ارشادِ ربانی ہے:’’آخر کار ہر ایک کو ہم نے
اس کے گناہ میں پکڑا‘‘ قرآن حکیم میں مختلف ظالم حکمرانوں اورجابر قوموں
کا انجام بد بیان کرنے کے بعد خلاصہ کے طور پر فرمایا گیا کہ بالآخر ان کی
پکڑ ہوجاتی ہے ۔ ان پر وارد ہونے والے عذاب کی چند مثالیں بھی پیش کی گئیں
مثلاً:’’ پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی، اور کسی
کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا، اور
کسی کو غرق کر دیا‘‘۔ یعنی نہ صرف ان کو دی جانے والی ڈھیل کی مدت مختلف
ہوتی ہے بلکہ دنیوی سزا کی ہئیت بھی مختلف ہوتی ہے مثلاً کسی دہلی میں پناہ
لینا پڑتا ہے اورکوئی ماسکو فرار ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں کچھ نادان لوگوں
ظالموں کی حالتِ زار پر رحم آنے لگتا ہے ۔ان لوگوں کے لیے خاص طور فرمایا
گیا : ’’ اللہ اُن پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم
کر رہے تھے‘‘۔ یعنی یہ عبرتناک انجام خود ان کے اپنے کرتوت کا نتیجہ ہے۔
اقتدار کے نشے میں چور طاقت کے زور سے اپنے مخالفین کا سر کچلنے والے بظاہر
قوی حکمرانوں کو اللہ کی کتاب نہایت موثر مثال کے ذریعہ خبردار کرتی ہے :
’’جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دُوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی
جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا
گھر ہی ہوتا ہے کاش یہ لوگ علم رکھتے‘‘۔ وہ لوگ جو شام کے سابق سربراہ بشار
الاسد کے اقتدار سے دیکھتے دیکھتے بے دخل ہوجانے پرحیرت زدہ ہیں ان کے لیے
اس مثال میں بڑی نصیحت ہے کہ جب برا وقت آیا تو روس نے بھی ہاتھ کھینچ لیا
اور ایران بھی ٹھنڈا پڑگیا ۔ کوئی کام نہ آیا اور بالآخر دھڑن تختہ
ہوگیا۔فرمانِ خداوندی ہے :’’ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو بھی پکارتے
ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے اور وہی زبردست اور حکیم ہے‘‘۔ اس سلسلۂ آیات
کا اختتام اس طرح ہوتا ہے کہ :’’ یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے
ہیں، مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں ‘‘۔ الہامی
تعلیمات سے بے بہرہ ان سہل ترین مثالوں سے بھی فیضیاب نہیں ہوپاتے۔
ایسے میں ایک خیال یہ آتا ہے کہ جب سب کچھ مشیت ایزدی ہوجائے گا تو کیا
اہل ایمان کی بھی کوئی ذمہ داری ہے ؟ یا وہ محض مشاہد ہیں ؟؟ ان سوالات کے
جوا ب میں ارشادِ خداوندی ہے:’’پس ان (مؤمنوں) کو اللہ کی راہ میں (دین کی
سربلندی کے لئے) لڑنا چاہئے جو آخرت کے عوض دنیوی زندگی کو بیچ دیتے
ہیں‘‘۔یعنی اخروی کامیابی چاہ میں دنیوی زندگی کو حقیر سمجھنے والوں کا
امتحان یہ ہے کہ وہ کلمۂ حق کی خاطر اپنی دنیا کو داوں پر لگاتے ہیں یا
نہیں؟ اپنی جان عزیز کا نذرانہ پیش کرنے کی جرأت ان میں ہے یا نہیں؟ ایسا
حوصلہ دکھانے والوں کو خوشخبری دی گئی کہ :’’ اور جو کوئی اللہ کی راہ میں
جنگ کرے، خواہ وہ (خود) قتل ہو جائے یا غالب آجائے توہم (دونوں صورتوں میں)
عنقریب اسے عظیم اجر عطا فرمائیں گے‘‘۔ یعنی چونکہ ایسے مجاہدین اسلام
کااصلی ہدف محض دنیوی سرخروئی نہیں ہے اس لیے ہر دو صورت میں ان کے لیے
کامیابی ہی کامیابی ہے۔وہ اگر میدانِ جنگ سےفاتح کی حیثیت میں لوٹیں تو
غازی ورنہ شہید کا بلند تر مرتبہ ان کا منتظر ہے۔
عدل و قسط کی علمبردار امت مسلمہ کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ ساری دنیا میں
ظلم و استبداد کا شکار مظلوموں کی مدد کرے مگر قوم پرستی کے نام پر مغرب نے
اسے دوسروں کے لیے حرام رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کو تواہل غزہ کی
بالواسطہ حربی تعاون سے روک دیا جاتا ہے مگر اہل مغرب وقت ضرورت خوداس کو
اپنے لیے مستحب قرار دے کرکبھی اسرائیل کی مدد کرتے ہیں تو کبھی متحد ہوکر
افغانستان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اندرونِ ملک باہمی مدد و استعانت پر ہنوز کوئی
بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔ ملک شام میں یہی ہوا کہ پہلے تو مجاہدین اسلام نے مختلف
صوبوں مثلاً ادلب، حلب، حماۃ ،حمص اور درعا کو بشارالاسد کے چنگل سے آزاد
کیا گیا اوراس کے بعد دمشق کا رخ کیا جہاں پر اسدی شکنجہ ہنوز مضبوط تھا
اور وہاں کے لوگ دعا کررہے تھے کہ:’’ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے
جہاں کے (حاکم) لوگ ظالم ہیں، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر
فرما دے، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے‘‘۔
ایسے میں مجاہدین اسلام کی وہی ذمہ داری تھی جسے اس طرح بیان کیا گیا کہ
:’’ اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (غلبۂ دین
کے لئے) اور ان بے بس (مظلوم و مقہور) مردوں، عورتوں اور بچوں (کی آزادی)
کے لئے جنگ نہیں کرتے جو (ظلم و ستم سے تنگ ہو کر) پکارتے ہیں‘‘۔ ہئیت
التحریر الشام نے اپنے اس فرض منصبی کو ادا کرنے کی خاطر دمشق کی جانب پیش
قدمی کی تو رب کائنات نے انہیں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار فرمادیا ۔
معرکۂ حق و باطل میں اہل ایمان کی ترغیب کے لیے کتابِ حق میں یہ یقین
دہانی بھی موجود ہے کہ :’’ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں (نیک
مقاصد کے لئے) جنگ کرتے ہیں اورجنہوں نے کفر کیا وہ شیطان کی راہ میں
(طاغوتی مقاصد کے لئے) جنگ کرتے ہیں، پس (اے مؤمنو!) تم شیطان کے دوستوں
(یعنی شیطانی مشن کے مددگاروں) سے لڑو‘‘۔ 54سالہ بظاہر نہایت مضبوط اقتدار
کا محض 11 دنوں کی آندھی میں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جانا گواہی دے رہا ہے کہ
:’’ بیشک شیطان کا داؤ کمزور ہے‘‘۔ اس موقع پر انقلابِ شام کے دن رفیق
محترم عماد عا قب مظرپوری کا ارشاد کردہ یہ قطعہ یاد آتا ہے؎
فتحِ شام ہوگئی، صبحِ شام ہوگئی
سیریا کی ہر گلی رب کے نام ہوگئی
بھگ گیا بشار بھی اپنے ملک شام سے
ظالمان شام کی آج شام ہوگئی
|