بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ایک مسئلہ جو عموما تربیت و تبلیغ میں ناپختہ مبلغین اور مربیوں کے ساتھ
ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مربی اور مبلغ یا تو ایجابی انداز رکھتے ہیں یا پھر
سلبی، نیز جس کو تبلیغ کی جارہی ہے اس کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھے بغیر یا
وقت، جگہ اور موقع کی مناسبت سے بے توجہی رکھتے ہوئے ہی اس کو آیات یا
احادیث بتائی جاتی ہیں جس سے وہ شخص پریشان ہوجاتا ہے۔
قرآنِ کریم اور احادیث میں عموماً ایک ہی موضوع سے متعلق ایجابی انداز بھی
پایا جاتا ہے اور سلبی بھی، مثلاً والدین کے احترام اور عزت کی بھی تلقین
ہے اور والدین کے خلاف ہوجانے کو بھی ثواب بتایا گیاہے۔ اس طرح مکلف کیلئے
ضروری ہے کہ وہ اپنے لئے لائحہ عمل تعین کرتے وقت اس آیت یا حدیث کے شانِ
نزول یا اس کے بیان کے وقت کی حالت اور جگہ سے بھی واقف ہوں تاکہ یہ یقین
کیا جاسکے کہ فلاں ایجابی حکم اس وجہ سے تھا اور فلاں سلبی حکم فلاں وجہ سے
تھا۔ اور یوں اپنے لئے راستہ تعین کرنے میں آسانی رہےگی۔روزہ رکھنے کی قرآن
مجید میں فضیلت ہے مگر نہ رکھنا بھی عبادت ہے، اقرباء سے صلہ رحمی واجب ہے
مگر اقرباء سے قطع تعلق بھی عبادت ہے، حلال کھانا واجب ہے مگر حرام کھانا
بھی واجب ہوجاتا ہے۔دشمن کے جہاں پاؤ قتل کردو کا حکم بھی قرآن کریم میں ہے
مگر دشمن سے صلح جوئی کو بھی عبادت کہا گیا ہے۔ قصاص کا حکم بھی ہے اور
معاف کرنے کی نصیحت بھی ہے۔ہدایت کیلئے قرآن کریم کو بنیاد بتایا گیا ہے
مگر اسی قرآن میں دیگر الہامی کتابوں سے تعلق اور ان پر ایمان بھی ضروری
ہے۔شرک کو سب بڑا گناہ کہا گیا ہے دوسری طرف مگر خدا اپنے ساتھ رسول ، اولی
الامر اور مومنین کی بھی اطاعت کا حکم دے رہا ہے۔ مگر کب، کیوں، کیسے ؟ اس
کیلئے ہمیں آیت یا حدیث بیان ہونے یا نازل ہونے کا وقت اور جگہ کا علم ہونا
چاہیے۔ اسی طرح حج، نماز، زکواۃ وغیرہ کے بھی احکام ایجابی بھی ہیں اور
سلبی بھی۔
قرآن کریم اور احادیث بھی موقع کی مناسب سے نازل ہوئیں ہیں یا معصومین
علیہم السلام کی طرف سے بیان کی گئی ہیں، اس موقع کی مناسب ہی کی وجہ سے
ہمیں احکام میں تغیر ملتا ہے اور اسی وجہ سے ہمیں ہر ایک کیلئے ، ہر وقت
اور ہر جگہ ایک ہی بات تکرار نہیں کرنی چاہیے بلکہ موقع کی مناسب دیکھتے
ہوئے عمل کرنا چاہیے۔
اسی وجہ سے اسلام میں بعض احکام ثابت (static) ہیں اور بعض احکام متغیر(on
condition)، یا بعض کلّی طور پر" ثابت "ہیں مگر جزئیات میں "متغیر"۔
مثلاً نماز پڑھنا واجب ہے یہ صریح حکم قرآن مجید میں موجود ہے، مگر" نماز
کے قریب بھی نہ جاؤ"، یہ بھی قرآن کریم میں موجود ہے، جب ہم ان احکام کے
قرینے کو دیکھیں گے تو پتا چلے گا نماز تو واجب ہے مگر جب نشے کی مدہوشی
حالت میں ہوتو نماز کے قریب بھی نہ جانے کا حکم ہے۔ یا مثلا ً نماز واجب ہے
کا کلّی حکم ہے مگر اس کو کس انداز سے پڑھنا ہے یہ حکم متغیر ہے، بیماری
میں ، سفر میں وغیرہ نماز کا انداز تبدیل ہوجاتاہے۔
اسی طرح تمام سیاسی، معاشی، تہذیبی، اخلاقی مسائل کا حل بھی قرآن کریم اور
احادیث میں اسی طرح سے ہے کہ ہم کسی بھی آیت یا حدیث کو ہر ایک کیلئے ،
تمام اوقات میں تمام جگہوں کیلئے ایک ہی انداز میں تبلیغ کرنے یا تعلیم
دینے کے مجاز نہیں ہیں۔
نابالغ بچوں کیلئے ایجابی اور ثابت احکام بیان کیے جاتےہیں کیونکہ ان کی
تنقیدی فکر اور جستجو کی حس بیدار نہیں ہوئی ہوتی لہذا انہیں ایک لگے بندھے
ایجابی انداز میں train کیا جاتا ہے جس سے ان کی عادتیں اور بنیادی نظریات
و عقائد راسخ کردیئے جائیں اس زمانے میں ان میں سوال اٹھانے کی حس نہیں
ہوتی بلکہ صرف اطاعت اور follow کرنے کی حس ہوتی ہے۔ لہذا static انداز میں
انہیں سکھایا جاتا ہے،
جبکہ بالغ بچے جن میں سوال اٹھانے کی حس بیدار ہوچکی ہوتی ہے اور وہ
critical سوچ کے حامل بن رہے ہوتے ہیں اس زمانے میں انہیں اطاعت اور static
follower بنانے کے بجائے ان کی منطقی فکر کو تربیت دینا اہم ہوتا ہے، تاکہ
وہ آزادانہ فکر و تدبر کرکے اپنے لئے static عقائد اپناسکیں اور زندگی کا
لائحہ عمل تجزیہ و تحلیل کی بنیادپر بنا سکیں۔
نابالغ بچے کو جنسی عمل کی تعلیم دینا درست نہیں مگر یہی بچہ جب بالغ
ہوجائے اور زندگی میں کسی جنس مخالف کا ہمسفر بن جائے تو اسے جنسی تعلیم
دینا ضروری ہے۔
اسلام دین فطرت ہے، common sense بھی ان احکامات کو سمجھ سکتا ہے، البتہ اس
کیلئے تجربات درکارہوتےہیں لہذا جب تک تجربات کے نتائج آتے ہیں اس وقت تک
کسی غلط یا نادرست سے بچنے کیلئے آنکھ بند کرکے احکام الہٰی کی اطاعت میں
ہی بھلائی ہوتی ہے۔۔۔غور و فکر اور احکام کے فلسفے تلاش کرتےرہیں، یہ
عارفانہ اطاعت کیلئے اہم اور بہت ضروری ہے۔ مگر اگر ابتداء میں کوئی فلسفہ
سمجھ نہیں آرہا ہو تو "ترک ذمہ داری" نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ماہرین ِ نفسیات نے انسانی ذہن کی شعوری کیفیت پر تحقیقات کی ہیں، جس میں
اس امر کو کشف کیا گیا ہے کہ انسانی ذہن ابتدائے خلقت یعنی حالت جنین سے
لیکر بڑی عمر تک کس طرح ذہنی اور فکری بالیدگی حاصل کرتاہے اور کس عمر میں
انسان کس طرح سے سوچتا ہے اور ذہن کی صلاحیتیں کس طرح سے عمر بڑھنے کے ساتھ
وسعت پاتی ہے۔لہذا اس نکتے کو مدنظر رکھ کر ہم خود اپنے لئے بھی اور دوسروں
کیلئے بھی تعلیمی اور فکری تربیت کی مؤثر روشیں اور طریقے تیار کرسکتے ہیں۔
ہر شخص جداگانہ خصوصیات و ماضی رکھنے کی بنا پر جداگانہ سوچ اور جداگانہ
احکام دینی کا متقاضی ہے، کلی طور پر ایک حکم بہت سی جزئیات رکھتا ہے، لہذا
ہر شخص کوچاہیے کہ انفرادی دینداری کو بھی سمجھے اور دین کے اجتماعی پہلو
کو بھی اہمیت دے۔ قرآن و حدیث و سیرت معصومینؑ سے استخراج حکم خواہ اجتماعی
حوالےسے ہو یا انفرادی؛ زمان و مکان اور شخصی کیفیات و صفات کو مدنظر رکھنا
اور ان پہلوؤں کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھنا اساس حکمت و دانشمندی ہے اور اسی
کا نام بصیرت ہے، یہی درایت علمی ہے۔
|