انسانی فطری طور پر خوشی کامتلاشی ہے۔ اور
کسی نہ کسی انداز میں اس کے حصول کی جستجو کرتا رہا ہے۔ خوشی کیاہے اور اسے
کیسے حاصل کیا جا سکتاہے اور انسانی جذبات اور احساسات کا خوشی سے کیا ربط
ہے۔ اس کے بارے انسان کا تصور بدلتا رہا ہے ۔ قدیم دور میں خوشی کے بارے
تصورات کچھ اور تھے جب کہ آج کے تصورات اس سے بہت مختلف ہیں۔ خوشی کے
انسانی زندگی اور انسانی جذبات سے کیا تعلق ہ کے باعث وہ کون کون سے عمل
ہیں جو خوشی کا باعث ہوتے ہیں، کس قدر خوشی انسان برداشت کر سکتا ہے اور
خوشی کی زیادتی کتنی نقصان دہ ہے۔ حقیقی خوشی، اس کے ماخذ اور انسانی زندگی
پر اس کے مثبت اثرات کو جاننے کے لئے مختلف معاشروں میں صدیوں سے فلسفی اور
مذہبی رہنما اس کے بارے اظہار خیال کرتے رہے ہیں جو آج بھی بڑی اہمیت کے
حامل ہیں۔مگر خوشی کی حقیقت جاننا اصل کام ہے۔ یہ ایک وسیع اور مکمل علم ہے۔
آج اس پر دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں بہت سائینٹفک ریسرچ جاری ہے اورہر
نیا آنے والا دن بہتر خوشیوں کا پیامبر ہے۔موجودہ دور سے پہلے بلکہ اب تک
زیادہ کام انسان اپنی پریشانیوں کے بارے کرتا رہا ہے۔ ڈیپریشن(Depression)،
ٹینشن(Tension)، انگزایٹی (Anxity) اور ان جیسے لاتعداد تفکرات کو حل کرنے
کے لئے کوشاں رہا ہے ۔ آج کی سائنس کے مطابق اس سارے گورکھ دھندے کا علاج
خوشی کا حصول ہے۔سائیکالوجی ، نیوروسائنس اور ایولیوشنری بیالوجی میں اس پر
بہت کام ہو رہا ہے کہ انسان کی زہر آلود سوچوں پر کسی طرح قابو پا کر انسان
کو حقیقی خوشی سے ہمکنار کیا جائے۔دنیا بھر کے نیورو سائنسدان اور
سائیکولوجسٹ جو ایک ڈیڑھ دہائی سے ٹینشن، ڈپریشن، انگزائٹی پرمسلسل کام کر
رہے تھے آج متفق ہیں کہ یہ ذہنی بیماریاں ہیں اور ان کا علاج خوشی ہے ۔
سائیکولوجی کی ایک نئی برانچ ہے ، پوزیٹو سائیکولوجی ، جس کے مطابق آج
سائیکولوجسٹ خوشی، اس کے ماخذ، اس کے محرکات اور نتائج پر کام کر رہے ہیں۔
لفظ Hapiness کے مغوی معنیٰ Luck یا قسمت کے ہیں ۔ستارہویں صدی تک خیال تھا
کہ خوشی قسمت کی بات ہے اور اگر اچھی قسمت ہو تو آپ خوش رہیں گے مگر اچھی
قسمت نہ ہو تو خوشی آپ کو مل نہیں سکتی۔ زیادہ تر اہل علم دکھ کو انسانی
زندگی کا ایک لازمی حصہ سمجھتے رہے۔ بابا فرید کہتے ہیں
چڑھ فریدہ کوٹھے تے، دیکھ گھر گھر لگی اگ
تو سمجھیں میں دکھی آں،ایتھے دکھی سارا جگ
آج کے تصورات اس سے بہت مختلف ہیں۔ 7 1صدی کے آخر اور 18 صدی کے شروع میں
جب انڈسٹریل انقلاب آیا تو لوگوں کی سوچ بدلی۔ اس وقت انگریز فلسفی جان لاک
کہتا ہے کہ خوشی انسان کا حق ہے۔ یہ مت سوچیں کہ دکھ آپ کا مقدر ہے۔ خوشی
اچھی ہے اور دکھ برا۔ ہمیں خوشیوں کو فروغ دینا ہے۔ آج کی سائنس کہتی ہے کہ
خوشی کا قسمت سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان اپنے مثبت طرز عمل سے خوشیاں پا
سکتا ہے۔ اس کے لئے صرف سوچنے اور بہتر راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔کس قدر
خوشی انسان برداشت کر سکتا ہے اور خوشی کی زیادتی کتنی
نقصان دہ ہے۔یہ ایک وسیع اور مکمل علم پرآج دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں
بہت سائینٹفک ریسرچ جاری ہے اورہر نیا آنے والا دن بہتر خوشیوں کا پیامبر
ہے ۔
خوشی کیا ہے؟ بہت سی تعریفیں ہیں۔ میں چند بتا رہا ہوں
1۔خوشی صحیح معنوں میں احساس کی خوشنودی اور درد وغم کے خاتمے کا نام ہے ۔
2۔خوشی بہت سے مثبت جذبات کا نام ہے جس میں خوشی ، فخر، قناعت پسندی اور
شکر گزاری شامل ہیں۔
3 ۔ سادہ لفظوں میں ا پنی زندگی سے مطمن ہونا، مسلسل مثبت رویہ رکھناور شکر
گزار رہنا خوشی کا باعث ہوتا ہے۔
فرانسیسی میں خوشی کے لئے ایک لفظ ہے ، HEUR۔اس لفظ کے معنیٰ ہیں اچھی قسمت
یا خوشی۔
جرمنی لفظ ck Glu خوشی کے لئے استعمال ہوتا ہے جسکے معنیٰ خوشی یا انتخاب
ہیں۔
یونانی لفظ Eudaimonia خوشی کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے معنیٰ خوشی یا
خوشی کا پہیہ، قسمت کا چکر جو آپ کو خوشی سے ہم کنار کرتا ہے۔
یہ اندازہ لگانے کے لئے کہ کوئی شخص کتنا خوش ہے بہت سے تجربات کیے گئے اور
سائیکولوجسٹ اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی کی خوشی کوجاننے کے تین بنیادی
پیمانے ہیں۔ پہلا، زندگی میں اطمینان، دوسرا مثبت رویہ اور تیسرا خوشحالی
یا اچھی صحت۔ماْضی کے حوا لے سے اگر بات کریں تو جب سے انسان کو شعور آیا
ہے اس وقت سے دنیا کے ہر کلچر میں، ہر خطے میں مذہبی رہنما، سکالر، فلاسفر
اور سائنسدان اس بارے اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔وہ سب خوشی کو قسمت سے منسوب
کرکے لوگوں کو اپنے اچھے برے حالات پر قناعت کرنے کا کہتے تھے۔ چار اور
پانچ صدی قبل مسیح میں دنیا کے تین مختلف حصوں میں تین عظیم مدبر اور سکالر
آئے جن میں یونان کا سقراط، بھارت کا گوتم بدھ اور چین کے کنفیوشش اور تاؤ
شامل ہیں۔ ان کا آپس کوئی کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مگر ہزاروں میل دوری کے
باوجود ان کی تعلیم میں بہت حد تک یکسانیت تھی وہ چاروں پیغبر تو شاید نہیں
تھے مگر ان کی زیادہ تر تعلیمات آفاقی تعلیمات تھیں۔ زیادہ تر باتیں وہی
تھیں جو رب اپنے مخصوص بندوں کے ذریعے انسانوں کو بتاتا رہا ہے۔ان چاروں
سمیت اس دور کے زیادہ تر فلسفیوں نے بھی خوشی کے بارے بات کی ہے مگر دکھ کو
انسانی زندگی کا لازمی حصہ قرار دے کر لوگوں کو اسے قبول کرنے کا کہا کہ ان
کے نزدیک دکھ کا کوئی چارہ نہیں تھا۔ مگر آج سائنس اس بات کی نفی کرتی ہے
اور آج سب متفق ہیں کہ خوشی کو حاصل کرنا انسانی کوشش سے ممکن ہے۔آپ کے
اپنے طرز عمل سے یہ پوری طرح ممکن ہے کہ آپ آسانی سے خوشی نہ صرف اپنے لئے
حاصل کر سکتے ہیں بلکہ دوسروں میں بھی خوشیاں بانٹ سکتے ہیں۔
|