محمود الحسن اختر ۔۔۔ایک مثالی معلم
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی
محمود الحسن اختر ایک مثالی معلم
جنہوں نے اپنے منصب کی لاج رکھی ۔جہالت کی تاریکیوں کو علم کی روشنی سے ختم کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اس سلسلے میں درس وتدریس سے وابستہ افراد کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔پیشہ پیغمبری کی لاج رکھنے والوں کی قدر ومنزلت ان کے شاگردوں کے دلوں میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ نوجوان نسل کو قوم کی ریڑھ کی ہڈی، مستقبل کی روشن امید اور پاکستان کا قابل فخر شہری قرار دینے والے محمود الحسن اختر نے بھی اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے نسل نو کو علمی میدان میں آگے اور آگے بڑھانے میں گزاردی۔ وہ ایک بہترین معلم ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے منتظم بھی تھے۔ اقتصادی اور تعلیمی مسائل پر ان کی گہری نظر تھی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب معماران قوم کی ملک کو اشد ضرورت تھی۔ ماسٹر عجب گل کا گھرانہ علم کی دولت سے مالا مال تھا اور جہالت کی تاریکیوں میں روشنیاں بکھیر رہا تھا، وہ ماسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث اور فقہ کے عالم بھی تھے۔1926 ء میں ان کے گلستان میں ایک ننھی کلی کھلی جس نے چہار سو خوشبوئیں بکھیر دیں۔ جنہیں پشاوری محمود الحسن اختر کے نام سے جانتے ہیں۔ افغان قوم کے اس چشم و چراغٖ کی مادری زبان پشتو تھی جبکہ انگلش، اردو اورہندکو پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم میونسپل کمیٹی پرائمری سکول کریم پورہ سے حاصل کی جبکہ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 پشاور سٹی سے پاس کیا۔ اسی طرح گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعدیونیورسٹی آف پشاور سے اردو اور پشتو میں ماسٹر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
چونکہ ان کو بچپن ہی سے پیشہ معلمی سے لگاؤ تھا اسی لئے انہوں نے کالج آف ایجوکیشن سے بی ایڈ کا امتحان بھی پاس کیا۔گورنمنٹ ٹیچرز ٹریننگ کالج سے جے وی بھی پاس کیا اور یوں 16 اپریل 1948 ء کو گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 پشاور سٹی میں ٹیچر بھرتی ہو کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔28 نومبر 1952 ء کو ان کا تبادلہ گورنمنٹ ہائی سکول شبقدر میں ہوا۔1953 میں پھر نمبر1 پشاور شہر سکول واپس آگئے۔1955 ء میں گورنمنٹ مڈل سکول تاروجبہ میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر ترقی حاصل کی۔ پھر آپ کا تبادلہ مڈل سکول پخہ غلام ہو گیا اور 14 سا ل اسی سکول میں رہے اور سکول کی تعلیمی ترقی کے لئے نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ جس کی بناء پر صوبائی حکومت نے انہیں 1973 ء میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز شماریات صوبہ سرحد مقرر کر دیا۔
چونکہ آپ ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل ٹیچر تھے اور تعلیمی ماحول سے لگاؤ بھی تھا لہٰذا آ پکو1977ء میں گورنمنٹ ہائی سکول سول کوارٹرز پشاور کا پرنسپل مقرر کر دیا گیا۔ یہاں آپ مسلسل چھ سال تک تعینات رہے اور سکول ہٰذا کا تعلیمی معیار بلند کیا اور رزلٹ 100 فیصد تک جا پہنچا۔
حقیقت میں وہ حیوان ناطق کو خود شناس، خدا شناس اور حق شناس بنانے کا گر جانتے تھے۔ وہ طلباء کی ذہنی، جسمانی، جذباتی، سماجی اور نفسیاتی تقاضوں سے واقف تھے اور نصابی وہم نصابی سرگرمیوں کی بدولت بچوں کے کردار ورویوں میں مثبت تبدیلی لائے جو کسی بھی استاد کے لئے کسی نسخہ کیمیا سے کم نہیں۔ وہ سکول کے بچوں کے درمیان قرات ونعت کے مقابلے کرواتے، محفلیں سجاتے، باصلاحیت بچوں کو سٹیج پر لاتے۔ انکی کوچنگ کرتے انہیں پالش کرتے اور پھر یہی بچے شہر ہفت زباں کے بڑے بڑے نعت خواں اور قاری صاحبان کے روپ میں جلوہ گر ہوتے جہاں تک کہ آپ کے اوصاف حمیدہ کا تعلق ہے تو وہ ایک خاکسار، ملنسار مگر رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ شاگردوں کو دوستانہ ماحول میں پڑھاتے، ان کا طریقہ تدریس بھی اپنی مثال آپ تھا۔ وہ ایک شفیق اور مہربان کے کردار میں ڈھل کر بچوں کی تعمیر سیرت کرتے، یہی وجہ تھی کہ شاگرد اور ان کے والدین بھی آپ کے گرویدہ ہو گئے اور ان کے گن گاتے۔ آج بھی مختلف تعلیمی اداروں میں آپ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی سکولوں کی اپ گریڈیشن بھی کی، وہ سکولوں کے لئے قطعہ اراضی لینے کے لئے لو گوں کو راضی کرتے۔ حکومت سے منظوری حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے اور بطور سوشل ورکر بھی تعلیمی اداروں کی دیکھ بھال کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک اچھے ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مثالی آفیسر اور منتظم بھی تھے۔ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعلیٰ روایات قائم کیں، ان کی ایمانداری ودیانتداری کا یہ عالم تھا کہ وہ روزہ رکھ کر سکولوں کے معائنے کے لیے جایا کرتے، اچھے کام پر شاباش دیتے اور کمزوری پر اصلاح کر تے۔ وہ اپنے سٹاف اور شاگردوں کی غمی و خوشی میں بھی شرکت کرتے، دراز قد اور بھاری جسم والے محمودالحسن ایک متوکل،جلالی وہمدرد انسان تھے۔ صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے۔ یہاں تک کے تہجد بھی پابندی سے پڑھتے۔ وہ دو قومی نظریہ پر یقین رکھتے، قائداعظم کے فرمودات اور حکیم الامت کے افکار کو مشعل راہ بنایا۔ انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا،
عہد شباب میں قدم رکھتے ہی تحریک پاکستان میں بھی حصہ لیا، انہوں نے اپنی مٹی اپنی ثقافت اپنی تہذیب کو شاعری کے ذریعے آگے منتقل کیا۔ لیکن شومئی قسمت کہ ان کی شاعری منظر عام پر نہ آسکی، وہ اختر تخلص رکھتے تھے۔ 28سال سروس کرنے کے بعد بالآخر 13 فروری 1984 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کی وفات سے گیارہ ماہ پہلے شریک حیات بھی اس فانی دنیا سے چل بسی تھیں۔ اپنے آبائی قبرستان حسین آباد میں سفید چادر اوڑھے گہری نیند سو رہے ہیں۔ ان کی وفات پر اس دور کے صوبائی وزیر تعلیم مولانا عبدالباقی اور محکمہ تعلیم کے سربراہ محمد ادریس خان بنفس نفیس تشریف لائے تھے، مولانا بجلی گھر نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس موقع پر ڈائریکٹر سکول نے کہا تھا " وہ درویش آدمی تھے، دنیا کے بھی اور آخرت کا بھی "۔آپ کے دو بیٹے ہیں، صاحبزادہ حامد محمود ایڈیشنل ڈائریکٹر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے 31 جولائ 2024 کو ریٹائر ہوئے اور دوسرے صاحبزادہ طارق محمود ایس ایس ٹی جنرل پوسٹ سے ریٹائر ہوئے، |
|