�داستان کراچی کے سفر کی (وقار کا سفر نامہ۔۔قسط دوم)

یہ سفر ہم نے دسمبر ٢٠٢٢ میں فیصل آباد سے کراچی تک موٹرسائیکل پر کیا۔ اس کی مختصر داستان ہے۔ امید ہے قارئین پسند فرمائیں گے۔

مقام جہاں جنرل ضیا الحق کا جہاز تباہ ہوا تھا۔یادگار کے کچھ اثرات باقی ہیں

عبدالحکیم سے روانہ ہوئے تو منزل بہاولپور تھی۔ طے پایا کہ ہم ہر ایک سو کلومیٹر کے بعد مختصر وقفہ برائے نماز، چائے وغیرہ کیا کریں گے۔ اس فیصلہ سے کافی سہولت رہی۔ براستہ کچہ کھوہ، پیرووال، خانیوال، جہانیاں، دنیا پور، لودھراں، بہاولپور سفر جاری رہا۔ خانیوال میں کچھ دیر ریسٹ کیا نماز ظہر ادا کی۔ اور 4 بجے ہم چرسی چائے ہوٹل ٹول پلازہ نیشنل ہائی وے بہاولپور جا پہنچے۔ چائے آرڈر کی اسی دوران ہمارے محترم دوست اور ملنسار شخصیت مفتی محمد ابوبکر سیالوی صاحب (سابق مفتی دارالافتاء آستانہ عالیہ سیال شریف) تشریف لے آئے۔ قریب ہی ان کا دولت خانہ تھا اس لیے ان کے اصرار پر ہم نے وہیں رات قیام کا فیصلہ کیا ورنہ ارادہ خانگاہ شریف رکنے کا تھا جہاں قاری صاحب کے ماموں صاحب رہائش پذیر ہیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ ان کا آبائی علاقہ بھی یہی ہے۔ مفتی صاحب کے بھائی علامہ محمد عثمان سیالوی صاحب کے ہمراہ قاری صاحب کو گھر بھیج دیا میں اور مفتی صاحب بہاولپور شہر کی طرف نکل پڑے کیونکہ موٹر سائیکل کا آئل چینج کروانا تھا اور آئل شروع سے یاماہا کمپنی والوں کا ہی استعمال کر رہا ہوں اس لیے ان کے منظور شدہ ڈیلر تک پہنچنا تھا۔ فیصل آباد شفیق آٹوز کے رضوان بھائی سے رابطہ کیا تو انہوں نے ہارون ٹریڈرز ملتان روڈ بہالپور کا رابطہ نمبر دیا۔ پہلا مسئلہ ATM کی تلاش تھی۔ کچھ دیر گھوم گھما کے مل ہی گئی۔ اس کے بعد ہارون ٹریڈرز کے اونر ہارون صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے شوروم پر ہی مکینک کو بلوا لیا ، آئل چینج کروایا ، ریس والی تار نئی ڈلوائی، فلٹر بھی تبدیل کروایا، ہارون صاحب کی محبت کہ انہوں نے اشیاء کی قیمت وصول کی اور مزدوری کا ڈسکاونٹ دے دیا بطور مہمان نوازی وہیں شو روم پر ہی چائے پی اور واپس چل پڑے۔

واپسی پر مفتی صاحب مچھلی مارکیٹ لے آئے۔ تازہ مچھلی خریدی اور گھر پہنچے۔ نماز مغرب ادا کی، عشاء کے بعد کھانا کھایا، کچھ دیر گپ شپ ہوتی رہی، رات 11.30 بجے تقریباً مجلس برخاست ہوئی اور لیٹ گئے۔ صبح نماز فجر کے بعد ناشتہ کیا، جو مفتی صاحب کی بے پناہ محبتوں اور چاہتوں کا آئنہ دار تھا چائے کی جگہ مچھلی کے ہیڈ کا سوپ لاجواب ملا۔ ان کے گاؤں کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت شہرت ملی جب سابق صدر پاکستان اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کا جہاز اس علاقہ میں کریش ہوا۔ یادگار بھی بنائی گئی ہے جو ذمہ داروں کی اچھی دیکھ بھال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خطیر فنڈز وغیرہ بھی جاری ہوئے یادگار پر ایک بڑا پارک قائم کرنے کیلئے ، اس وقت کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں اور یادگار کے پارک والی جگہ پر کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔ بہاولپور سے 9 بجے کے آس پاس روانہ ہوئے۔ آج کے سفر کا اگلا پڑاؤ سکھر تھا۔

صبح 9 بجے قریب مفتی صاحب کو الوداع کہا اور سفر شروع ہوا۔ بہاولپور سے باہر نکلے تو محسوس ہوا کہ پچھلے ٹائر کو کوئی مسئلہ ہے۔ قریب ہی ایک مکینک کے پاس رکے تو دھیان گیا کہ کل جب آئل بدلوایا تو چین سیٹ کروایا تھا، ٹائر ڈھیلا نہ رہ گیا ہو۔ وہی بات نکلی۔ ٹائر کو کسوایا اور براستہ نیشنل ہائی وے، خانگاہ شریف ، ظاہر پیر مامے والا، احمد پور شرقیہ، چنی گوٹھ پہنچے جہاں سڑک کے کنارے تازہ گڑ کے سٹالوں نے بریک لگانے پر مجبور کر دیا۔ ڈرائی فروٹ سے مزین گڑ کی دو پیسیاں خریدیں جن کی مالیت 100 روپیہ نقد سکہ رائج الوقت ادا کی۔ گڑ کو اگلے کسی مقام پر کھانے کے ارادہ سے بیگ میں رکھا اور سفر شروع کیا۔ ارادہ یہ تھا کہ پنجاب، سندھ کا بارڈر دن کی روشنی میں عبور کر لیا جائے بسا اوقات وہاں وقت زیادہ بھی لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

چنی گوٹھ سے نیشنل ہائی وے پر سفر جاری رہا ، جن پور، خان بیلہ، ظاہر پیر، سردار گڑھ، میانوالی قریشیاں، اقبال آباد، بہادر پور، بائی پاس رحیم یار خاں، بائی پاس صادق آباد اور پنجاب کی سرحد کوٹ سبزل سے وادی مہران صوبہ سندھ میں داخل ہو گئے۔ چیک پوسٹ پر پولیس اور رینجز کے افراد چھان بین میں مصروف تھے، ہم کو سندھ کی مہمان نوازی دکھاتے ہوئے بلا روک ٹوک سندھ میں داخل ہونے دیا گیا۔ چیک پوسٹ سے تھوڑا آگے بڑے تو اچھے بھلے خاندانی قسم کے کھڈوں نے استقبال کیا تو منہ سے بلا ساختہ نکلا۔۔۔۔۔۔جئے بھٹو۔۔۔۔۔ ہمارا اگلا سٹاپ اباڑو پیٹرول پمپ پر ہوا۔ ڈہرکی، میر پور ماتھیلو، گھوٹکی، پنوں عاقل پہنچےیہاں ایک ہوٹل نے زبردستی اپنی طرف کھینچ لیا کیونکہ اس کی اوپر دیوار پر مرشد کریم حضور امیر شریعت ، نائب شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد حمیدالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر آویزاں تھی۔ یہاں چائے اور نماز کا وقفہ کیا، یہاں سے آگے روہڑی سے ہوتے ہوئے سکھر جا پہنچے۔ جس وقت سکھر پہنچے تو سورج ☀️ صاحب عین نیشنل ہائی وے کے اوپر سے سر چھپانے کی طرف گامزن تھے۔

سکھر پہنچ کے ہمسفر قاری صاحب نے فرمایا کہ ہم نے سکھر نہیں قریب ہی علاقہ ہے مدیجی وہاں جا کر پڑاؤ ڈالنا ہے۔ گوگل استاد سے رہنمائی لی تو معلوم ہوا وہ قریب کا علاقہ بھی 47 کلومیٹر لاڑکانہ روڈ پر واقع تھا۔ خیر نماز مغرب کے بعد لاڑکانہ روڈ پر سفر جاری رہا۔ مچھروں کی اتنی شدت تھی کہ ہیلمٹ کے شیشے پر قربان ہونے والے مچھروں کی ایک تہہ جم گئی تھی۔ اللہ بھلا کرے ہیلمٹ بنانے والوں کا حادثات کے علاوہ دوران سفر مچھروں کے فضائی خودکش حملوں سے بھی محفوظ رکھتے ہیں ۔ لاڑکانہ روڈ شاندار بنا ہوا تھا جیسے ہی مدیجی کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ بجلی بند ہے، روڈ سے مدیجی کی طرف مڑے تو بھرپور قسم کی ٹوٹی سڑک اور صفائی ستھرائی سے نابلد علاقہ سے وابستہ پڑا۔۔۔۔۔جئے بھٹو کا نعرہ ہر ہر مقام پر یاد آیا جہاں جہاں بلدیہ، سرکاری محکموں، انتظامیہ کی ازلی بے حسی نظر آئی۔ مدیجی میں تو سیلاب نہیں آیا البتہ بارشوں نے خوب رنگ دکھایا جو بقول مقامی افراد کے کسی سیلاب سے کم نہیں تھیں( اللہ پاک ہر آزمائش میں اپنی پناہ میں رکھے). مدیجی سے لاڑکانہ محض 36 کلومیٹر اور نوڈیرو 15 کلومیٹر پر واقع ہے۔

یہاں قاری صاحب کے پیر بھائی محب اہلبیت علی اکبر صاحب کے مہمان خانہ میں پہنچے۔ ان کے ورکر محمد شکیل صاحب مین چوک سے اپنی بائیک پر لینے آئے تھے۔ ہم جیکٹ، بیگز، ہیلمٹ میں ملبوس تھے اور مقامی لوگوں کیلئے کسی عجوبے سے کم نہ تھے وہ ایک دوسرے کو اشارے کر کے کہتے ان کو دیکھو اتنی سردی نہیں جتنا انہوں نے اہتمام کیا ہوا (جیسے انٹارکٹیکا سے آئے ہیں)۔ یہ لوگ اپنی جگہ سچے تھے ان کو کیا پتا کہ جس دھند میں ہم نے پیر عبدالحکیم تک کا سفر کیا اس کا مزہ کتنا تھا۔ موٹر سائیکل گیراج میں لگائی، کمرے میں پہنچے، فریش ہوئے اللہ توبہ کی، رات کا کھانا بہت پر تکلف تھا، ہم دیسی لوگ سادہ کھانے کو زیادہ پسند کرتے۔ پلی کا ساگ(چنے کے سبز چھلکوں سے بنا) اور مچھلی وہ بھی چاول کی روٹی کے ساتھ ساتھ چکن کڑاہی، فروٹ وغیرہ۔ سبحان اللہ۔ میں نے چاول کی روٹی شاید یہاں ہی پہلی بار کھائی ہے۔ کھانے کے بعد دراز ہوگئے۔ علی اصغر صاحب رات 10 بجے کے قریب پہنچے۔ ان سے ملاقات ہوئی، بہت کمال ملنسار شخصیت کے حامل تھے، فیصل آباد میں سید جلال الدین رومی شاہ جی سے بات کرتے عجیب جملہ بولا جس کا مطب تھا کہ شاہ جی آپ بھی کم بڑے پیر صاحب نہیں کیونکہ ہم آپ سے بات کر رہے، آپ ہماری بات توجہ سے سن رہے دعاؤں سے نواز رہے۔ واقعی ہم لوگ زندوں کی قدر نہیں کرتے جو زندگی کے مشکل مقامات پر فی الفور امداد کو پہنچ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔رات 12 بجے کے آس پاس نیند کی وادیوں میں جا پہنچے کیونکہ صبح فجر کے وقت جاگ کے اگلے سفر کی تیاری کرنا تھی۔ یہ 7 دسمبر 2022ء کا دن تھا۔( جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 33 Articles with 7197 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.