داستان کراچی کے سفر کی (وقار کا سفر نامہ۔ قسط ہشتم)

فیصل آباد سے موٹرسائکل پر شروع ہونے والا سفر اب کراچی سے واپس فیصل آباد کیلئے شروع ہو چکا تھا۔ ایڈونچر مزید بڑھنے والا تھا، واپسی بھی ہم نے موٹرسائیکل پر ہی کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ کا نام لیکر سفر شروع ہوا۔ مزید کیا ہوا؟ اس کیلئے سفر نامہ ملاحظہ کریں۔

ٹنڈو آدم مین بازار میں معروف گلوکار حاجی غلام مرتضیٰ کے ہمراہ

یہ گوگل بھی بڑا استاد ہے۔ اس وقت اس نے بہت سارے کام مفت و مفت اپنے ذمے لے رکھے ہیں جیسے آنے والے دنوں کی مصروفیات کی فہرست، موسم کا حال، عالمی منظر نامہ، کتنے قدم چلے ، پانی کا گلاس کب کب پینا، اب تک کتنے کلومیٹر سفر کر لیا سمیت انگنت امور۔ کچھ دن پہلے مجھے میسج ملا کہ تم نے 2022ء کے اندر جتنا سفر کیا ہے اگر دنیا کے گرد چکر لگاؤ تو آدھا بنتا ہے۔ کمال ہے یہ تو انچی ٹیپ لیکر مگر مگر آئی جاریا۔ گوگل میپ کی بات کریں تو یہ بھی کمال شے ہے، ہر راستہ اس کے علم میں ہے، یہاں تک کہ ٹوٹی اور بنی ہوئی، رش والی اور ٹول پلازہ والی سڑکوں تک کا علم ہے اس کے پاس۔ ہم نے بحریہ ٹاؤن کا راستہ ڈالا تو ہم کو ایک روڈ کا بتایا کہ ادھر سے جاؤ 15 کلومیٹر کم فاصلہ ہے۔ ہم نے موٹر سائیکل بھگا دی۔

علی الصبح ہی تھا نجانے کن راستوں پر ڈال دیا ۔ زیادہ تو نہیں معلوم البتہ بہت سارے فارم ہاؤسز تھے اس راستے میں ، مسلسل سفر جاری رہا پھر مین روڈ کی بجائے چھوٹے سے لنک روڈوں پر ڈال دیا، گھومتے گھماتے کبھی اونچی تو کبھی نیچی جگہوں سے گزرتے ایک چشمہ یا نالہ کے پانی سے بھی گزارا، بالآخر ایک چھوٹے سے گیٹ سے داخل ہوئے تو اندر سڑکوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ تھا جی ہاں کسی لنک روڈ سے ہم بحریہ ٹاؤن میں داخل ہو چکے تھے۔ ایک الگ ہی دنیا ہے۔ نئی نویلی سڑکیں، درخت، پھول، صفائی ستھرائی، صاف ستھرا ماحول۔ موٹر سائیکل کی پیٹرول والی سوئی بار بار متوجہ کر رہی تھی۔ ایک بورڈ نظر آیا تو جا پہنچے پیٹرول پمپ پر۔ ٹینکی فل کروائی اور منزل کی طرف بڑھ گئے۔ القصہ مختصر قاری صاحب کے کزن کے در دولت پر پہنچے جو بحریہ میں جاب کرتے ہیں اور فیملی کوارٹر میں رہتے ہیں۔

سوا گھنٹہ آنے میں لگا اور تیس منٹ وہاں گزارے، چائے کے ساتھ مونگ پھلی، نمکو، بسکٹ پر ہاتھ صاف کیے، واپسی پر میزبان نے کہا کہ ٹینکی کھولو کوئی اور تحفہ نہ سہی پیٹرول ہی تھوڑا سا بطور تحفہ قبول کریں۔ ٹینکی فل ہے میں نے کہا بولے کھولو تو۔ فل ٹینکی میں بھی دو لیٹر مزید ڈال دیا۔ فروری 2022ء سے اب تک سب سے زیادہ پیٹرول اب ڈالا گیا تھا کہ ٹینکی نک و نک۔ موٹر سائیکل کو گھر سے باہر نکالا تو وہ ہیلمٹ جو قاری صاحب کے زیر استعمال تھا وہ جھٹ سے نیچے گرا اور اس کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ اس سفر کا پہلا نقصان ہوچکا تھا۔ صبر شکر سے شیشہ کو وہیں کھول کر پھینکا اور میزبانوں سے رخصت لی، میزبان نے کہا کہ ایک اور لنک روڈ ہے ادھر سے جاؤ تو جلدی حیدر آباد موٹروے پر پہنچ جاؤ گے۔ وہ آگے آگے اور ہم پیچھے پیچھے۔ایک بستی ایسی بھی آئی جہاں معلوم ہوتا تھا کہ یہ علاقہ برازیل یا کسی فٹ بال کے دلدادہ ملک کا محسوس ہوا۔ ہر فٹ بال کھیلنے والے ملک کے جھنڈے، دیواروں پر فٹ بالرز کی فوٹوز کمال ہے یار۔ واقعی ایک دو آبادیوں سے گزرتے مین روڈ پر پہنچ گئے۔ ان کو الوداع کہا اور موٹر سائیکل کو واپس پنجاب کی طرف سفر پر گامزن کر دیا۔ ہمارا اگلا پڑاؤ 250 کلومیٹر دور ٹنڈو آدم تھا۔ اس موٹروے کا لطف آیا کہ بائیک بھی جا سکتی پتا نہیں باقی موٹروے والوں کو بائک سے الرجی کیوں ہے۔ بسا اوقات دل کرتا ہے تمام بائیکرز مل کر اپنی موٹروے بنا لیں جس پر کوئی دوسری گاڑی لیجانے کی بالکل اجازت نہ ہو (اینج تے فیر اینج ای سہی) پھر یکایک خیال آیا کہ اگر بنی بنائی سڑکوں پر ہی رہنا ہے تو پھر موٹرسائیکل کے سفر کا تردد کیوں؟ کیوں اپنی جان جوکھوں میں ڈال رکھی ہے ؟

راستے میں دو سٹاپ کیے چھوٹے چھوٹے۔ جامشورو، حیدر آباد۔ یہاں سے موٹروے والوں نے ہم سے اپنی راہیں جدا کر لیں ہم نیشنل ہائی وے پر سفر کرتے مٹیاری، خیبر پہنچے، وہاں سے ٹنڈو آدم والے روڈ پر سفر شروع کیا۔ یہاں ایک بات جو نہایت قابل ذکر ہے کہ جیسے ہی مین ہائی وے سےٹنڈو آدم کی طرف مڑے ایک نہایت سرسبز اور خوش کن آب و ہوا محسوس ہوئی، ہریالی ہی ہریالی، دونوں طرف ہرے بھرے کھیت اور کیلے ، کنو کے باغات، بہت خوبصورت پر فزا سفر ہو رہا تھا۔ ادھر ٹنڈوآدم میں جناب حاجی غلام مرتضیٰ صاحب ہمارے منتظر تھے، ان کو لائیو لوکیشن بھیج دی تاکہ وہ ڈیجیٹل آنکھ سے ہماری آمد کو دیکھتے رہیں۔ ٹنڈو آدم پہنچے تو بازاروں اور دوکانوں پر ٹھیک ٹھاک قسم کا رش دیکھا۔

حاجی صاحب نے جو لوکیشن بھیجی اسی طرف جا پہنچے، وٹس ایپ ان کیا تو حاجی صاحب کی لائیو لوکیشن آئی ہوئی تھی، اس کو آن کیا تو ہمارے سامنے سے آ رہے تھے اور قریب سے گزر گئے۔ پھر کال آ گئی۔ کہ کہاں ہو؟ ہم نے کہا کہ چشتیہ فوٹو اسٹیٹ کے سامنے بولے ادھر ہی میں ہوں۔ جناب پیچھے دیکھیں ۔۔۔۔ ارے کدھر او نظر نہیں آ رہے۔ کس پر ہو۔۔۔۔۔ ہاتھ اوپر کیا 🙋🏻‍♂️ جناب 🏍️ موٹر سائیکل پر ہوں۔۔۔۔۔ حاجی صاحب کے تاثرات کیا تھے وہ خود ہی بتائیں تو سواد آئے گا۔ او کمال کر دیا جناب۔ موٹر سائیکل پر ہی فیصل آباد سے آگئے۔ اللہ اکبر۔

طے پایا کہ پہلے گھر چلتے ہیں فریش ہو کے پھر کھانا کھائیں گے۔ گرم پانی سے غسل کیا، فریش ہوکر وہاں سے جانب ہوٹل روانہ ہوئے، کیونکہ ہم نے رات سانگھڑ گزارنا تھی وہاں جناب شاہ نواز نظامانی صاحب ہمارے منتظر تھے، شام کا کھانا ان کے ہاں کھانا تھا لیکن بحریہ ٹاؤن کے اضافی سفر نے دن کے 2 بحریہ ٹاؤن میں بجا دیے تھے، عصر کے وقت ٹنڈوآدم پہنچے، بعد نماز مغرب کھانا کھانے ہوٹل کی طرف نکلے، ایک موٹر سائیکل پر حاجی صاحب کے بھائی امداد علی اور قاری صاحب ۔ جبکہ حاجی صاحب میرے ساتھ تھے ہم سکرین سے محروم ہیلمٹ لیے دو چار دوکانوں پر گئے کہ اس کا شیشہ مل جائے مگر چھوٹے ملے مکمل فٹ ہی نہیں آئے۔ راستے سے حاجی صاحب نے فنگر فش بھی فرائی کروا کے ہمراہ لی اور ہم ٹنڈوآدم سانگھڑ بائی پاس پر بنے ایک ہوٹل کے دیوان پر جا براجمان ہوئے۔ شام کا وقت تھا سردی شروع تھی، مگر اس وقت سردی رفو چکر ہو گئی جب ہم چاروں نے وہاں یادوں کی پٹاری کھولی۔ حاجی صاحب بھی بڑے زندہ دل آدمی ہیں سر سنگیت سے شغف رکھتے ہیں خود بھی بہت سریلے ہیں۔ باریک باتیں کرنے میں بھی کمال ہیں ۔ فیصل آباد میں ایک دن فرمانے لگے کہ یار میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ناں؟ میں نے کہاں ہاں۔ کہتے اگر دوسری شادی ہو جائے تو بندے کی زندگی کا رکشہ 🛺بن جاتا ہے 😃۔

اب خود ہی اندازہ لگائیں کہ وہ ڈنر کیسا کشت زعفران بنا ہوگا جب وہ کہنے لگے کہ ہماری نا سمجھی کا بھی کیا پوچھتے ہو۔ بہت عرصے تک ناشتہ کی دوکانوں پر لگے بورڈ پڑھتا تو سمجھ نہ آتی کہ اس جملہ کا کیا معنی بنتا ہے۔۔۔۔۔۔ صبح کا ناشتہ حلوہ پر۔۔۔۔۔۔اٹھا۔۔۔۔۔۔ بعد میں کسی نے کہا کہ پر سے اٹھا دور نہ کریں ملا کر پڑھیں تب سمجھ آئی کہ صبح کا ناشتہ حلوہ پراٹھا لکھا ہے۔ 😁۔
پھر کہتے دوکانوں پر لکھا دیکھا یہاں خسرہ کا علاج کیا جاتا ہے تو سوچتا۔۔۔۔۔۔۔ بھلا کھسرے کا کیا علاج کرتے ہوں گے ادھر 😉🤭۔ خسرہ کو کھسرہ پڑھ بیٹھتے۔

ہم بھی فیصل آباد سے تھے تو کہاں پیچھے رہنے والے جھٹ سے ایک واقعہ سنایا جو حاجی محمد یونس صاحب نے ایک دن سنایا تھا کہ سکول میں ڈی ای او صاحب انسپکشن پر تھے تو ایک کلاس میں پہنچے جہاں اردو کا پیریڈ تھا۔ طلباء سے اردو کی کتاب سننا شروع کی۔ پڑھتے پڑھتے لفظ چونکہ آیا تو طالب علم نے اس کو چونکا پڑھا۔ ڈی ای او صاحب نے دوسرے کو کہا کہ تم ادھر سے پڑھو۔ اس نے بھی چونکا پڑھا۔ پھر تیسرے اور چوتھے طالب علم نے بھی چونکا پڑھا۔ اردو کے استاد صاحب بہت سمجھدار تھے معاملہ کو بھانپ گئے کہ میں نے چونکا پڑھایا ہے جو بچے بول رہے لیکن لگتا ہے کہ میں بھی غلط پڑھاتا رہا فورا گویا ہوئے۔ جناب یہ ہیں ہی بہت نالائق میں نے تو ان کو چو۔۔۔۔۔نکہ پڑھایا ہے یہ چونکا پڑھی جا رہے🫣

القصہ مختصر بہت پر لطف لمحات گزرے، کچھ کھانا کھایا کچھ گنجائش رکھی کیونکہ 50 کلومیٹر دور سانگھڑ میں ہمارے بغداد و حجاز مقدس کے رفیق سفر جناب شاہ نواز نظامانی صاحب ہمارا شدت سے انتظار فرما رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)

 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 43 Articles with 8148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.