"اوپر شیروانی، اندر پریشانی" برصغیر پاک و ہند کے معروف
دانش ور، صحافی و مزاح نگار، ابراہیم جلیس کی تحریر کردہ طنزیہ و مزاحیہ
مضامین کی کتاب کا نام، جو انہوں نے آج سے تقریباً 43 برس قبل تحریر کی تھی۔
اس میں اسی عنوان سے ایک مضمون بھی شامل تھا، لیکن مذکورہ کتاب ہمیں مل نہ
سکی جس کی وجہ سے ہم جسم پر شیروانی پہننے کے بعد اندر برپا ہونے والی
پریشانیوں کے بارے میں معلومات سے لاعلم رہے۔ ہم صحافیوں اور دانشوروں کا
فکر معاش و مالی تنگدستی کا چولی دامن کا ساتھ رہتا ہےاور یہ تعلق شاید ازل
سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ جب ابراہیم جلیس جسم پر شیروانی زیب
تن کرتے ہوں تو جیب کی طرح ان کا پیٹ بھی خالی ہوتا ہو اور بھوک کی وجہ سے
پیٹ میں دوڑنے والے چوہے " شیروانی کے نیچے بدن میں پریشانی پیدا کر دیتے
ہوں- لیکن ابراہیم جلیس قمیص پاجامہ ، پینٹ شرٹ اور ادبی مجالس میں حاضری
دیتے وقت جسم کے اوپر کوٹ پتلون بھی زیب تن کرتے ہوں گے تو کیا اندر کی
پریشانی اس وقت بھی موجود ہوتی ہوگی؟. ہمارے خیال میں ابراہیم جلیس نے
شیروانی زندگی میں چند مرتبہ ہی پہنی ہوگی، ایک تو اپنی شادی کے وقت، اس کے
بعد چند شعری نشستوں میں۔ شادی والے دن دولہا کو ویسے بھی جاں گسل لمحات کا
سامنا رہتا ہے۔ شیروانی اور اس کے ساتھ تنگ موری کا پاجامہ پہننے کے بعد
ہوا کے آنے جانے کے تمام راستے مسدود ہوتے ہیں، جبکہ شیروانی سے تقریباً
آٹھ انچ اوپر کئی کلو وزنی پھول پتیوں کا سہرا دھرا ہوتا ہے۔ اس پر طرہ یہ
کہ دولہا کا صبح ناشتہ کرنے کے بعد سے پیٹ خالی ہوتا ہے۔ یہ تجربات اس دور
کے ہیں جب باراتیں ڈھول تاشے کے ساتھ صبح دس، گیارہ بجے دلہن کی دہلیز پر
پہنچتی تھیں، ایک گھنٹے تک باجے والے دلہن کے دروازے پر کھڑے ہوکر مختلف
النوع سازوں کے ساتھ بے سری موسیقی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ دوپہر کے بعد نکاح
پڑھایا جاتا تھا جو ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے دورانئے پر محیط ہوتا تھا۔ اس کے
بعد دلہن کے "ہاں" کہنے کا انتظار رہتا تھا۔ اس کے ہاں کہنے کے ساتھ ہی "مبارک،
سلامت" کی صدائیں بلند ہوتیں اور دولہا کو مبارک باد دینے اور گلے ملنے کے
لئے مہمانوں کی کثیر تعداد لائن لگائے کھڑی ہوتی تھی۔ اس دوران دولہا کو
شیروانی کے اندر دوہری پریشانیوں کا سامنا رہتا۔ شیروانی کے نیچے بدن پسینے
سے شرابور ہوجاتا تھا جب کہ کھانے میں دیر ہونے اور بھوک کی وجہ سے پیٹ کے
اندر بھی چوہے دوڑنے لگتے تھے۔ شعری نشستیں تو ویسے بھی ایسی محافل ہوتی
تھیں جن میں آج کی طرح مشاعرے کے بعد اشیائے خورونوش یا لنچ بکس کا اہتمام
نہیں ہوتا تھا۔ نتیجہ اوپر شیروانی زیب تن کئے شاعروں کو "اندر" پریشانیوں
کا بدستور سامنا رہتا تھا۔ لیکن ہمارے خیال میں انہیں "اندر" پریشانی ہر
لباس میں درپیش رہتی ہوگی کیونکہ اس کا تجربہ ہمیں بھی ہے۔ ہم صحافی بھی
ہیں اور دانش وری کے اعلیٰ ترین منصب پر بھی فائز ہیں۔ علم و ادب کے جرثومے
بلند فشار خون کے توسط سے ہمارے دل و دماغ میں حلول کرگئے ہیں اور بدقسمتی
سے ہمارا شمار بھی ایسی ادبی شخصیات اور "صاحب تصنیف مزاح نگاروں" میں ہوتا
ہے جن کی نہ صرف جیب خالی رہتی ہے بلکہ پیٹ بھی خالی ہوتا ہے۔ لیکن ہم اپنی
صحافتی شخصیت کی "زیبائش" کے لئے پینٹ شرٹ یا قمیص شلوار پہنتے ہیں۔ حال ہی
میں اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب پر شیروانی بھی بطور خاص زیب تن کی اور اسے
پہن کر ہم خود کو لکھنئو کے نوابین کے خانوادے میں سے سمجھنے لگے، لیکن
شیروانی کے اندر کی پریشانی نے ہمیں تمام وقت بے چین کئے رکھا، کیوں کہ گرم
موسم کے سبب حبس کی وجہ سے ائرکنڈیشنڈ ہال کی ٹھنڈک بھی ہماری شیروانی کے
اندر کی گرمی ختم کرنے میں ناکام رہی تھی اس لئے ہم ہر تھوڑی دیر بعد اپنا
بدن کھجاتے ہوئے ابراہیم جلیس مرحوم کی کتاب کا عنوان "اوپر شیروانی اندر
پریشانی" دہراتے رہے.
|