یکسوئی کا حامل جب کسی کی طرف
اپنا خیال روانہ کرتا ہے تو مطلوبہ شخص ہزاروں لاکھوں میل دور سے خیال وہم
یا گمان کی صورت میں محسوس کرلیتا ہے لیکن ان وتوں کو پانے کیلئے ضروری ہے
کہ انسان یکسوئی کے اس درجے پر پہنچ چکا ہو کہ جس کام جس غرض کیلئے یکسو
ہوجائے تو ایسا غرق ہوجائے
ٹیلی پیتھی اس علم کا نام ہے جس کے ذریعے دو انسان بغیر کسی مادی وسیلے کے
ایک دوسرے کے ذہنوں سے رابطہ کریں‘ چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی دور کیوں
نہ ہوں۔
عام لوگ اس بات کو طنزو مزاح ضرور سمجھیں گے لیکن علوم مخفی کے طالب علم اس
کے اثرات کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس وقت کو حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کرنے
سے گریز نہیں کرتے‘ بات شمس بینی کی آجائے تو نازک آنکھوں کو چمکتے دھکتے
سورج پر یوں گاڑھ دیتے ہیں کہ آنکھ جھپکنا بھول جاتے ہیں تو کبھی یہ کھیل
شمع کی لو سے کھیلنا شروع کردیتے ہیں اور کبھی سانس کی مشقوں میں ہر روز
حالت نزع کو برداشت کرنے کیلئے سینہ تان لیتے ہیں۔
ہاں ایسا ہی ہے علوم مخفی کے طالب علموں کی کارگزاریاں بیان کی جائیں تو
عام انسان انگشت بدنداں ہوجاتا ہے۔
ان علوم پر غور کیا جائے تو یہ صرف اور صرف انگریزی کے نام ہی ہیں مثلاً
ٹیلی پیتھی‘ ہپناٹزم‘ مسمریزم جس سے تاریخ سے بے خبر لوگ یہ نتیجہ اخذ
کرلیتے ہیں کہ شاید یہ علوم انگریزوں کی ایجاد ہونگے لیکن ایسا ہرگز نہیں
ہے۔
جدید سائنس ان قوتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے کہ کمالات انسانی دماغ میں
واقع دو غدود پینل گلینڈ اور پچوٹری گلینڈ کے بیدار ہونے سے حاصل ہوجاتے
ہیں۔ جبکہ ہمارے اسلاف صدیوں پہلے ان رازوں سے آگاہ تھے جسے جدید سائنس
پینل گلینڈ کہتی ہے صوفیاءاسلام نے صدیوں پہلے اسے لطیفہ خفی کے نام سے ذکر
کیا ہے اور پچوٹری گلینڈ کو ہمارے اسلاف نے لطیفہ اخفی کے نام سے یاد کیا
ہے۔
ہمارے بزرگوں نے ان دو غدود کے علاوہ بھی بہت کچھ بتایا ہے جس سے جدید
سائنس تاحال بے خبر ہے اور اگر کچھ خبر بھی ہے تو مختلف ذرائع سے معلوم
کرلیا گیا ہے۔
قوت ٹیلی پیتھی کا حصول ممکن ہے بشرطیکہ انسان میں مستقل مزاجی اور صبر کا
مادہ ہو‘ اتنی بڑی قوتیں ہفتوں اور مہینوں میں حاصل نہیں کی جاسکتیں اس
کیلئے ایک طویل عرصے کی ریاضت کی ضرورت ہے۔
ان قوتوں کو حاصل کرنے کیلئے جو ریاضتیں کی جاتی ہیں اسے عرف عام میں
یکسوئی یا ارتکاز توجہ کی مشقیں کہتے ہیں۔ ارتکاز توجہ اور یکسوئی سے انسان
اپنی تمام تر توجہ کو کسی ایک نکتہ پر قائم کرتا ہے جب توجہ کسی نکتے پر
قائم ہوجاتی ہے تو انسان بے شمار خرق العادات کا حامل بن جاتا ہے مثلاً کشف
القلوب‘ تھاٹ ریڈنگ‘ توجہ سے سلب امراض اور قوت خیال کے ذریعے لوگوں کو
اپنا ہم خیال بنانا۔
یکسوئی کا حامل جب کسی کی طرف اپنا خیال روانہ کرتا ہے تو مطلوبہ شخص
ہزاروں لاکھوں میل دور سے خیال وہم یا گمان کی صورت میں محسوس کرلیتا ہے
لیکن ان باتوں کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ انسان یکسوئی کے اس درجے پر پہنچ
چکا ہو کہ جس کام جس غرض کیلئے یکسو ہوجائے تو ایسا غرق ہوجائے کہ آس پاس
کی خبر نہ رہے‘ یکسوئی کی اس درجہ پر پہنچنے کیلئے ماہرین فن نے بے شمار
مشقیں بیان کی ہیں۔ مثلاً آئینہ بینی‘ شمع بینی‘ دائرہ بینی‘ ماہتاب بینی‘
آفتاب بینی‘ جور بینی وغیرہ وغیرہ ان تمام بینوں کا مقصد اشغراق حاصل کرنا
ہے ان مشقوں میں کامیابی تب ہوتی ہے جب یہ مشقیں یکسوئی سے کی جائیں اگرچہ
یہ مشقیں یکسوئی کیلئے ہی کی جاتی ہیں لیکن یکسوئی سے مشقوں کا ہونا شرط
اول ہے۔
موجودہ دور میں ہرطرف غم و الم کے تذکرے‘ بیروزگاری و مہنگائی کے چرچے نے
لوگوں میں اتنی قوت باقی نہیں چھوڑی کہ توجہ چند سیکنڈ کیلئے بھی قائم ہونا
مشکل ہے اس لیے احقر نے علیم ذات کے فضل و کرم سے ایک ایسا کورس ترتیب دیا
ہے جس سے ہر شخص مستفید ہوسکتا ہے۔ (انشاءاللہ)
علم یکسوئی کا سبق
صبح کی نماز سے قبل یا بعداز نماز حاجت ضروریہ سے فارغ ہوکر شمال کی طرف
منہ کرکے ناک کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس کھینچتے رہو جب مزید کھینچنے کی
گنجائش نہ ہو تو سانس کو سینے میں قید کرلو‘ جتنی آہستگی سے سانس کھینچا
تھا ایسی ہی آہستگی سے سانس روکے رکھو‘ جب مزید روکنا دشوار ہو تو آہستہ
آہستہ سانس ناک کے ذریعے خارج کرو یہ ہوا ایک چکر۔ اب تھوڑی دیر سستا لو
دوبارہ یہ عمل کرو‘ اسی طریقے سے پانچ چکر پورے کرلو جب پانچ چکر سانس کے
پورے ہوجائیں اب آنکھیں بند کرکے تمام تر توجہ دل کی طرف مبذول کرلو اور یہ
تصور کرو کہ میرے دل پر ایک شمع جل رہی ہے اندازاً یہ مشق آدھا گھنٹہ کریں۔
اسی طرح رات کو سوتے وقت اسی طریقے سے عمل کریں یعنی سانس کی مشقیں اور
مراقبہ (تصور شمع) صبح اور شام کرنا ہے۔ ان مشقوں سے آپ کی ذہنی
صلاحیتیں‘خوابیدہ قوتیں بیدار ہونا شروع ہوجائینگی۔ یہ مشقیں نہ صرف علوم
مخفی کے طالبعلموں کیلئے ہیں بلکہ ان مشقوں سے انسان کی بے شمار نفسیاتی
بیماریاں بھی رفع ہوجاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر اہم اور خوشی کی بات یہ ہے
کہ ان مشقوں سے انسان کے اندر مضبوط قوت ارادی بیدار ہوجاتی ہے جس کے بل
بوتے پرانسان اپنی بہت سے بری عادات‘ جنسی کمزوری‘ نشے کی عادت پر قابو
پالیتا ہے۔ اگرچہ علوم مخفی کے طالبعلموں نے سانس کی مشقیں صرف اور صرف
روحی قوتیں بیدار کرنے کیلئے کی ہیں لیکن متواتر تجربات و مشاہدات سے یہ
بات سامنے آئی کہ سانس کی مشقیں جسمانی بیماریوں کیلئے تریاق ثابت ہوئیں‘
معدے کے مختلف امراض میں یہ مشقیں جادوئی مانند اثر کرجاتی ہے۔ سانس کی
مشقوں سے خون میں سرخ و سفید ذرات کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جو کہ حسن
کیلئے بنیاد ہے اسی لیے سانس کی مشقیں کرنے والوں کا چہرہ سرخ و سفید
ہوجاتا ہے۔
ان مشقوں سے دماغ بے حد طاقتور ہوجاتا ہے‘ قوت حافظہ یادداشت بے حد تیز
ہوجاتی ہے‘ سانس کی مشقوں کے فوائد قلم بند کرنا احقر کے بس کی بات نہیں بس
اس کی افادیت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تصوف کے تمام
سلسلوں میں اسے شامل کیا گیا ہے۔
قارئین! جو کچھ پیش کیا گیا ہے اس کی قدر کیجئے یہ کتابوں کی باتیں نہیں
ہیں‘ سنی سنائی‘ افسانے نہیں بلکہ ذاتی تجربات و مشاہدات ہیں۔ جو لوگوں کو
بہت کچھ کھونے کے بعد مل جاتے ہیں۔ |