ایک بات جو تجربہ میں آئی کہ اگر اپ کسی کو لیڈ کر رہے
ہوں مطلب کوئی آپ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہو تو سپیڈ نہیں لگاتے خاص طور
پر رش والی جگہوں پر ورنہ پیچھے آنے والا بندہ بھول بھی سکتا ہے۔ اور کراچی
کی بات کرتے وقت رش کی بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ عجیب
شہر ہے کسی بھی سڑک، گلی ، کوچہ میں چلے جاؤ ہر کوئی بھاگم بھاگ سامنے کی
طرف چلا جا رہا بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ ہائیں ! ایہہ سارے لوک کتھے
جا رہے نیں؟🤔۔ پر کوئی حد کنارہ نہیں ۔ جس طرف بھی جاؤ ایک ہجوم عاشقاں ہے
جو آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مین چوک سے کالونی کی طرف مڑے تو جیسے لوگ
کاروں، بسوں، موٹر سائیکلوں سے اتر کر پیدل چلنے لگے ہوں۔ ٹھیک ٹھاک قسم کا
رش مین روڈ پر لوگوں کا ملا، خوب ریل پیل تھی ماشاء اللہ اور پوری کالونی
میں دور دور تک کراچی، گرد مٹی، ٹوٹ پھوٹ کہ بس۔۔۔۔۔۔۔جئے بھٹو۔۔۔۔۔۔۔(امید
ہے آئندہ جہاں یہ نعرہ ہوگا آپ کو مزید تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
صفائی ستھرائی سے جیسے چڑھ ہو گئی ہے روشنیوں کے شہر کے باسیوں کو۔ یا نظر
لگ گئی ہے اس شہر کو یا شہر والے اس سے ناامید ہو گئے۔ کوڑے کا ڈھیر لگا تو
کیا ہوا بھیا تم کرسی تھوڑا آگے کرکے ڈال لو ۔ بھائی رستہ رکے گا، ابے یہاں
کسی کا نہیں سوچتے اپنا سوچو، کام نکالو اور نکل لے ادھر سے۔
مین روڈ سے نکلنے والی ایک گلی کے نکر پر بنے تین فٹ کے چائے والے کھوکھے
کے پاس رکے، قاری عنایت اللہ صاحب کا انتظار کرنے لگے، قاری صاحب آئے ملے،
جب پوچھا کہ کیسے آئے او تو بائک کی طرف اشارہ کیا، او ناں کرو
یار۔۔۔موٹرسائیکل پر آئے او۔ جی ہاں۔۔۔۔ او خدا دے دبندیا۔۔۔۔۔۔😊
قاری صاحب بھی ہمارے ساتھ بائک پر بیٹھے اور سنٹرل جیل کے سامنے سڑکوں کے
اس پار کیفے نوید جا پہنچے، چائے کا آرڈر دیا تو بولے تین کٹ لے آؤ۔ اب یہ
کیا ہوتا ہے؟ بولے آدھے کپ کو کراچی میں کٹ چائے بولتے۔ واہ کراچی والو
چائنہ کٹنگ کے بعد چائے کو بھی کٹ لگا کر ہی رہے ویسے اچھا کام ہے سستی مل
جاتی ہے۔ اور یہ بھی مہنگائی کا شاخسانہ ہے۔ جس حساب سے یہ ٹوٹے چھتر (ٹوٹی
ہوئی چپل) کی طرح پھیلتی جا رہی یہاں بھی کٹ چائے کو بھی کٹ لگ جانا۔ اب
سمجھ آیا کہ عراق، سعودیہ، ترکیہ وغیرہ میں نکے نکے کپ میں قہوہ کیوں پیتے
🫣۔
کافی دیر گپ شپ ہوتی رہی دو اور قاری صاحب کے جاننے والے بھی آگئے نام تو
ذہن سے محو ہو گیا کیونکہ میں نے پوچھا نہیں لیکن قاری صاحب ان کا نام لے
کے بات کر رہے تھے۔ یہاں سے قاری ضیاء اللہ صاحب کو ضروری کام کیلئے ہسپتال
پہنچنا تھا وہ روانہ ہو گئے، میں قاری عنایت اللہ صاحب کے ہمراہ ان کے دولت
خانہ پر آگیا۔ ماشاء اللہ میرے یہ دونوں بزرگ (جبکہ دونوں مجھےبھائی کہہ کے
عزت افزائی فرماتے ہیں یہ یقیناً ان کا بڑا پن ہے اللہم زد فزد) اپنی اپنی
فیلڈ میں بہت تگ و تاز کر رہے۔ قاری ضیاء اللہ صاحب ختم نبوت کے محاذ پر
ڈٹے ہوئے ہیں، اپنا مدرسہ بھی قائم کیا ہوا ہے، پراپرٹی کی لائن سے بھی
وابستہ ہیں اور قاری عنایت اللہ سیالوی صاحب سنی جماعت القراء کے پلیٹ فارم
سے تجوید و قرات کیلئے کوشاں ہیں ۔ مصر سمیت دیگر ممالک سے مہمان قراء کرام
کی میزبانی کرتے اور پورے پاکستان میں انٹرنیشنل محافل حسن قرات کا اہتمام
کرتے ہیں، خود سکول ٹیچر ہیں اور ایک عرصہ تک کھتری مسجد میں بطور مؤذن و
نائب خدمات بھی سر انجام دی ہیں۔ قاری صاحب کے بیٹے، اویس، حذیفہ اور حنظلہ
سے بھی ملاقات ہوئی، بڑا بیٹا ترکیہ گیا ہوا تھا۔ ماشاء اللہ قاری صاحب کی
طرح ملنسار بچے ہیں اللہ پاک لمبی عمر سکھ صحت والی دے اور ماں باپ کا
فرمانبردار بنائے رکھے آمین۔ رات قاری صاحب کے ہاں ہی گزاری، صبح ناشتہ
کرکے اجازت لی اور اپنی اگلی منزل کشمیر کالونی کی طرف بڑھ گیا جہاں ہمارے
قریبی عزیز جن کو ہم سب استاد صاحب کہہ کے مخاطب کرتے علامہ غلام علی
سیالوی صاحب اقامت پذیر ہیں۔ کراچی آؤں اور ان کی زیارت نہ کروں یہ ممکن ہی
نہیں۔
آج جو میں کچھ الفاظ لکھ لیتا ہوں یہ انہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے اور
دوسرے چچا علامہ ریاض الحسن سیالوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ (گلستان کالونی
فیصل آباد) ۔ یہ دونوں ہستیاں والد گرامی کے قریبی عزیز ہونے کے ساتھ ساتھ
گہرے دوست بھی ہیں اور ماشاء اللہ تینوں ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں(میرا
یقین ہے کہ استاد کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا) ۔یہ دونوں ہستیاں ایسی ہیں کہ
جنہوں نے مجھے ہمیشہ اچھا لکھنے پر شاباش دی ہے اللہ پاک علامہ غلام علی
سیالوی صاحب کا سایہ ہم پر دراز فرمائے اور علامہ ریاض الحسن سیالوی رحمۃ
اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے کہ جب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں منعقدہ
شیخ الاسلام کانفرنس کی رپورٹ لکھی جو ماہنامہ کاروان قمر کراچی میں پرنٹ
بھی ہوئی تو چچا ریاض الحسن سیالوی علیہ الرحمۃ نے ایک ہزار روپیہ انعام
عطا فرمایا تھا(الحمدللہ)۔
جس وقت کشمیر کالونی پہنچا تو یہ اتوار کا روز تھا اور علامہ صاحب صدر جانے
کی تیاری میں تھے کیونکہ وہاں پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے، مجھے فرمایا
کہ میاں آپ کے پاس وقت ہے تو چلیں بازار؟ میں نے جھٹ سے ہاں کی اور علامہ
صاحب کے ہمراہ پرانی کتابوں کے بازار کا وزٹ کرنے کیلئے صدر کی جانب روانہ
ہو گئے(یوں موٹر سائیکل کو کراچی کا علاقہ صدر بھی دیکھنے کا موقع ملا)۔ وہ
کتب جو پرانی بھی فیصل آباد میں آدھی قیمت سے کم نہیں ملتیں یہاں پچاس، سو
اور دوسو روپے کی دستیاب تھیں وہ بھی بہت اچھی حالت میں۔ علامہ صاحب شاید
روٹین سے یہاں تشریف لاتے ہیں اس لیے اکثر اسٹال والے ان کو جانتے تھے۔ جو
جو کتب پسند آئیں وہ اکٹھی کرکے انہی کو کہتے اس کو دھاگہ باندھ دو اور آگے
بڑھ جاتے، بازار کا ایک چکر لگایا اور اچھی خاصی کتب کا انتخاب فرما لیا۔
اگر آدھی قیمت بھی لگاتے تو بیس، پچیس ہزار تک بنتیں لیکن یہاں چھ ساتھ
ہزار میں (شاید) خریداری ہو گئی۔ کتب لیکر واپس گھر پہنچے تو کھانا پک کے
تیار ہو چکا تھا۔ آپ کے دونوں بیٹے محمد معین الدین الازہری سیالوی اور
محمد قمر الدین سیالوی بھی بہت مؤدب اور سلیقہ شعار ہیں، مطالعہ اور لکھنے
کی عادت والد گرامی سے ورثہ میں پائی ہیں ماشاء اللہ۔ کھانا کھاتے ہی نماز
ظہر کا وقت ہوگیا اور نماز ظہر ادارہ معارف القرآن کے سامنے بنی عظیم الشان
جامع مسجد اسلامیہ میں باجماعت ادا کی جس کے پیش نماز نوجوان علامہ
صاحبزادہ محمد معین الدین الازہری سیالوی تھے۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
|