ٱلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ ٱللَّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ
ہر روز کی طرح آج صبح بھی میں دفتر جانے کے لیے کراچی کی سڑکیں ناپنے لگا۔
میرا دماغ کراچی کی ناہموار سڑکوں پر کم اور زندگی کی خمدار راہوں میں
درپیش مسائل پر زیادہ چل رہا تھا۔ ہزاروں سوالات، معاشی و معاشرتی مسائل،
بڑھتی مہنگائی، بڑھتی فیملی، بچوں کی اچھی نشوونما، اچھی تعلیم و تربیت،
ساتھیوں سے آگے نکل جانے کی جدو جہد، ملازمت کے مسائل، ہر روز بدلتی آدم
مخلاف سرکاری پالیساں، اپنے ذاتی گھرکا خواب اور گاڑی کی خواہش یا ضرورت،
دفتر کے مسائل وغیرہ وغیرہ۔ اسی اثناء میں سڑک کا اشارہ بند ہوا تو کچھ
لمحے کے لیے دماغ سیاہ مستقبل سے نیم تاریک حال میں واپس آیا۔ اشارہ بند
تھا اور میں حسبِ دستور سڑک پر دوڑتی گاڑیوں اور ان میں بیٹھے لوگوں کے
بارے میں سوچنے لگا۔ صبح کا وقت تھا سڑک پر زیادہ رش نہ ہونے کی وجہ سے لوگ
میرے اس پاس سے اشارہ سرخ بتی توڑتے ہوئے سڑک کراس کرنے لگے۔ چونکہ میں
اکیلا اشارہ کھلنے کا انتظار کررہا تھا تو خیال آیا کے یہ سب بھی تو اشارہ
بند ہونے کی فکر کیے بغیر سڑک کراس کررہے ہیں ، مجھے بھی کر لینی چاہیے۔
کیا یہ سب غلط ہیں؟ کیا میں اکیلا حق پر ہوں؟ کیا مجھے سب کی پیروی کرنی
چاہیے اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کیے بغیر گزر جانا چاہیے؟ یا اشارہ
کھلنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ دماغ ابھی انہی الجھنوں کو سلجھانے میں مشغول
ہی تھا کہ سڑک پر نصب اشارے کےکھلنے کے ساتھ ساتھ میرے دماغ کا بند اشارہ
بھی کھل گیا ،کیونکہ کند دماغ کھولنے والی ذات اللہ کی تھی۔ اللہ کے فضل سے
میرا معمول ہے کہ حسبِ توفیق قرآن پاک کی تلاوت کر لیا کرتا ہوں اور ایسا
کبھی نہی ہوا کہ مجھے کسی سوال کا جواب قرآن پاک میں نہ ملا ہو۔ میرے
سمجھنے میں دیر سویر ضرور ہو سکتی ہے۔ کیونکہ قرآن کا یہ معجزہ ہے کہ وہ
انسان کی اوقات دیکھ کر ہی سمجھ آتا ہے۔ کیونکہ میری اوقات کم ہے اسی لیے
اکثر سمجھنے میں دیر لگ جایا کرتی ہے۔ بہرحال، میرے دماغ میں سورۃ المائدہ
کی آیت آئی تو یوں محسوس ہوا جیسے اللہ تعالی نے جواباً یہ آیت میرے دل میں
ڈال دی ہو "اے پیغمبر ! ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں
ہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ (دل کو بھانےوالی کیوں نہ ہو)
کرنے والی ہو ، پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو ! اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو
، امّید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔" دل و دماغ اس جواب کے سامنے اپنا سر
تسلیم خم کر چکے تھے اور ایسی مثال شاد و نادر ہی ملتی ہے اگر دل و دماغ
کسی ایک بات پر یکجا ہو جائیں پھر وہ بات ایمان بن جایا کرتی ہے۔
اس آیت سے واضح ہے کہ اس دنیا میں جتنے بھی انسان ہی تمام کے تمام اگر ایک
بات پر راضی ہو جائیں اور وہ بات اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے تو وہ ناپاک
اور بے معنی ہے۔ اسی لیے میرا دم مطمئن ہو گیا کہ ہاں سب لوگ جو شتر بے
مہارقوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں سب غلط ہیں؛ چاہیے وہ ٹریفک قانون ہو،
ریاستی آئین ہو شریعت محمدی ﷺ ہو۔ مجھے راہِ حق پر چلتے رہنا چاہیے اور
ثابت قدمی کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
کیونکہ:
مجھے ہی حکمِ اذاں لا الہ الااللہ
بہرحال، دور حاضر میں ہر انسان کو ملکی معیشت کے سنگین حالات ، بیروزگاری
اور بڑھتی مہنگائی جیسے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا مستقبل تاریک نظر
آرہا ہے اور ہر طرف (tough compition) آگے نکلنے کی دُھن، ریت، رسم، رواج،
اعلیٰ معیارنوجوانوں کی جوانیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ جائیں تو
جائیں کہاں؟ کریں تو کریں کیا؟
ایک بار پھر صدائے ربِ جلیل نے میر سماعتوں میں سرگوشی کی اور دلیلِ روشن
بن کر میرے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے دل و دماغ کو روشن کیا۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے:
"جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا (تقوی اختیار کر گا) اللہ اس کے
لیئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔اور اسے ایسے راستے سے
رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے
لیئے وہ کافی ہے ۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے
لیئے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے ۔
اس جامع آیت کی تفسیر میں ابن کثیر نقل کرتے ہیں ؛ مسند احمد میں فرمان
رسول ہے کہ جو شخص بکثرت استغفار کرتا رہے اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات
اور ہر تنگی سے فراخی دے گا اور ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں کا اسے
خیال و گمان تک نہ ہو- حضرت ابن عباس ؓفرماتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ دنیا اور
آخرت کے ہر کرب و بے چینی سے نجات دے گا۔:: ربیع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
لوگوں پر جو کام بھاری ہو اس پر آسان ہو جائے گا- حضرت قتادہ ؒفرماتے ہیں
تمام امور کے شبہ سے اور موت کی تکلیف سے بچا لے گا اور روزی ایسی جگہ سے
دے گا جہاں کا گمان بھی نہ ہو۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے جو شخص ہر طرف
سے کھنچ کر اللہ کا ہو جائے اللہ اس کی ہر مشکل میں اسے کفایت کرتا ہے اور
بے گمان روزیاں دیتا ہے اور جو خدا سے ہٹ کر دنیا ہی کا ہو جائے اللہ بھی
اسے اسی کی طرف سونپ دیتا ہے- مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس
رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضورؐ کے ساتھ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے
ہوئے تھے جو آپ نے فرمایا بچے میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں‘ سنو تم اللہ
کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا‘ اللہ کے احکام کی حفاظت کرو تو اللہ کو
اپنے پاس بلکہ اپنے سامنے پائو گے‘ جب کچھ مانگنا ہو اللہ ہی سے مانگو‘ جب
مدد طلب کرنی ہو اسی سے مدد چاہو کہ تمام امت مل کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے
اور خدا کو منظور نہ ہو تو ذرا سا بھی نفع نہیں پہنچا سکتی اور اسی طرح
سارے کے سارے جمع ہو کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو بھی نہیں پہنچا
سکتے اگر تقدیر میں نہ لکھا ہو تو‘ قلمیں اٹھ چکیں اور صحیفے خشک ہو گئے-
دورِ حاضر میں جہاں انسان کو مزکورہ بالا مشکلات کو سامنا ہے وہاں بے تحاشا
کمائی کے مواقع بھی موجود ہیں۔ مثلاً آن لائن کاروبار، یوٹیوب، سوشل میڈیا،
وی لاگز، کریپٹو کرنسی اور اس کے علاوہ ہزارہا جن کا احاطہ کرنا بھی دشوار
ہے۔ لیکن یہاں جو بات سمجھانا مقصود ہے وہ ہے کسب حلال کا حصول اور کسب
حرام سے اجتناب ۔ مندرجہ بالا آیت اللہ رب العزت ارشاد فرماتے یہ کہ اگر
تقوی اختیار کرو گے تو رزق میں کشادگی ہوگی؛ تقوی یعنی اللہ کا ڈر۔ تقوی کا
لغوی معنی ہے احتیاط یا پرہیز گاری۔ ہم تقوی کا یوں بیان کر سکتے ہیں کے
اگر کسی معاملے میں شک و ابہام پایا جائے تو اپنے نفس کو اللہ کی محبت اور
خوف کی وجہ سے روک لینا تقوی کہلاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث ہے جس سے تقوی
کا مزید سمجھا جا سکتا ہے۔ رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے "جو شک میں ڈالے اسے
چھوڑ دو اور وہ کرو جس میں شک نہ ہو۔" (سنن نسائی 5714)
اس حدیث اور سے اور قرآن کریم کی آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ جو
شخص ہر کام میں احتیاط اور پروردگار کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ رب العزت
اسکے تمام امور زندگی میں دریاِ نیل کی طرح راہیں ہموار کر دے گا اور وہاں
سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا؛ جیسا کہ سورۃ ہود میں اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے؛ اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے
جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو ۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی
جانتا ہے ، اور عارضی ٹھکانے کو بھی ۔ ہر بات ایک واضح کتاب میں درج ہے ۔"
ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں کتنے ہی ایسے کام ہوتے ہیں
جہاں ہمیں احتیاط کرنے کے ضرورت ہے مثلاً اگر کوئی ادارہ کسی خاص کام کے
عوض متعین معاوضہ( تنخواہ) دے رہا ہے اور متعین تنخواہ کے علاوہ اگر کوئی
رقم چاہیے کسی بھی صورت میں دی جائے تو ہمیں تحقیق کرلینی چاہیے کہ آیا یہ
رقم جو مجھے دی جا رہی ہے میں اس کا اصل حقدار ہوں یا نہی۔ مثلاً اگر کسی
ادارے میں Overtime دیا جاتا ہے تو اس کے بدلے ملازم کو متعین وقت کا پابند
کیا جاتا ہے جس کے تحت ملازم نے طے شدہ وقت تک دفتر میں رک کر اپنے فرائض
انجام دینے ہوتے ہیں اور اگر کوئی ملازم اس مقررہ وقت سے پہلے اپنے ذمے کام
ادھورے چھوڑ کر گھر چلا جاتا تو اسے اپنی کمائی پر غور کرنی چاہیے۔ اسی طرح
اگر کوئی ادارہ مخصوص کام کیے لیے کوئی خاص الاؤنس دے رہا ہے تو اُس الاؤنس
کی تمام ہدایات بغور مطالعہ کرنے کا بعد مطالبہ کرنا یا ضروری ہے یاد رکھیں
دنیا میں کہا جاتا ہے کہ؛
"Ignorance of law is no excuse"
"قانون سے لاعلمی کاعذر قبول نہی کیا جائے گا"
اسی طرح آپ پروردگار کے سامنے میں بھی یہ نہی کہہ سکتے کہ مجھےبس پیسہ
کھانے سے غرض تھا کہاں سے آتا تھا کیسے آتا تھا ان معاملات سے میں نادان
تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں
پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے؛ اس کے مال کے
بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے
میں کہ اسے کہاں کھپایا“(ترمذی)۔ اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی کو اس کی پروا نہیں ہو گی،
کہ روزی حلال طریقے سے کمائی ہے یا حرام سے۔(بخاری شریف , 2059)
اسی طرح دورِ حاضر میں سود اور ذخیرہ اندوزی کا کاروبار عروج پر ہے۔ حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ: ”غلہ کو روکنے والا ملعون ہے۔“ (ابن ماجہ:۲۱۵۳، سنن
دارمی:۲۵۸۶)۔
افسوس، ہمارے یہاں تو واضح حرام کھانے والے کو کامیاب اور محترم گردانا
جاتا ہے لیکن پروردگار کائنات کے نزدیک کسب متشبہ کھانا بھی ناجائز و حرام
ہے۔ کسب متشبہ سے مراد وہ کمائی جس کے حلال و حرام ہونے میں شبہ ہو مختلف
آراء پائی جاتی ہوں تو ایسے مال کا کمانا بھی حرام ہے؛چنانچہ حضرت نعمان بن
بشیر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ کی
چیزیں ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔سو جو شخص شبہات سے بچا اُس نے
اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا اور جو شخص شبہات میں پڑگیاوہ حرام میں
پڑجائے گا۔(بخاری و مسلم)حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات یاد رکھی ہوئی ہے کہ جو چیز شک
میں ڈالے اُس کو چھوڑ دیا جائے اور اُس چیز کی طرف بڑھا جائے جو شک میں نہ
ڈالے؛اِس لیے کہ صحیح چیز میں اطمینان ہوتا ہے اور غلط چیز میں شک ہوتا ہے۔
(مشکوٰة شریف)
حرفِ آخر:
اس کائنات اور دنیا کا خالق حقیقی ارشاد فرماتا ہے؛دنیا کی زندگی تو اس کے
سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔
یہ مال دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ، بتان وہم گماں اور حیات فانی ہے۔ ہر روز
شام و سحر ہم ہزاروں لوگوں کی موت کی خبر یں سنتے ہیں، جنازے پڑھتے ہیں
لیکن یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہماری موت کا اعلان کبھی نہی ہوگاہم سب سے لاڈلے
ہیں جب ہمیں موت آئے گی تو ہم تمام تر گناہوں سے پاک ہونگے چونکہ ہمیں موت
سے پہلے آگاہ کیا جائے گا لہذا ہم اپنے تمام معاملات درست کرلیں گے۔
یہی تجھ کو د ھن ہے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالال
قرآن خوابوں کی حقیقت یوں بیان کرتا ہے ؛
"وہ دن یاد رکھو جس دن کسی بھی شخص نے نیکی کا جو کام کیا ہوگا اسے اپنے
سامنے موجود پائے گا ، اور برائی کا جو کام کیا ہوگا اس کو بھی ( اپنے
سامنے دیکھ کر ) یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کی بدی کے درمیان بہت
دور کا فاصلہ ہوتا ! اور اللہ تمہیں اپنے ( عذاب ) سے بچاتا ہے ، اور اللہ
بندوں پر بہت شفقت رکھتا ہے ۔(آل عمران)
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں کسب حلال کے حصول اور کسب حرام و متشبہ سے
بچنے کے لیے تقوی اختیار کرنے کے توفیق عطا فرمائے اور قیامت میں اپنی رحمت
سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین۔
|