پنجاب میں ڈینگی کی وبا پھیلی
ہوئی ہے جس سے زندہ دلان لاہور سہمے ہوئے ہیں ایک مچھر نے سب کو تگنی کا
ناچ نچا رکھا ہے اب تو آنکھیں بند ہوتی ہیں تو خواب میں ڈینگی مچھرڈرا دیتے
ہیں اور جب انسان باہر نکلتا ہے تو چوراہوں پر بھی ڈینگی مچھر کی تصویر نظر
آتی ہے ایک مچھر ہمارے حواس پر ایسا چھایا ہے کہ ہم نے موت کا دوسرا نام
بھی ڈینگی بخار رکھ دیا ہے اخبارات،رسائل و جرائد اور ٹیلیویژن کی سکرین پر
بھی مچھر کے قاتلانہ حملوں کے بارے بتایا جا رہا ہوتا ہے اب تو کیبنٹ
میٹنگز میں بھی مچھر کے خاتمے کے لئے بحث ہوتی ہے اور تو اور اسمبلی کے
ایوانوں میں بھی مچھر کے متعلق بازگشت سنائی دیتی ہے ڈینگی سے جاںبحق ہونے
والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ہسپتالوں میں
ڈینگی مریضوں کا رش سا لگا ہوا ہے مچھر کو ختم کرنے کے لئے پنجاب گورنمنٹ
کافی تگ و دو کر رہی ہے مچھر کے بلاتفریق تابڑ توڑ حملے جاری ہیں ان حملوں
کی زد میں امیر بھی آرہے ہیں اور غریب بھی پس رہے ہیں مچھر کے کاٹنے سے
سیاستدان بھی جاں بحق ہورہے ہیں اور سول سوسائٹی والے بھی جاں سے ہاتھ دھو
رہے ہیں ایک مچھر جو کہ ایک حقیر سا کیڑا ہے آج اسی مچھر نے ہماری ناک میں
دم کر رکھا ہے ناک میں دم کرنے سے یاد آیا کہ ایک مچھر نمرود کی ناک میں
بھی گھسا تھا شاید اسی مناسبت سے ناک میں دم کرنے والا محاورہ بنا تھا ،تحقیق
سے پتا چلا ہے کہ ڈینگی بخار میں مبتلا کرنے والا مچھر مادہ ہے ہم تو پہلے
بھی موئنث (عورت)سے ڈرتے تھے ڈینگی مچھر سے کسی نے پوچھا آخر آپ لاہور میں
ہی کیوں آئے ہو تو اس نے جواب دیا کہ آپ خود جو کہتے ہو ”جنے لور نئیں
ویکھیا او جمیا ای نئیں“(جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں
ہوا)،ڈینگی کی وبا صدیوں سے ہے اور اس کا علاج بھی اب تو پاکستان کے مایہ
ناز گلوکار ڈاکٹر عطاءاللہ خاں عیسی خیلوی نے دریافت کر لیا ہے جیسا کہ وہ
کہتے ہیں ۔
پیار نال نہ سہی غصے نال ویکھ لیا کر
بیماراں نوں شفا مل جاندی اے
گزشتہ دنوں ہمیں ڈینگی مچھروں کے بارے سوچتے سوچتے اونگھ آگئی تو خواب میں
کچھ سیاستدانوں کو دیکھا جوڈینگی مچھر کے بارے میں اپنی رائے دے رہے تھے
ایک ہمارے وزیرموصوف کچھ ایسی کھسر پھسر کر رہے تھے اب آپ سوچنے لگ گئے ہوں
گے ڈائریکٹ بیان کیوں نہیں دیا کھسر پھسر کیوں کر ر ہے تھے وہ اس لئے کہ
وزیر صاحب وفاق کے وزیر ہیں پنجاب کے نہیں ان کا کہنا ہے کہ مچھروں کا حملہ
درحقیقت پنجابی طالبان کا کارنامہ ہے اور اس کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان
نے قبول کر لی ہے ایک مولانا قسم کے سیاستدان نے ڈینگی مچھر کے بارے تبصرہ
کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مچھروں کا تقاضا کیا ہے اس کے
بعد ہی ہم کچھ کہہ سکتے ہیں ڈینگی مچھروں پر تبصرے میں ایک انقلابی
سیاستدان کا کہنا ہے کہ جو مچھروں کو قابو نہیں کر سکتے اور ان کا خاتمہ
نہیں کر سکتے انہیں حکومت چھوڑ دینی چاہئے، ایک سیاستدان ٹیلیفون کے ذریعے
اپنا تبصرہ ریکارڈ کرواتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پنجاب والوں میرا ہاتھ تھام
لو کوئی مچھر نہیں چھوڑوں گا،ایک سیاستدان منہ میں سگار لئے کچھ یو ں گویا
ہوئے کہ میرے سگار کے دھوئیں سے مچھر مر رہے ہیں اور میں سگار کے ذریعے
مچھروں کو مار کر زندہ دلان لاہور کی خدمت کرتا رہوں گا، ایک اور چوہدری
قسم کے سیاستدان نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا لیکن مجھے ان کے الفاظ کی
کچھ سمجھ نہیں آئی اس لئے معذرت خواہ ہوں، ایک پیر صاحب نے بھی مچھروں کے
متعلق اپنا بیان دینا ضروری سمجھا ان کا کہنا تھا کہ میں G.H.Qکی مدد سے ان
مچھروں کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوں اس اثنا میں سند ھ
کے سابقہ وزیر کی آواز بھی سنائی دی کہ ڈینگی مچھر کا ذمہ دار وہی ہے جو
ملک کا سب سے بڑا دشمن ہے ،ایک مفتی صاحب بھی مچھروں کے متعلق اپنی رائے
دینے وہاں آ پہنچے ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی مچھر ہمیں صفائی کا درس دینے
آیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھیں کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے ،ابھی
بیانات اور تبصروں کا سلسلہ جاری تھا کہ شور سنائی دیا شیر آیا ،شیر آیا
اور سب سیاستدان ادھر اُدھر بکھر گئے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔
لیکن یہاں پر ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پنجاب حکومت ڈینگی
کے خاتمے کے لئے ہر ممکنہ اقدامات کر رہی ہے کیونکہ راقم کو بھی کئی بار
ڈینگی کے متعلق آگاہی سیمیناروں میں شرکت کرنے کا موقع ملا ہے اور پنجاب
اسمبلی میں ہونے والی میٹنگز اور ڈینگی کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں
بھی حصہ لیا ہے ڈینگی کے متعلق بات ہو رہی ہے تو یہاں پر میں پاکستان تحریک
انصاف کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے بھی پورے شہر میں شیخ
امتیاز محمودکی سربراہی میںصفائی مہم چلائی اور ڈینگی مار سپرے کیا ہے
،ڈینگی مچھر ایک آفت بن کر ہمارے اوپر نازل ہوا ہے یہ سب ہمارے شامت اعمال
کا نتیجہ ہے اور ہمیں اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے اللہ
ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔۔آمین |