا کا پل کراس کرکے اس پولیس چیک پوسٹ سے گزرے جہاں آتے وقت رات بارہ بجے کے آس پاس انٹری کروائی تھی یہ فیری میڈوز والے راستہ کے پاس تھی۔

اس سے آگے وہ شاندار روڈ شروع ہوا جس کی شکستگی کی بدولت جابجا کھڈے، روڑے، ریت موجود تھی اور جسم کی ہڈی پسلی کی توانائی چیک کرنے کا موقع مل رہا تھا، غالب گمان ہے کہ یوٹیوب کے عظیم گائک استاد چاہت خاں نے مشہور زمانہ گانا یا تو یہاں لکھا یا پھر اس کی دھن لازمی اس روڈ پر بنائی ہوگی۔۔۔۔۔۔ *آئے ہائے۔۔۔۔اوئے ہوئے* دائیں طرف سے بچو تو بائیں کھڈا بائیں سے بچو تو دائیں کھڈا، زگ زگ بناتے سفر جاری تھا جب ماجد شاہ جی نے میرا کندھا کھٹکھٹایا اور کہا بھائی جی پچھلا ٹائر بھی اسی موٹرسائیکل کا ہے 🫣😀

خیر کبھی سجے اور کبھی کھبے سفر جاری رہا۔ چلاس میں وقفہ کیے بغیر بابوسر کی طرف نکلے کیونکہ گاڑی ٹھنڈی کرنے کیلئے وہاں دو چار وقفے آنے والے تھے، چلاس سائڈ سے بابوسر کی چڑھائیاں واقعی خوبصورت اور *لگ پتا جائے گا* والی ہیں. رکتے رکاتے جا پہنچے بابوسر ٹاپ۔ وقفہ نہیں کیا بس کچھ دیر سستائے اور اترائی کا سفر شروع کر دیا۔ ہم نے سفر اس لیے بھی چھک و چھک جاری رکھا کیونکہ ہمارا عزم مصمم تھا کہ ہم جلکھنڈ سے نوری ٹاپ اور شاردہ پہنچ کے رات گزارنے والے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 29 Articles with 5902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.