اللہ کی اپنے بندوں کی بخشش کے بہانے

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آپ لوگوں نے یہ سنا ہوگا اور ہر اہل ایمان مسلمان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ باری تعالیٰ اپنے ہر بندے سے اس کی ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے تو اب آپ اندازہ لگایئے کہ جب یہ بات سچ ہے تو وہ رب العزت کیونکر اپنے بندے کو تکلیف دے گا وہ رب اپنے بندے پر مصیبت کیوں نازل کرے گا وہ رب اپنے بندے کو کیونکر پریشانی میں ڈالے گا اور کیونکر وہ باری تعالیٰ انہیں جہنم کی آگ میں ڈالے گا وہ رب تعالیٰ تو ہر وقت اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب کوئی میرے دربار میں آکر میری پناہ کا طالب ہو کب کوئی آکر مجھ سے سجدے کی حالت میں آنسو بہاکر اپنے گناہوں سے توبہ کرے وہ رب تعالی تو اپنے بندے کی بخشش کے لیئے بہانے ڈھونڈتا ہے وہ چاہتا ہے کہ میرے بندے جنت کے ان باغوں کی سیر کریں جن کے نیچے نہریں روا ہیں وہ میرے پاس آئیں اور ہمیشہ وہاں رہیں اب سوال یہ ہے کہ پھر یہ پریشانیاں یہ تکالیف کیوں تو اصل میں ہمارے ساتھ پریشانیاں اور تکالیف ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں جیسے قرآن مجید کی سورۃ الشوریٰ کی آیت 30 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍﭤ(30)۔
ترجمعہ کنزالعرفان::
اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تووہ معاف فرمادیتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رب تعالیٰ اپنے بندوں پر مصیبت اور پریشانیاں نازل نہیں کرتا لیکن جب کوئی انسان یا قوم تمام حدود پارکر جاتی ہیں تو ان کے برے اعمالوں کی وجہ سے ان پر یہ سب کچھ عذاب کی صورت میں نازل ہوتا ہے ورنہ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو کئی ایسے لوگوں کا ذکر ہمیں ملتا ہے جن کی بخشش اور مغفرت رب تعالی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے کردی جس کی طرف اس کا خیال بھی نہ تھا کیونکہ وہ تو اپنے بندوں کو بخشنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے اب چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر بھی گناہوں میں لتھڑا ہوا کیوں نہ ہو کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارا کون سا عمل اس رب تعالی کی بارگاہ میں مقبول ہوا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آیئے اب میں تاریخ اسلام کے ان واقعات کا ذکر یہاں کرنا اپنی سعادت سمجھتا ہوں جنہیں پڑھ کر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اور بروز محشر بھی اپنے بندوں کو بخشنے اور ان کی مغفرت کرنے کے کس کس طرح کے بہانے ڈھونڈتا ہے ایک حدیث کے مطابق بروز محشر ایک ایسا بندہ بھی پیش کیاجائے گا جس کے ساتھ پہاڑوں جیسی نیکیاں ہوں گی۔منادی آواز دے گا :جس کسی کا اس پر حق ہو وہ بدلے میں اس کی نیکیاں لے لے۔یہ سن کر سارے لوگ آئیں گے اور اس کی نیکیاں لے جائیں گے،یہاں تک کہ نیکیاں ختم ہوجائیں گی۔ وہ حیران و ششدر رہ جائے گا۔ اس وقت رب کریم ارشاد فرمائے گا:تیرا ایک خزانہ میرے پاس ہے ،جس کی خبر نہ میرے فرشتوں کو نہ کسی مخلوق کو ہے۔ بندہ عرض کرے گا یا اللہ وہ کیا ہے؟رب تعالیٰ فرمائے گا وہ تیری نیک نیتی ہے جسے تو نے دنیا میں کیا تھا۔ میں نے اسے 70گنا کرکے لکھ دیا ہے جو تیری نجات کے لئے کافی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث میں جس نیک نیتی کا ذکر کیا گیا ہے دراصل یہ وہ نیتیں ہیں جو انسان اپنی دنیاوی زندگی میں کوئی نعمت اللہ کی مصلحت کے سبب اسے نہیں ملتی تو وہ صدق دل سے یہ نیت کرتا ہے جیسے وہ نیت کرتا ہے کہ اگر اللہ مجھے استطاعت دیے تو میں اس کی مخلوق میں سے اتنے لوگوں کی مدد کروں ، غریبوں اور بھوکے پیاسوں کو کھانا کھلاوں مشکلوں اور پریشانیوں میں گرے ہوئے لوگوں کی پریشانی دور کروں تو اللہ اس کی ان نیک نیت کے سبب بروز محشر اسے بخش دے گا اس کی مغفرت کرکے اسے جنت کا حقدار بنادے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ قادر مطلق ہے وہ جب چاہے جہاں چاہے جیسے چاہے جو چاہے وہ کرسکتا ہے وہ ایک گناہ گار کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے بخش سکتا ہے وہ رب قبر میں عذاب میں مبتلا شخص کو باہر سے ملنے والی کسی عزیز کی نیکی کے باعث بخش سکتا ہے جیسے حضرت امام رازی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک قبر پر سے گزر ہوا، آپ نے (بطور کشف) دیکھا کہ عذاب کے فرشتے میت کو عذاب دے رہے ہیں، آپ آگے چلے گئے، اپنے کام سے فارغ ہوکر جب آپ دوبارہ یہاں سے گزرے تو اس قبر پر رحمت کے فرشتے دیکھے جن کے ساتھ نور کے طبق ہیں، آپ کو اس پر تعجب ہوا، آپ نے نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی، اے عیسیٰ! یہ بندہ گناہ گار تھا اور جب سے مرا تھا، عذاب میں گرفتار تھا، یہ مرتے وقت اپنی بیوی چھوڑ گیا تھا، اس عورت نے ایک فرزند جنا اور اس کی پرورش کی، یہاں تک کہ بڑا ہوا، اس کے بعد اس عورت نے اس فرزند کو مکتب میں بھیجا، استاذ نے اسے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ پڑھائی، پس مجھے اپنے بندے سے حیا آئی کہ میں اسے آگ کا عذاب دوں زمین کے اندر اور اس کا فرزند میرا نام لیتا ہے زمین کے اوپر۔‘‘
(التفسیر الکبیر،ج:۱،ص:۱۵۵)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب رب تعالیٰ اپنے کسی بندے کی مغفرت کرنا چاہے تو وہ راستے بھی خود ہی بنالیتا ہے اور کوئی نہ کوئی بہانا ڈھونڈ کر اپنے بندے کی بخشش کردیتا ہے یعنی راستے سے کوئی خاردار تار یا پتھر ہٹانے کی صورت میں رب تعالیٰ کی رحمت جوش میں آجاتی ہے اور ایسا عمل کرنے والے کی وہ رب العزت بخشش فرما دیتا ہے کسی پیاسے کو پانی پلانے یا بھوکے کو کھانا کھلانے والے کے اس عمل پر رب تعالی اس کی بخشش فرما دیتا ہے مطلب یہ کہ صبح اٹھنے سے لیکر رات کو سونے کے درمیان پورے دن کے روز مرہ معلومات میں ہم ایسے کام کرتے ہیں کہ جو ہماری ضرورت کے عین مطابق ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کئی کام ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی اہمیت کا ہمیں اندازہ تک نہیں ہوتا یعنی اگر ان کاموں کو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت کر کے کریں تو ہماری ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور اس کا اجروثواب بھی حاصل ہوگا جیسے جب ہم اپنی دکان یا آفس میں کھانا کھانے کے لیئے بیٹھے اور ہمیں کوئی بھوکا شخص نظر جائے اور ہم اسے بھی اپنے ساتھ شامل کرلیں اگر ہمارے پاس پانی کے دو گلاس ہیں اور ہم پانی پینے کے لیئے ایک گلاس میں پانی بھرتے ہیں اور ہمیں کوئی اور پیاسا نظر جائے اور ہم دوسرا گلاس اسے دیکر اس کی پیاس بجھا دیں بازار سے سودا لیتے وقت ایسے شخص سے سودا خرید لیں جو بہت مشکل سے سخت دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنے بچوں کی روٹی روزی کے لیئے محنت کررہا ہے تو یہ سارے کام ہم روٹین میں کرتے ہیں لیکن ان میں اللہ کی رضا اگر ہم شامل کرلیں تو ہوسکتا ہے کہ یہ اعمال بروز محشر ہماری بخشش کا ذریعہ ہی بن جائیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہم روزمرہ کے معمولات میں کئی کام ایسے کرجاتے ہیں جن کی حقیقت کا ہمیں علم ہی نہیں ہوتا اور وہ ہی کام وہ ہی عمل ہماری نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے " اسرار الاولیاء" میں حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ سے منقول ہے کہ ایک نوجوان شراب میں مست و مدہوش ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ سامنے سے حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ تشریف لا رہے ہیں تو وہ گھبرا گیا اور پشیمان ہوگیا جب وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو جیب سے ٹوپی نکال کر سر پر رکھی اور سلام کرنے کے لیئے آگے بڑھا دست بوسی کی اور قدموں میں گر پڑا حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ نے اسے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر شفقت فرمائی نوجوان نے خدا کا شکر ادا کیا کہ حضرت کو میرے شراب نوشی کا علم نہیں ہوا اسی رات اس نوجوان نے دیکھا کہ وہ جنت کی خوبصورت وادیوں کی سیر کررہا ہے وہ بڑا حیران ہوا کہ میں تو بڑا گناہگار ، خطاکار ، سیاح کار اور لائق جہنم ہوں آخر یہ کیا راز ہے تو ہاتف غیبی سے آواز آئی کہ کل میرے دوست حضرت ابراہیم بن ادھم کے ملنے سے پہلے تو ایسا ہی تھا جیسا سوچ رہا ہے لیکن کل تو نے میرے دوست کے ہاتھ چومنے کی سعادت حاصل کی ان کی عزت بجا لانے اور دست بوسی کے طفیل تجھے بخش دیا گیا ہے اب دیکھیئے اس قدرت کے راز کہ بظاہر تو یہ کام اس نے اپنے آپ کو چھپانے کی غرض سے کیا تھا لیکن شرمندگی اور ادب میں اخلاص کے باعث وہ معافی کا سزاوار ٹہرا
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں جو سیکھنے کو ملا وہ یہ ہے کہ اگر ہم گناہگار ، سیاح کار اور بدکار ہونے کے ناطے اللہ کے کسی مقرب اور خاص ولی صفت بندے کی زیارت کرتے ہیں اور خوش قسمتی سے مصافحہ اور دست بوسی کی سعادت مل جائے تو یہ عمل بھی ہماری بخشش کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہی ہے کہ رب تعالیٰ اپنے گناہگار بندوں کے گناہوں کو معاف کرکے انہیں بخشنے کے جس طرح سے بہانے تلاش کرتا ہے اس کی یہ ایک بہترین مثال ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی بخشش و مغفرت کرنے کا عمل اتنا پسند ہے کہ اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے جیسے ایک حدیث کے مطابق
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم (لوگ) گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو (اس دنیا سے) لے جائے اور (تمہارے بدلے میں) ایسی قوم کو لے آئے جو گناہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔
( صحیح مسلم 2749)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مغفرت کے بہانے ڈھونڈتا ہے اور کس کس طرح سے کن کن بہانوں سے اپنے کیسے کیسے گناہگار بندوں کی بخشش کردیتا ہے اور یہ سارے بہانے وہ رب تعالیٰ ہماری زندگی میں ان لمحات سے ڈھونڈتا ہے جو ہم نے اس کی خالص رضا کے لیئے گزارے ہوں کیونکہ ہم اپنی زندگی کے ہر اس عمل سے جو ہم نے صرف اس کی رضا کے لیئے کیئے ہوں گے رب العزت اس کی بدولت ہماری بخشش فرما دیتا ہے اور خاص طور پر صدق دل سے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے پر وہ رب تعالیٰ ہمارے مخشش ضرور فرماتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺎ واقعہ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺑﮍﺍ گناہ گار اور ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﺑﺪﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﺮﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﯽ ﺗﻨﮕﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺁ ﭘﮍﯼ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﭘﮭﺮ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺁ ﻟﯿﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻣﺮﺽ ﺍﻟﻤﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺍﮮ ﻭﮦ ﺫﺍﺕ ﺟﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﮔﮭﭩﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﺬﺍﺏ ﺩﮮ ﺗﻮ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻤﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭧ ﮔﺌﯽ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻨﮕﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ، ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺝ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ۔ﺳﺐ ﻧﺎﺗﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﮯ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﺗُﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮐﯿﻼ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ۔۔ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ۔۔ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻏﻔﻮﺭ ﺍﻟﺮﺣﯿﻢ ﮨﮯ یہ آہ زاری کرتے ہوئے ﺍﺳﯽ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﭘﺮ ﻭﺣﯽ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﮮ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺖ ﻓﻼﮞ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯﻏﺴﻞ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮﻭ۔ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﻮﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺩﻭ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﮯ ﮔﺎ یعنی شرکت کرے گا ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔ﭼﻨﺎﭼﮧ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ۔ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﺎﮔﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ﻭﮦ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﮮ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ ۔ ﺁﭖ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﮯ؟ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ : ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﯾﮧ ﺗﻮ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ۔ ﺁﺧﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﯿﺮﺍ ﺩﻭﺳﺖ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ۔ﺍﮮ ﻣﻮﺳﯽٰ ! ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺫﻟﯿﻞ ﮨﻮ ﮐﺮ،ﻓﻘﯿﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺗﻨﮩﺎﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺁﺝ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﯾﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮑﺎﺭ ﺳُﻨﻨﮯ ﻭﻻ نہیں ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮑﺎﺭ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ۔۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮑﺎﺭﺍ ۔ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﻏﯿﺮﺕ ﯾﮧ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮑﺎﺭ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺳﻨﻮﮞ؟ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ! ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺘﺎ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی میں جب بھی کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے کا موقع ملے تو اسے کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ چھوٹا سا نیکی کا عمل بروز محشر ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے جبکہ چھوٹے سے چھوٹے گناہ کرنے کے موقع سے بچنا چاہئے کی وہ بروز محشر ہمارے تمام نیک اعمال کے سامنے بھاری ہوکر ہماری نیکیوں کو برباد کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے نبی حضرت داؤد علیہ السلام جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی آسمانی کتاب زبور اتاری ایک دفعہ اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ یااللہ مجھے وہ ترازو دیکھنے کی آرزو ہے جس میں بروز محشر لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے آپ علیہ السلام کی خواہش پوری کرتے ہوئے جب باری تعالی نے انہیں اس ترازو کی زیارت کروائی تو آپ علیہ السلام اسے دیکھ کر بیہوش ہوگئے اور منہ سے بس اتنا نکلا کہ اتنا بڑا ترازو جب ہوش آیا تو عرض کیا یااللہ ہمارے چھوٹے چھوٹے اعمال کیا اتنے بڑے ترازو میں تولنے جائیں گے جواب ملا ہاں، ہم اعمال کا چھوٹا بڑا ہونا نہیں بلکہ یہ دیکھیں گے کہ یہ کتنے اخلاص سے کیے گئے تھے یا ان میں دکھاوے اور ریاکاری کو کتنا دخل تھا، ہم اخلاص کے ساتھ کیے گئے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بدلہ پہاڑوں کے بقدر دیتے ہیں اور پہاڑ اتنے ہی بڑے ترازو میں تولے جا سکتے ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ کہ اخلاص کے ساتھ کیا ہوا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ پاکر کرنے والے کے لیئے قیامت کے روز نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے جبکہ ریاکاری سے کیا ہوا بڑے سے بڑا عمل بھی اسے تباہ برباد کرسکتا ہے اگر کوئی شخص نیک نمازی ہو تہجد گزار ہو نیکی کے ہر کام میں آگے آگے ہو لیکن اس کا مقصد ریاکاری ہو دکھائی ہو تو رب تعالی کو ایسی نیکی یا نیک اعمال کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ کوئی شخص اخلاص کے ساتھ کوئی چھوٹی سی نیکی بھی کرتا ہے تو اس کی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوکر اسے بخشنے کے بہانے کے طور پر کام آجاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب آپ کو دنیا میں کوئی بھی ساتھ نہ دے ہر کوئی آپ کو چھوڑ دے پھر بھی اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھے کیونکہ آپ نے ایک بات اکثر لوگوں سے سنی ہوگی کہ " جس کا کوئی نہیں اس کا تو خدا ہے یاروں" بس یہ ہی بات حقیقت ہے کیونکہ یہ دنیا تو ایک دھوکا ہے جیسے شاعر نے کہا

جو گزر گئی سو گزر گئی مگر یوسف
ہے سانس اگر باقی تو سنہری موقع ہے
کرکے توبہ محبت دنیا سے دور ہوکر
بس اسی بات کو ہی اب عام کرنا ہے
یہ دنیا تو بس صرف ایک دھوکا ہے
یہ دنیا تو بس صرف ایک دھوکا ہے

اور یہ حقیقت ہے کہ یہ عارضی دنیا تو واقعی ایک دھوکا ہے یہاں تو ہر کوئی وقتی طور پر آپ کے ساتھ ہے جبکہ اصل ساتھ تو صرف اس ذات کا ہے جو آپ کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور بروز محشر بھی اکیلا نہیں چھوڑے گا بلکہ آپ کی بخشش کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرکے آپ کو مغفرت عطا کردے گا آپ کی بخشش کردیگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیسا کہ ہم اس تحریر میں اللہ تعالیٰ کے ان بہانوں کا ذکر کررہے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی میں ہونے والے معمولات میں سے نکال کر قیامت میں ہمارے اعمال کے حساب و کتاب میں کمی پر استعمال میں لاتے ہوئے ہماری بخشش فرمائے گا اور ہمیں اپنے ان اعمال کے بارے میں علم ہی نہیں اسی لیئے ہمیں اپنے زندگی کے معمولات اور ان معمولات کے علاوہ بھی ہر وہ عمل جن میں نیکی جھلکتی ہو اب وہ چھوٹے میں چھوٹا عمل ہی کیوں نہ ہو بس انہیں کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے صرف اللہ کی رضا اور قیامت میں اپنی نجات کے لیئے جبکہ برائی کے ہر عمل سے جو چاہے کتنا ہی چھوٹا کیون نہ ہو ہمیں دور رہنا ہوگا کہ وہ ہماری ساری نیکیاں کھا جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور بروز قیامت ہماری نجات کا ذریعہ یہ نیکی کے اعمال ہی ہیں جو ہماری بخشش اور مغفرت کروانے میں اللہ تعالیٰ کے بہانے کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس دنیا میں عافیت والی زندگی عطا کرتے ہوئے ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان نیکیوں کے صدقے ہماری بخشش و مغفرت فرمائے اور ہر برائی اور شیطان کے وار سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو محفوظ رکھے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
کرنی تھی بخشش تو بہانے بنا دیئے
جنت میں مومنوں کے ٹھکانے بنا دیئے


 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 170 Articles with 137762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.