عوام الناس میں معروف مفروضاتِ محض

قانون قدرت ہے کہ جب کسی جاندار مثلاً انسان کی روح اُس کے قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے تو کچھ وقت بعد جسد خاکی میں بوسیدگی و شکستگی کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ ہمارے مذہب اسلام میں اسی وجہ سے میت کی تجہیز و تکفین میں تاخیر کی ممانعت آئی ہے اور جلد از جلد اُسے سپرد خاک کر دینے کی تاکید کی گئی ہے ۔ تاہم کسی بھی وجہ سے میت کو دفنانے میں دیر ہونے لگے یا کسی کو موت غیر معمولی حالات میں آئی اور لاش لاوارث پڑی رہ گئی تو پھر جسد خاکی کی بوسیدگی کا جو عمل قبر کے اندر وقوع پذیر ہونا تھا وہ زمین کے اوپر ہی قرار پانے لگتا ہے ۔ جسم کا گوشت گلنے سڑنے لگتا ہے پیٹ پھول جاتا ہے اور سخت قسم کی بدبو بھی پیدا ہو جاتی ہے کیڑے بھی پڑ جاتے ہیں ۔ یہ قدرت کا بنایا ہوا نظام ہے اور اس میں کس قدر حکمت پوشیدہ ہے کہ چاہے قبر کے اندر یا باہر انسانی جسم کی تمام آلائشیں ایک مدت کے بعد تحلیل ہو جاتی ہیں صرف خشک ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں اور اس میت سے منسلک ماحولیاتی آلودگی صفر رہ جاتی ہے اور کرہء ارض پر زندگی رواں دواں رہتی ہے ۔
مُردہ انسانی جسم کی یہ ابتری و فرسودگی خدا ہی کے مرتب کردہ نظام کا حصہ ہے اور کسی بھی متوفی کے اعمال بد کی دلیل نہیں ہے چاہے کتنا بھی نیک انسان ہو مرنے کے بعد اس کا جسم گلنے سڑنے کے عمل سے گزرے گا اگر کوئی خاص حالات کی وجہ سے مُردہ جسم بے گور و کفن پڑا رہ گیا گل سڑ گیا تو اس بنیاد پر اس میت کی اس حالت کو اس کے گناہوں کی سزا سمجھنا کم عقلی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ غور کریں تو اس سے بھی کہیں زیادہ گنہگار و بدکار بھی اسی انجام کے مستحق تھے وہ نشان عبرت نہیں بنے تو کیا یہ ان کی سرخروئی کی دلیل ہوگی؟
بہت سے لوگ حادثات کا شکار ہو کر ایک دردناک موت سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔ آتش زنی یا برقی صدمہ یا غرق آبی کوئی ٹریفک حادثہ جس کے نتیجے میں جسم بُری طرح کچلا گیا یا کسی بھی غیر طبعی موت یا مہلک بیماری کے باعث میت یا چہرے کا ناقابل شناخت ہو جانا تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ اُسے اس کے گناہوں کی سزا اسی دنیا میں اس شکل میں ملی ۔ البتہ کوئی اعلانیہ ظالم ہو اور عبرتناک انجام کو پہنچے تو وہ اس کے ہاتھوں ستائے مظلوم لوگوں کے لئے باعث تشفی ہو سکتا ہے مگر ایسی مثالیں بہت کم اور برائے نام ہی ملیں گی ۔ سارے فیصلے یہیں نہیں ہو جاتے روز محشر کا بھی کوئی مصرف ہے ۔
کبھی کبھار قبر کی کھدائی کے دوران سانپ بچھو یا دیگر حشرات نکل آتے ہیں تو لوگ اسے میت کے جہنمی ہونے پر قیاس کرتے ہیں یہ بھی جہالت اور ایک برصغیری مغالطے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یہ مخلوقات زمین میں ہی رہتی ہیں اُن کے ٹھکانوں پر کدال چلتی ہے تو باہر نکل آتی ہیں اُسی وقت پیدا نہیں ہو جاتیں ۔ اگر زمینی جانداروں کا قبر کی کھدائی کے دوران نمودار ہو جانا میت کے جہنمی ہونے کی دلیل ہوتی تو اتنے اتنے ظالم اور ذلیل لوگوں کی تو پتہ نہیں کتنی ہی بار قبر کھودنی پڑتی ان بد بختوں کو تو دفن کرنا ہی نا ممکن ہو جاتا ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک سے ایک سیاہ کار و خطا کار کسی مکافات و مؤاخذے کا شکار ہوئے بغیر ٹھاٹ کی زندگی بسر کرتے ہیں اور باٹ کی موت مر جاتے ہیں کیونکہ یہ دنیا دار العمل ہے دار الجزاء و سزا نہیں ۔ اعمال کی جزا و سزا اسی دنیا میں ملنا ضروری نہیں ہاں قبر اور عالم برزخ میں حاصل ہونے والی راحتوں یا سختیوں کا دار و مدار اعمال پر ہی ہو گا ۔

✍🏻 رعنا تبسم پاشا

 

رعنا تبسم پاشا
About the Author: رعنا تبسم پاشا Read More Articles by رعنا تبسم پاشا: 267 Articles with 2026232 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.