ہم جا پہنچے گلگت میں (وقار کا سفر نامہ۔۔۔۔گیارہویں (آخری) قسط)

یہ میرے اس سفر نامہ کی آخری قسط ہے۔ کوئی اچھا لکھاری نہیں ہوں بس اپنی یادیں تحریر کے ذریعے محفوظ کر لیتا ہوں۔ امید ہے قارئین نے پسند کیا ہوگا۔ اگر آپ تمام اقساط پڑھ کر اس کو پڑھ رہے ہیں تو میں آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اپنی تجاویز و آراء سے ضرور نوازیے گا۔ ان شاء اللہ جلد ایک اور سفرنامہ کے ساتھ حاضر خدمت ہونگا۔

اسلام آباد لیک ویو پارک کے پاس فالودہ والی ریڑھی(اپنی ذمہ داری پر ٹیسٹ کریں)

#بابوسرٹاپ سے اترائی جاری رہی، ایک دو چھوٹے چھوٹے وقفوں کے بعد ہم لولوسرجھیل کے سامنے بنے ہوٹل پر جا پہنچے، بعد دوپہر کا وقت تھا اور بھوک نے اب باقاعدہ احتجاج شروع کر دیا تھا۔ کھانا آرڈر کرنے کیلئے مینیو بک منگوائی اور سب سے سستا کھانا تلاش کرنے لگے، آرڈر کی کیفیت یوں تھی
دال ماش لے آؤ۔۔۔۔۔
ویٹر۔ وہ تو موجود نہیں مونگی مسور کی ہے لے آؤں؟
نہیں وہ نہیں، مکس سبزی میں کیا پکاتے ہو؟
ویٹر۔۔۔۔ مٹر، گاجر، آلو، پالک وغیرہ
اچھا تو پھر مکس سبزی لے آؤ۔
ویٹر۔۔۔ سر وہ تو نہیں ہے بھنڈی پکی ہے وہ لے آؤں؟
نہیں ایسا کرو کہ کابلی پلاؤ لے آؤ
ویٹر۔ سر وہ تو نہیں ہے، ابلے چاول اور دال لے آؤں؟
یہ حال ہو گیا ہے مہانڈری پل ٹوٹنے کے بعد نا سیاح آ رہے نا ہوٹل والوں کا کام چل رہا نا ہم کو کچھ پسند آ رہا تھا۔ خیر کچھ آرڈر کیا، کھانا کھایا، چائے پی۔ ویٹر ساتھ منرل واٹر کی بوتل لے آیا۔ او بھائی سردی ہے اور ہم دو لوگ ہیں ہم کو عام سادہ پانی دے دو اس جگہ آکے بھی منرل ہی پینا تو ان چشموں کا کیا فائدہ؟ سرجی بس تھوڑا سا پانی بھر کے لائے تھے وہ ہم ورکرز کیلئے ہے ویٹر نے جواب دیا۔

القصہ مختصر یہاں سے آگے سفر شروع کیا، جلکھنڈ پہنچے، نوری ٹاپ والے راستے پر مڑے، تصدیق کیلئے ایک بندے سے پوچھا اس نے ہم کو سر سے پاؤں تک دیکھا، پھر ہمارے موٹرسائیکل کو دیکھا اور کہا نوری ٹاپ تک جیپ لے لو وہاں سے آگے اس پر چلے جانا۔ یہاں سے نوری ٹاپ دو افراد کا اس موٹرسائیکل پر ممکن نہیں۔ ہم نے اس کی بات کو جھٹلا دیا کہ جیپ والا ہوگا اپنی کمیشن کے چکر میں ہے۔ آگے بڑھے، نالہ یا دریا جو بھی تھا اس کے لکڑی والے پل کو عبور کیا تو آگے پاک فوج کے جوان کیمپ لگانے میں مصروف تھے، ان سے بات چیت ہوئی تو کہتے بھائی صاحب ایک تو روڈ ٹوٹا ہے دوسرا برساتی نالے water crossing تین تین فٹ گہرے، تیسرا شام کے تین بج چکے اور پورا راستہ سنسان موسم بھی بارش والا ہے کیوں اپنی جان کو عذاب میں ڈالنا ہے؟ جب ہمارا عزم دیکھا تو ایک جھٹ سے بولا اچھا اچھا جاؤ اللہ خیر کرے گا۔ اگر راستہ مشکل لگے تو واپسی کا دروازہ بند نہیں۔ ہم آگے بڑھ گئے۔ جل کھنڈ سے شاردا پچاس کلومیٹر کا ٹریک ہے، جل کھنڈ سے نوری ٹاپ 17 کلومیٹر اور باقی آگے جانب شاردا اترائی ہے اس لیے اس طرف سے جانے کا ارادہ بنایا تھا۔ پہلی چڑھائی آئی اور آدھے راستے میں روڈ کچہ اور پتھریلا ہونے اور بارش کے بعد کھڑے ہونے والے پانی کی بدولت کیچڑزدہ ہونے کی وجہ سے موٹرسائیکل نے چلنے سے معذرت کر لی۔ ایسی صورتحال میں پیچھے بیٹھنے والا بندہ بہت ایکٹو ہوتا ہے۔ جہاں موٹرسائیکل بند ہونے لگے جھٹ سے اتر کر ہاتھوں کا سہارا دے کے دھکا لگا دیتا ہے اور مشکل سے پار لگا دیتا ہے۔ ہماری حالت یہ تھی کہ بائک کے پیچھے میرا دوسرا بیگ باندھا تھا، اور ماجد شاہ جی کا بیگ ان کی پشت پر تھا۔ اس صورتحال میں فٹافٹ اترنا اور موٹرسائیکل کو دھکا لگانا ناممکن نہیں تو مشکل ترین سے کم نا تھا۔ اس لیے ہم نے وہیں سے نوری ٹاپ کو غائبانہ سلام پیش کیا اور واپسی کی راہ لی۔ جل کھنڈ سے جانب ناران سفر پھر سے جاری ہو چکا تھا۔ ناران سے ایرانی چاکلیٹ اور ٹافی کے پیکٹ خریدے اور کاغان کی طرف بڑھنے لگے، ناران سے کاغان روڈ بھی روایتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، مہانڈری پل ابھی بنا نہیں تھا اس لیے ٹریفک کوسات آٹھ کلومیٹر پہلے ہی روکا جا رہا تھا جبکہ موٹرسائیکل کو گزرنے دیا جا رہا تھا سو ہم بھی گزر گئے۔

مہانڈری پل پر موٹرسائیکل کی آمد و رفت کی وجہ سے اب راستہ قدرے آسان ہو چکا تھا، جبکہ زیر تعمیر پل پر لوہے کی سلیٹیں لگا کر اس کو فائنل کرنے کا کام تکمیل کے آخری مراحل میں تھا۔ عارضی پل کے اوپر عین درمیان میں ایک صاحب موبائل سے یوٹیوب چینل کیلئے لائیو ویڈیو ریکادنگ میں مصروف تھے اور پل پر سے گزرنے کا راستہ انتہائی کم اور نیچے بپھری کوئی لہریں تھیں۔ ایک دو بار ہارن کیا بجایا کیمرہ مین صاحب تو ایسے ناراض ہوئے جیسے جیو ٹی وی کی لائیو نشریات میں خلل پڑ گیا ہو۔ بندہ راستہ کھلا چھوڑے وہ بھی اس ہنگامی حالت میں۔


یہاں سے آگے ایک جگہ بریک لگا کے چائے پی، ایک جگہ مکئی 🌽 کی چھلی کھائی اور سفر جاری رکھا، مغرب کا وقت ہم کو بالاکوٹ میں ہوگیا تھا، سفر جاری رکھا، مظفر آباد پہنچے موٹرسائیکل کے چین کو کسوایا جس نے اب باقاعدہ میوزک بجانا شروع کیا ہوا تھا، حضرت سائیں سہیلی سرکار علیہ الرحمۃ کے مزار پر فاتحہ خوانی کی اور سری نگر روڈ پر روانہ ہوگئے، گڑھی دوپٹہ سے 1200 کا موٹرسائیکل میں پیٹرول ڈلوایا اور رات دس بجے ہٹیاں بالا سید ماجد گیلانی صاحب کے دولت خانہ پر جا پہنچے۔ جب سفر کا تخمینہ لگایا تو چار سو کلومیٹر سے زیادہ سفر طے کر چکے تھے وہ بھی پہاڑی علاقہ کا۔ 💪🏻

رات وہیں گزاری صبح ناشتہ کے بعد دوسری شفٹ میں پھر سوئے دوپہر کے وقت جاگے، نہا کے فریش ہوئے، کھانا کھایا اور ہٹیاں بازار چلے گئے، موٹرسائیکل کو سروس اسٹیشن سے نہلوایا، دو دوست ملے جو آزادکشمیر کے مستقبل کے نوجوان سیاسی قائدین ہیں صاحبزادہ کامران ظفر اور تیمور بیگ سے ملاقات ہوئی۔ گپ شپ ہوئی، ماجد بھائی نے کچھ سامان خریدا اور گھر واپس آگئے، رات کے کھانے میں بڑے شاہ جی سید ممتاز گیلانی، ماجد شاہ جی کے چاچو سید اشفاق گیلانی اور سید اقبال گیلانی سے بھی ملاقات ہوگئی، رات سکون سے گزری اگلا دن 13 اگست کا تھا علی الصبح سید باسط گیلانی کے ہمراہ ندول سے مظفرآباد کو روانہ ہوئے، مظفرآباد شاہ جی کو ڈراپ کیا۔ سائیں کی درگاہ پر الوداعی سلام و فاتحہ پیش کی دوبارہ آنے کی دعا کے ساتھ رخصت ہوا، مری ایکسپریس وے کے راستے سفر جاری رکھا، اسلام آباد بھارہ کہو بائی پاس کے راستے بغیر وقفہ سے لیک ویو پارک والے روڈ پر کچھ ریسٹ کیا، فالودہ کا ایک عدد پیالہ نوش جان کیا، 26 نمبر اڈہ سے پہلے بائک روکی، حفاظتی گارڈز اتار کے بیگ میں رکھے، بوٹ کی جگہ سینڈل پہنی، موٹرسائیکل کے سائڈ ویو مرر اتارے تو اس باکس کی طرف خیال گیا جو ماجد شاہ جی نے چلتے وقت دیا تھا جس میں چھوٹی انجیر کا فریز پھل موجود تھا، جب شاپر کو دیکھا تو وہ لیک تھا اور سرخ رنگ کا سیرپ بیگ تک کو فیض پہنچا رہا تھا۔ ڈبہ کھولا تو کچھ بالکل melt ہوگئی تھیں کچھ انجیریں سلامت تھیں۔ وہیں فٹ پاتھ پر کچھ تناول کیں باقی اللہ کی مخلوق کیلئے ڈبہ وہیں چھوڑا اور 26نمبر سٹاپ پر پہنچا، بس والے سے 3000 میں بات طے ہوئی موٹرسائیکل کو نیچے کارگو کیبن میں لٹایا خود سیٹ پر بیٹھا تو سخت گرمی سے کچھ عافیت ملی، بس روانہ ہوئی، سیال موڑ رکی لیکن میں نہ اترا کیونکہ کچھ بھی کھانے کا موڈ نا تھا اور میں دور بلند پہاڑوں، آبشاروں، وسیع زرخیز میدانوں، یخ بستہ ہواؤں، دوستوں کی مسکراہٹوں، سفرنامہ کی جزئیات کو جمع کرنے میں مصروف تھا کہ گاڑی فیصل آباد آ پہنچی۔ موٹرسائیکل لی، شیشے لگائے، سامان باندھا اور گھر کی سمت روانہ ہوگیا۔ حسب سابق ماں جی کی پیار بھری مسکراہٹ کا منتظر تھا لیکن ماں جی چھوٹی ہمشیرہ کے گھر تھیں۔ والد صاحب سے پیار لیا، بیگم صاحبہ اور بیٹا استقبال کو موجود تھے۔ سفر بخیریت اختتام پذیر ہوا۔
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 29 Articles with 5905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.