داستان کراچی کے سفر کی (وقار کا سفر نامہ ۔ قسط ہفتم)

فیصل آباد سے کراچی تک سفر کی روداد ۔ یہ سفر ہم نے موٹرسائکل پر طے کیا۔

پاکستان نیوی میوزیم کراچی

آج اتوار11 دسمبر 2022ء کا دن تھا تو کراچی میں مصروف گزرا۔ پی آئی بی سے شروع ہونے والا سفر کشمیر کالونی پہنچ چکا تھا، ظہر کے بعد میزبانوں سے اجازت لی اور اگلی منزل کی طرف بڑھ گیا۔ اب کے بار میں اکیلا نہیں تھا بلکہ صاحبزادہ محمد معین الدین الازہری صاحب بھی ہمراہ تھے، کراچی کی چکا چوند زندگی سے کوسوں دور رہنے والے معین الدین بھائی کے ہوتے ہوئے بھی گوگل استاد سے مدد لینا پڑی اور کچھ کلومیٹر اضافی سفر کرکے بالآخر ہم پاکستان نیوی کے زیر انتظام پاکستان میری ٹائم میوزیم Pakistan Maritime Museumجا پہنچے. یہاں ہمارے بھانجا صاحب جناب محمد طیب اسحاق اور ہمارے گاؤں کے ایک اور ہونہار پاک نیوی کے شیں جوان بھی موجود ۔ ہم موٹر سائیکل پر پہنچے اور جنابان بذریعہ بس ڈاک یارڈ سے تشریف لائے۔ گزشتہ سے پیش رو سفر کراچی میں قاری عنایت اللہ صاحب کے ہمراہ پاک فضائیہ کا میوزیم دیکھا تھا اس بار پاکستان نیوی کے میوزیم کا دورہ کرنے کیلئے پہنچے تھے۔ اتوار کا دن صرف فیملی کی انٹری ہوتی ہے۔ یہ بات ایک ڈیوٹی پر موجود فوجی بھائی نے بتائی۔ میزبانوں نے چار ٹکٹ خرید لیے تھے، ان کو بتایا کہ آپ کے پیٹی بھائی صاحب نے یہ فرمایا ہے تو بولے ہم بھی محکمہ کے بندے ہیں امید ہے کچھ آسانی ہو جائے گی۔ آگے بڑھے ٹکٹ چیکر صاحب نے واپس بھیجنا چاہا تو انہوں نے اپنا تعارف کروایا، سروس کا ثبوت دکھایا تو انٹری ہو گئی۔

میری ٹائم واقعی ایک ڈسپلن ادارہ کے زیر انتظام بہت خوبصورت جگہ ہے۔ پہلی ہی نظر میں 10/10 نمبر دے ڈالے۔ سمندری حدود میں پاکستان کی سرحدوں کے محافظ کھلے سمندر میں استعمال ہونے والی اشیاء اس پارک میں لے آئے تھے۔ جیسے عراق میں زندہ مچھلیاں ایک چھوٹی ریڑھی پر چھوٹا سا تالاب بناکر رکھی جاتیں بیچنے کیلئے ایسے ہی یہاں اصلی آبدوز، بحری جہاز چھوٹے چھوٹے تالاب بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان نیوی کے بارے معلومات جاننے کیلئے یہ میوزیم کمال جگہ ہے۔ سب سے پہلے اندر داخل ہوتے ہی دائیں طرف سیاہ رنگ کی بڑی مچھلی پر نظر پڑی یہ پاکستان نیوی کا فخر Hangoor آبدوز ہے جو دنیا کی واحد آبدوز ہے جس نے سمندری حدود میں دشمن کے جہاز کو تارپیڈو مار کے دولخت کر دیا ہے۔ اس وقت بہت اطمینان سے چھوٹے سے تالاب میں براجمان ہے۔ اس کے اندر جانے کی الگ سے ٹکٹ ہے۔ میزبانوں نے وہ بھی خریدیں اور ہم آبدوز کے پیٹ میں جا پہنچے۔ ایک الگ ہی جہان ہے۔ سمندر کی میلوں گہرائیوں میں اس کے اندر کیسے ورکنگ کرتے، سگنل کیسے لیتے ، آکسیجن کا مسئلہ کیسے حل ہوتا، مہینہ مہینہ اس کے اندر رہنا بھی الگ سے ہمت والی بات ہے۔ مختلف سیکشن دیکھے، اندر کچھ آفیسرز کی فوٹوز بھی لگی تھیں، رہائشی کیبن، کنٹرول روم، وار روم، ہینڈل، ایمرجنسی سسٹم جو جو نصب ہے دیکھتے اور حیران ہوتے رہے۔ یہاں سے باہر نکل کر ہم واچ ٹاور کی طرف گئے یہ بھی سمندری سفر کا اہم جزو ہوتا ہے۔ سمندری چٹانوں سے جہازرانوں کو باخبر کرنے کیلئے بنائے جاتے جن میں روشنی منعکس ہوکر بہت دور دور تک جاتی۔

اسی اثناء میں میزبان ریفریشمنٹ کا سامان لے آئے۔ آج تو مفت و مفت مزے تھے وہ بھی فوجی جوانوں کے خرچے سے ( اللہ سلامت رکھے ان کی محبتوں کو). ایک بحری جنگی جہاز بھی موجود ہے اس کا دورہ کیا، سیاست دانوں کی طرح ہاتھ ہلا کے فوٹو سیشن بھی کرایا 🤭 ، اس کے بعد آڈیٹوریم میں جا پہنچے، یہاں مختلف ادوار کی یادگاریں موجود تھیں، میوزیم دیکھ کے ایسا لگتا جیسے ہم اس دور میں جا پہنچے، یہ ماڈل بالکل اصلی معلوم ہوتے، کلر سکیم، ماڈل کی بناوٹ اور لائٹس کا ایسا زبردست سسٹم لگا ہوا کہ بندہ حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سمندری زندگی کی بہترین عکاسی ہے۔گہرے سمندر میں پائی جانے والی چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مچھلیاں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ یہاں سے باہر آکر نیوی کا ہیلی کاپٹر اور دیگر آلات دیکھے، نماز عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا میوزیم کی بنی مسجد میں جا پہنچے نماز ادا کی اور وہاں سے باہر نکلے۔ میزبانوں کی ضد تھی کہ کھانا مل کے ہی کھانا ہے میں نے شرط رکھی کہ پیسے میں دوں گا بولے وہ کھانے کے بعد دیکھا جائے گا۔ قریبی ہوٹل میں پہنچے مچھلی آرڈر کی لیکن مچھلی بنانے والا ابھی آیا نہیں تھا بس پہنچنے والا تھا ۔ ہم کو بھی کوئی جلدی نہیں تھی۔ صاحبزادہ معین الدین صاحب نے یہاں سے ہی اجازت لے لی ان کو شارع فیصل تک چھوڑ آیا ۔ واپس ہوٹل پر پہنچا اور میزبانوں سے گپ شپ شروع ہو گئی۔ مچھلی کا انتظار جو کرنا تھا۔

ایک بات جو اکٹر گفتگو کے دوران پنجاب ہو یا کشمیر، اندرون سندھ ہو یا کراچی میں نے محسوس کی وہ یہ کہ ہماری نوجوان نسل معرفت، تصوف، کلچر، اسلامی تاریخ، اسلاف کے انداز رہن سہن، اولیاء اللہ کا انداز تبلیغ سننا، دیکھنا اور پڑھنا چاہتی ہے۔ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اب بھی خانقاہیں پیسے نہیں لیتی۔ وہاں بلا تخصیص رنگ نسل سب کو کھانا کھلایا جاتا، وہاں دل توڑے نہیں بلکہ جوڑے جاتے تو حیران ہو جاتے۔ جعلی عاملوں ، جنتر منتریوں سے لٹے پٹے لوگ نجانے کس قسم کی خاک چھان رہے جب مسجدوں کے ممبروں سے نفرتیں ملنی، درگاہوں کے مجاوروں سے جھڑکیاں کھانی تو سکون کی تلاش میں غلط راہ نہ پڑیں تو کیا کریں؟ بس میں اتنا کہوں گا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا طریقہ، کلچر، لباس، انداز گفتگو اچھا ہے تو اپنے بچوں اور ملنے والوں میں اس کو منتقل کر دیں۔ بات دور نکل گئی بس اس نشست میں کچھ ایسے ہی عنوانات زیر گفتگو رہے، مچھلی آئی، اس سے دودو ہاتھ کیے اسی اثناء میں قاری ضیاء اللہ صاحب کا فون آگیا تو ان کو بولا کہ کچھ دیر تک پہنچ جاتا ہوں ۔ میزبانوں سے اجازت لی۔ وہ کراچی میں حال ہی میں شروع ہونے والی نئی سرخ بس سروس سے اپنی منرل کی طرف چلے گئے میں نے بائک کو اپنی منزل کی طرف دوڑا دیا جو ائیرپورٹ کے قریب سے ہوتے ہوئے قاری صاحب کے دفتر لے آئی۔ یہاں قاری عبدالجبار محمودی قادری بھی آگئے، بہت دیر گپ شپ ہوتی رہی۔ عشاء، عشائیہ اور آرام یہیں ہوا۔ صبح بعد از فجر ناشتہ کیا اور تقریباً 8 بجے ہم بحریہ ٹاؤن کی طرف کی لوکیشن فٹ کرکے استاد گوگل کے بتائے طریق پر چل پڑے، تب اندازہ ہوا کہ کراچی میں بھی گاؤں کا ماحول مل سکتا ہے اگر بندہ جستجو کرے یا گوگل کو بتا دے کہ موٹر سائیکل پر ہوں۔ وہ میرے جیسے سادہ سے بائیکر کو بھی ایڈوینچر بائیکر سمجھ کے الٹے سیدھے راستوں پر ڈال دیتا ہے۔۔۔۔۔(جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 38 Articles with 7701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.