پاکستان اور امریکہ میں کئی
سالوں سے جاری ہنی مون ایک مرتبہ پھر ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور نوبت طلاق
تک پہنچ چکی ہے ۔آل پارٹیز کانفرنس بلائے کافی دن ہو چکے ہیں لیکن ماحول
میں ابھی تک کافی گرما گرمی پائی جا رہی ہے چونکہ اس کی وجہ کسی حد تک
حقانی نیٹ ورک بھی بنا ہے اس لیے ضروری ہے کہ صورت حال کا جائزہ لینے سے
پہلے یہ جانا جائے کہ درحقیقت حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟ اس کی لیڈر شپ میں کون
کون شامل ہیں اوران کے مقاصد کیا ہیں۔اس کے علاوہ اور بہت سے اہم سوالات
بھی سامنے آ رہے ہیں ۔دفائی تجذیہ نگار اور عوام کی ایک بڑی اکثریت پاکستان
اور امریکا کے بیانات اور صورت حال پر تشویش کا شکار نظر آرہی ہے اس مضمون
میں بھی مختلف رپورٹس ، تجزیات اور حقائق کا جائزہ لینے کے بعد اصل صورت
حال تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ صورت حال کا مجموعی طور پر جائزہ
لیا جا سکے بات کا آغاز تب ہو ا جب امریکا نے حقانی گروپ سے پاکستان کے
تعلقات کا الزام لگا کر افغانستان میں ہونے والی کارروائیوں میں براہ راست
پاکستان کو ملوث کرتے ہوئے پاکستانی علاقوں میں فوجی کارروائی کی دھمکی دے
دی ۔ چونکہ بات حقانی گروپ سے شروع ہوئی اس لیے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری
ہے کہ حقانی گروپ در اصل کیا ہے ۔
حقانی گروپ کیا ہے؟
حقانی گروپ افغان طالبان کا قریبی سمجھا جاتا ہے بلکہ اب تو انہوں نے یہ
اعلان بھی کر دیا ہے کہ ہم افغان طالبان ملا عمر کے گروپ کا حصہ ہیں اگر
ملا عمر مذاکرات کرتے ہیں تو وہ ہمیں بھی قبول ہوں گے۔ حقانی گروپ کے
سربراہ مولوی جلال الدین حقانی اور ان کا بیٹا سراج الدین حقانی ہیں۔ ان کا
نیٹ ورک افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے
کہ 1S1کے حقانی نیٹ ورک سے رابطے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک
امریکہ کا ہی تیار کردہ ہے روس کے خلاف جنگ میں مولوی حقانی کو وائٹ ہاﺅس
بلایا گیا اس وقت رونالڈریگن صدر تھے۔ 1980ءمیں جلال الدین حقانی امریکہ کے
پسندیدہ کمانڈر تھے اور انہیں CIAکی مکمل حمایت حاصل تھی۔ حقانی نیٹ ورک کے
اہم لیڈروں میں جلال الدین حقانی، سراج الدین حقانی ان کے چھوٹے بھائی بدر
الدین حقانی، اور نصیرالدین حقانی شامل ہیں۔ جب طالبان حکومت بنی تو جلال
الدین حقانی کو اہم سیاسی عہدے پر فائز کیا گیا جلال الدین حقانی کی اہمیت
اور پاکستان کے لیے ان کی کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
طالبان کے سخت مخالف سمجھے جانے والے اور امریکہ کے حمایتی صدر پرویز مشرف
نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی کا
حصہ ہیں ہمیں کوئی یہ نہ بتائے کہ ہمیں دہشت گردوں سے کس طرح نمٹنا چاہئے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حقانی نیٹ ورک نے فاٹا میں
متعین سیکورٹی فورسز اور وزیر ستان میں جنگجوﺅں کے درمیان محاذ آرائی کے
خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہ جنگجو اس نیٹ ورک کے رکن تھے جس نے اس
خودمختار علاقے کا کنٹرول سنبھال رکھا تھا اور سکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ
اور ان کے اغوا اور قتل میں ملوث تھا۔ حقانی گروپ القاعدہ کے گروپ کے غیر
ملکی شدت پسندوں کے خلاف فورسز کے شانہ بشانہ لڑا وزیرستان امن معاہدوں سے
حقیقت میں اس نیٹ ورک کے کمانڈر اپنے سابق اتحادیوں کے خلاف ہو گئے اور اس
حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حقانی گروپ سے تعلقات نے 2009ءمیں
تحریک ِ طالبان کے کمانڈر بیت اﷲ محسود کی جنوبی وزیرستان پرگرفت توڑنے میں
مدد دی تھی۔
قارئین! حقانی گروپ امریکہ کا تیار کردہ گروپ ہے لیکن وہ پاکستان کے مفاد
کے خلاف نہیں۔ ان کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں اور انہیں پاکستان میں
ٹھکانوں کی ضرورت نہیں جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں ہیں اس کی
ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ امریکہ کا تیار کردہ یہ گروپ ملا عمر کی
سربراہی میں امریکہ کے ہی خلاف سرگرم عمل ہے اور اس نے کئی مواقع پر
پاکستان کی مدد بھی کی ہے۔ وزیرستان امن معاہدے میں بھی اس گروپ کا اہم
کردار تھا، یہی بات امریکہ کو کھٹک رہی ہے۔
امریکہ.... پاکستان کا دوست یا منافق؟
قارئین! پاکستان اور امریکہ کے تعلقات قریباً64 سال میں دلچسپ صورتِ حال کا
شکار رہے ہیں پاکستان اور امریکہ کی سفارتی دستاویز بھی اہم انکشافات کرتی
نظر آتی ہیں چونکہ 64سالہ تاریخ کا مختصر سی جگہ پر تذکرہ کرنا ممکن نہیں
لہٰذا اہم واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا
جاسکے کہ امریکہ دوست ہے یا منافق؟
امریکا کی سب سے بڑی منافقت تو اس وقت سامنے آگئی جب اس نے پاکستان کو
اعتماد میں لیے بنا از خود کارروائی کرتے ہوئے ایبٹ آباد میں آپریشن کیا ۔
ایک طرح سے یہ ایک جنگ کا اعلان تھا کیونکہ امریکا بغیر اجازت خود مختار
پاکستان کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے یہ آپریشن کر رہا تھالیکن اس کے
علاوہ بھی امریکہ منافقت سے کام لیتا رہا ہے ۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ کیری لوگربل پر کافی بحث ہوئی اور ایک ایشو بنانے
کے بعد خاموشی چھا گئی اس کیری لوگربل کی ترمیم شدہ حالت میں امریکی سینٹ
سے متفقہ طور پر منظور کیے جانے کے بعد سے اب تک دو سال گزر چکے ہیں یاد
رہے اس بل کا اعلان کرنے والا امریکی صدر بارک اوبامہ تھا جس نے
ستمبر2009ءکو یہ اعلان کیا لیکن پاکستان کو ابھی تک اس کا ایک بڑا حصہ نہیں
دیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کا مالی سال ستمبر میں ختم ہو چکا
ہے لیکن پاکستان کو ملنے والے ڈالر تا حال نظر نہیں آرہے۔ امریکی صدر نے جو
اعلان کیا تھا اس کے مطابق پاکستان کو ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر کی مالی امداد
5سال تک ملنی ہے۔ بل میں بھارت سے تعاون کی شرط ختم کر کے ترمیم شدہ بل میں
دہشت گردی کے خلا ف پڑوسی ممالک سے تعاون کی شرط شامل کی گئی ہے اور ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے کانگریس کی سرکاری دستاویز اس
بات کا انکشاف کرتی ہے کہ 9/11سے لے کر اب تک فوجی اقتصادی امداد کی
مدمیں18ارب ڈالر موصول ہوئے جبکہ دوسری طرف پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی 23فروری
2010ءکی رپورٹ جسے بھارت کے بڑے اخبارات دی ٹائمز آف انڈیا اور دی ہندو
وغیرہ نے امریکی کانگریس کی دستاویز میں دیے گئے اعدا دو شمارکا ذکر کیا ۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق امریکی کانگریس کی دستاویز کے مطابق نیویارک
میں ہونے والے 9/11کے حملوں کے بعد اسلام آباد نے سویلین امداد کی مدمیں
6ارب ڈالر وصول کیے جبکہ اوبامہ انتظامیہ نے تازہ ترین سالانہ بجٹ میں فوجی
امداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر اور سو ملین امداد کی مد میں ایک ارب40کروڑ
ڈالر تجویز کی ہے۔ اس طرح نائن الیون کے بعد پاکستان کو ملنے والی
امداد20ارب 70کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ یہ اعداد وشمار محکمہ دفاع، داخلہ
وزراعت اور فوجی امداد جس میں کولیشن سپورٹ فنڈ کے طور پر پاکستان کو 7ارب
34کروڑ 50لاکھ ڈالر ملے جبکہ اس فنڈ کو غیر ملکی امداد تصور نہیں جاتا
کیونکہ یہ وہ رقم ہے جو افغانستان میں امریکی فوجی آپریشن کے تعاون کے طور
پر پاکستان کو دی گئی۔ بھارت کی سرکاری نیوز ایجنسی فروری 2010ءکی رپورٹ کے
مطابق اس کے بعد غیر ملکی فوجی امداد کی مد میں 2ارب 16کروڑ 40لاکھ ڈالر
ملے، اوبامہ کے اقتدار میں آنے کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے اب تک پاکستان
انسداد دراندازی فنڈ کے لیے ایک ارب بیس کروڑ ڈالر 2005ءمیں اور 70کروڑ
ڈالر2010ءمیں دے اور اسی مد میں 2011ءکے لیے اوبامہ نے کانگریس کو پاکستان
کے لیے ایک ارب 20کروڑ ڈالر فراہم کرنے کی تجویز دی۔
قارئین اعداد و شمار اس قسم کی معلومات کے لیے خاصے اہم ہوتے ہیں لیکن اگر
اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکل کردیکھیں تو امریکہ اور پاکستان
کا پہلا دوطرفہ دفاعی معاہدہ19مئی 1954ءکو ہوا تھا جس کے تحت 1964ءتک
اقتصادی امداد کی مد میں2ارب 50کروڑ ڈالر اور 70کروڑ ڈالر اقتصادی امداد دی
تھی۔ اکتوبر1999ءمیں پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد بند کر دی گئی۔
1954ءکے دفاعی معاہدے سے لے کر اب تک چھٹی مرتبہ اس طرح کیا گیا۔ اس وقت کے
آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت گرانے کے لیے
بغاوت کی جبکہ امریکی حکومت نے سیکشن508فارن اپرا پرایشن ایکٹ کے تحت
پابندیاں عائد کیں جن میں غیر ملکی فوجی امداد اور اقتصادی امداد پر
پابندیاں شامل تھیں۔1991ءسے2001ءتک پاکستان کو ملنے والی اقتصادی امداد میں
42کروڑ90لاکھ ڈالر اور فوجی امداد میں 52لاکھ ڈالر کمی کر دی گئی۔1998ءمیں
نوازشریف کے دور حکومت میں ایٹمی دھماکہ کرنے پر امریکہ ایک مرتبہ پھر
پاکستان سے ناراض ہو گیا اور امریکی صدر نے اپنا پاکستان کا دورہ منسوخ کر
دیا اور کلین ترمیم کے تحت امریکی پابندیوں نے پاکستان کو کریڈیٹ کی فراہمی
، فوجی اشیاءکی فروخت اور معاشی امداد تک محدود کر دیا۔ اسی
طرح1990ءمیںافغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے بعد میری یہ لیلہ ترمیم کے
تحت36کروڑ80لاکھ ڈالر کے فوجی آلات کی فراہمی کی اجازت دی گئی۔
دسمبر1979ءمیں افغانستان پر سویت یونین کی جارحیت کے خلاف امریکہ نے سویت
یونین کے خلاف مزاحمت اور اس کا اثرو نفوذ روکنے کے لیے 1980ءاور 1990ءکے
درمیان 2ارب 19کروڑ ڈالر کی فوجی امداد دی۔ اسی طرح اپریل1979ءاسلام آباد
کے ایٹمی پروگرام اور یورینیم افزووگی پراجیکٹ تعمیر پر خدشات کے پیش نظر
پاک امریکہ فوجی تعلقات میں تناﺅ آگیا۔1971ءمیں پاک بھارت جنگ کے دوران
امریکہ نے پاکستان کی امداد بند کر دی تاہم 1972ءمیں محدود مالی امداد بحال
کی۔ امریکہ نے پہلی مرتبہ 1965ءمیں پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کی
امداد بند کی تھی۔
قارئین ان اعداد وشمار کو سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کا اندازہ
لگایا جا سکے کہ امریکہ نے جب کبھی امداد کا اعلان کیا تو اس کے پیچھے اس
کا اپنا کوئی مقصد ہوتا تھا جبکہ جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا امریکہ
اپنی امداد بند کرتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے۔ اس بات کا
اندازہ ایک عام قاری بھی لگا سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے یا پیٹھ
میں خنجر گھونپنے والا منافق؟
امریکہ کا مطالبہ.... حقیقت کیا ہے؟
امریکہ کی طرف سے سخت الفاظ میں پاکستان اور ISIپر الزام لگایا گیاکہ
ISIکابل میں ہونے والے حملے کو سپورٹ کر رہی تھی اور پاکستان سے مطالبہ کیا
گیا کہ شمالی وزیر ستان میں کارروائی کرے ۔امریکی فوج کے سربراہ مائیک مولن
کے بیان کے بعد کشیدگی مزید بڑھ گئی امریکہ نے صاف الفاظ میں کہا کہ اگر
پاکستان نے کارروائی نہ کی تو امریکہ خود حملے کرے گا یہ صاف الفاظ میں
پاکستان پر حملہ کرنے کا اعلان تھا جس کے بعد پاکستانی آرمی چیف نے دو بدو
جواب دینے کا فیصلہ کیا اور کور کمانڈرز کا اجلاس طلب کر لیا ۔ مجھے حاصل
ہونے والی ایک اہم رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ کور کمانڈرز کی
اکثریت حکومت کا تختہ الٹ دینے کی خواہش رکھتی ہے۔ 8ستمبر کو ہونے والے
اجلاس میں کور کمانڈروں کی اکثریت نے یہ دلیل دی کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے،
موجودہ صورتِ حال میں فوج کا ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ناگزیر ہو گیا ہے،
لیکن آرمی چیف جنرل کیانی نے حکومت کو مزید وقت دینے کی بات کی اور فوج کے
اقتدار پر قبضے کی تجویز مسترد کر دی۔
اس اجلاس کے بعد کور کمانڈرز نے اپنی جنرل آفیسرز کمانڈ(GOC) اور سٹیشن
کمانڈرز کو صورتِ حال سے آگاہ کیا.... پہلی بار ایسا ہوا کہ آئی ایس پی آر
نے اس اجلاس کی کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی، جس نے صورتِ حال کومزید
پُراسرار بنا دیا۔جنرل کیانی کی حکمت عملی سے حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک
ہم کوشش ختم ہو گئی لیکن باخبر سیاستدانوں کو یہ باور ہو گیا کہ اب اگر
انہوں نے سٹینڈنہ لیا تو امریکی امداد بھی ان کی کوئی مدد نہیں کر سکے گی۔
دوسری طرف پاک فضائیہ کو بھی چوکنا کر دیا اور جدید لڑا کا طیارے مغربی
سرحدوں پر پہنچا دیے گئے اور فضائی نگرانی کو بھی مزید موثر کر دیا گیا۔
آرمی چیف اور کور کمانڈروں کے طویل اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امریکہ نے
اگر جارحیت کی کوشش کی تواسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا پاک فوج کی طرف سے
واضح طور پر کہا گیا کہ ISIکے حقانی گروپ سے رابطے ضرور ہیں لیکن اس کا یہ
مطلب نہیں کہ ISIان کے ساتھ ہے۔ اس موقع پر پاکستان کی وزیر خارجہ حنار
بانی کھر نے بھی دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ حقانی نیٹ ورک امریکہ
کا بنایا ہوا ہے۔ حقانی نیٹ ورک امریکہ کا حلیف رہا ہے اور یہ بھی کہا جاتا
ہے کہ اسے CIAنے خود بنایا ہے۔ حنا ربانی کھر نے یہ بھی کہا کہ ISIکے نمبرز
ملنا کوئی بڑی بات نہیں CIAکے نمبرز بھی مل سکتے ہیں CIAکے بھی دنیا بھر
میں دہشت گرد تنظیموں سے رابطے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ہمارے
صبر کو نہ آزمائے الزامات کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان بھی آپشنز استعمال
کرنے کا حق رکھتا ہے مذاکرات کے دروازے بندبھی ہو سکتے ہیں۔ عسکری تجزیہ
نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر امریکہ کے لیے دھمکی ہے۔ پاکستان کے
وزیراعظم نے بھی آرمی چیف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آل پارٹیز کا نفرنس طلب
کرلی جبکہ دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی امریکہ کی جارحیت کے خلاف اعلانِ جنگ
کی سی کیفیت اور بیانات سامنے آنے لگے۔
قارئین! یہ سب اپنی جگہ لیکن اس بات کا جائزہ لینابہت ضروری ہے کہ آخر
امریکہ نے یہ مطالبہ کیوں کیا؟ اس کی اصل وجہ کیا تھی؟ اور اگر امریکہ کا
یہ حکم مان لیا جائے تو پھر کیا ہو گا؟ یہ وہ سوال ہیںجن جواب کی تلاش نے
ایک حیرت انگیز صورت ِحال سامنے رکھ دی۔
امریکہ نے جس حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اس کا تعلق ان چند
گروپوں سے ہے جو پاکستان مخالف نہیں اسی طرح حافظ گل بہادر اور ملا نذیر
گروپ بھی فی الحال پاکستان کے مفادات کے خلاف نہیں یہ وہ گروپ ہیں جو
پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کی کارروائیوںمیں ملوث تحریک طالبان
پاکستان کے خلاف کھڑے ہیں اور ان کاموقف بیت اﷲ محسود اور حکیم اﷲ محسود سے
کہیں مختلف ہے۔ اس وقت پاکستانی فوج کا ایک بڑا حصہ یعنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ
فوج اس وقت جنوبی وزیرستان سوات اور باجوڑ ایجنسی میں مصروف عمل ہے ان
حالات میں فوج کو ایک نئے محاذ پر دھکیلنا خود کشی کے مترادف ہے یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ جس حقانی نیٹ ورک کو پکتیا، پکتیکا خوست اور کنٹر وغیرہ تک
محدود رکھنے اور کابل تک رسائی سے باز رکھنے میں امریکی اور نیٹو فوج عاجز
نظر آرہی ہے انہیں چھیڑ کر پاکستان کی طرف متوجہ کرنا ایک خطرناک حرکت ہے۔
اگر ماضی کی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ
پاکستان کو ان گروپوں کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے جو فی الحال پاکستان کے
خلاف نہیں ہیں۔ دوسری طرف اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ امریکہ اب
افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کر چکا ہے ان حالات میں کیا پاکستان کے لیے یہ
ضروری نہیں کہ وہ تمام طاقتوں سے رابطے میں رہے اور غیر جانبدارانہ رویہ
اختیار کرے ورنہ امریکی انخلا کے بعد کوئی ایسا گروپ حکومت میں آگیا
پاکستان کو اپنا مخالف سمجھتا ہوا تو پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافے کا
باعث بنے گا۔
کیاISIکو حقانی یا دوسرے گروپوں سے رابطے میں رہنا چاہئے؟
قارئین! اس ساری صورتِ حال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا ISIکو حقانی گروپ
سے رابطے میں رہنا چاہئے؟ یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ امریکہ کی طرف سے
اس بات پر شدید اعتراض کیا گیا ہے کہ ISIان گروپوں سے رابطے میں ہے۔ اس
سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ ISIکیا
ہے؟ISIپاکستان کی خفیہ ایجنسی ہے جو وطنِ عزیز کے دفاع کے لیے کوشاں ہے۔
دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں دشمن گروپوں سے بھی رابطے میں رہتی ہیں اور دہشت
گرد گروپوں سے بھی ان کا رابطہ ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان رابطوں کے
فقدان کے باعث یہ ایجنسیاں خفیہ معلومات حاصل نہیں کر پاتیں۔ جب تک کسی
گروپ میں آپ کا کوئی اہم ذمہ دار موجود نہ ہو آپ اس گروپ کی اندرونی صورتِ
حال کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ ان
ایجنسیوں کے ڈبل ایجنٹ بھی ہوتے ہیں اور کچھ پے رول پر بھی کام کر رہے ہوتے
ہیں بعض حالات میں ایجنسیاں ان سے براہِ راست رابطے میں بھی ہوتی ہیں۔ میں
نے ایک مرتبہ ISIکے سابق سربراہ جنرل حمید گل سے اس بارے میں پوچھا تو ان
کا کہنا تھا کہ ISIکو طالبان سے رابطے میں رہنا چاہئے کیونکہ آئندہ پیش آنے
والے حالات میں رابطوں کا فقدان پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔
پاکستان فوج کے ترجمان اطہر عباس نے بھی یہی کہا کہ پاکستان حقانی گروپ سے
رابطہ رکھنے والا واحد ملک نہیں ہے۔ انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ کئی حکومتیں
حقانی گروپ سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حقانی گروپ سے رابطے
کا مطلب یہ نہیں کہ ISIاس کی حمایت کرتی ہے۔
قارئین کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ امریکہ جو دس برس سے زیادہ عرصہ سے
افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کر رہا ہے وہ بھی طالبان گروپوں سے رابطے
میں ہے۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسی CIAطالبان گروپوں سے رابطے میں ہے۔ امریکہ
کی طرف سے طالبان سے جو مذاکرات کا اعلان کیا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بعض اہم کمانڈر امریکہ کے حق میں ہیں یا ان کی یہ
شرائط ہیں، کیا یہ سب بغیر رابطوں کے ممکن ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ CIAایک
طرف یہ کہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور دوسری طرف یہ کہے کہ ہمارا ان سے کسی
قسم کا رابطہ نہیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان سے
مذاکرات براہِ راست کرے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان کا ایک طویل
بارڈ ر پاکستان کے ساتھ ہے اور پاکستان ایک طویل عرصہ سے امریکہ کا فرنٹ
لائن اتحادی ہے اس لیے جو بھی مذاکرات ہوں ان میں پاکستان بھی شامل ہوتا کہ
پاکستان کو مکمل صورتِ حال سے نہ صرف آگاہی رہے بلکہ وہ مستقبل کے لیے
اپنالائحہ عمل بھی تیارکر سکے۔ یہ ایک بنیادی وجہ ہے جو CIAاور ISIکے
درمیان وجہ تنازعہ بنی ہوئی ہے۔ بہر حال ISIکا موقف نہ صرف اصولی ہے بلکہ
وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
کیا پاکستان کے خلاف سازش کی جڑیں بھارت میں ہیں؟
اس ساری صورتِ حال میں میرے سامنے ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ امریکہ اور
پاکستان کا حقانی گروپ کے حوالے سے تنازعہ اور پھر کھلی جنگ کا اعلان کیوں
ہوا؟ چونکہ اصل بات CIAاور ISIکے درمیان ہے اورISIکو واضح طور پر ہدف
بنایاجارہا ہے لہٰذا مجھے ایک مرتبہ پھر ISIکے سابق سربراہ اور عسکری تجزیہ
کار جنرل حمید گل کا حوالہ دینا پڑے گا۔ ایک ملاقات کے دوران جنرل حمید گل
نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ISIکے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اس
کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ISIپاکستان کے دفاع کے لیے فرنٹ لائن پرکھڑی ہے انہوں
نے یہ بھی کہا کہ ایک بھرپور سازش اور پروپگنڈے کے ذریعے ISIکو بدنام کرنے
کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔
قارئین! اس وقت میرے سامنے یہ سوال تھا کہ بلاشبہ ISIکے خلاف سازشیں کی
جارہی ہیں لیکن موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس سازش کے ڈانڈے
کہاں ملتے ہیں؟ بالآخر اس سوال کا جواب بھی مل گیا، لیکن یہ جواب شاید ”امن
کی آشا“ کے حق میں نہ جائے۔ کیونکہ اس صورتِ حال کے ڈانڈے بھارت سے ملتے
نظر آرہے ہیں۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے امریکہ میں بھارتی
سفیراور قونصل جنرل سے ملاقات کے دوران ایک اہم بات کہی جس نے اس حقیقت کو
بے نقاب کر دیا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ بھارت ایک عرصہ
سے امریکہ کو یہی باور کرانے کی کوشش میں مصروف تھا کہ آئی ایس آئی
(پاکستانی خفیہ ایجنسی) کے دہشت گرد گروپوں سے رابطے ہیں انہوں نے یہ بھی
کہا کہ بھارت کے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ امریکہ آئی ایس آئی (ISI) اور
حقانی نیٹ ور ک کے درمیان روابط کے بارے میں آگاہ ہے اور اسے ISIکی حقیقت
کا علم ہو چکا ہے۔
قارئین! بھارتی وزیر خارجہ کی یہ بات اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ یہ سازش
بھی ایک آدھ دن میں تیار نہیں ہوئی بلکہ بھارت ایک عرصہ سے ان کوششوں میں
مصروف تھا۔
50مفتیان نے امریکہ کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا!
امریکہ کی پاکستانی سر زمین میں یکطرفہ کارروائی کے اعلان کے بعد جو صورتِ
حال سامنے آئی اس نے ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو متحد کر دیا اور بعض مقامات
پر وہی مناظر دیکھنے میں آئے جو1965ءکے وقت سامنے آئے تھے تمام سیاسی
جماعتوں نے اس صورتِ حال پر محب وطن ہونے کا ثبوت دیا اور وزیراعظم یوسف
رضا گیلانی نے آل پارٹینر کانفرنس کی کال دے دی جس کے بعد جماعت اسلامی نے
اپنی پارٹی کانفرنس ملتوی کرتے ہوئے آل پارٹینر کانفرنس کا خیر مقدم کیا
جبکہ دوسری پارٹینر نے بھی اس میں مکمل شمولیت کا اظہار کیا لیکن دلچسپ
صورتِ حال اس وقت سامنے آئی جب علماءکرام بھی میدان عمل میں کود پڑے اور
امریکی دھمکی کے بعد سنی اتحاد کونسل سے وابستہ 50مفتیان کرام نے امریکی
دھمکیوں کے تناظر میں اجتماعی فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر
امریکی جارحیت کی صورت میں پوری پاکستانی قوم پر جہادفرض ہو جائے گا اور
پاک سر زمین کے دفاع کے لیے حقیقی جہاد شروع ہو جائے گا جس میں اپنی طاقت
اور صلاحیت کے مطابق ہر پاکستانی کی شرکت لازمی ٹھہرے گی۔ فتویٰ میں کہا
گیا ہے کہ پاکستانی حکومت اور پاکستان کی مسلح افواج امریکہ کے ممکنہ حملے
کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاریاں شروع کر دیں۔ اس فتویٰ میں یہ تجویز بھی دی
گئی کہ تمام پاکستانی سیاستدان اپنے اثاثے پاکستان منتقل کریں اور سیاسی
اثر ورسوخ کے ذریعے معاف کرائے گئے قرضے واپس لیے جائیں یہ فتویٰ جاری کرنے
والے مفتیوں میں علامہ پیر محمد افضل قادری، شیخ الحدیث علامہ مفتی احمد
اشرف جلالی، علامہ مقصود مدنی، علامہ سیدشمس الدین بخاری، مفتی احمد یار
خان، مفتی غلام یٰسین اشرفی، علامہ سید محفوظ مشہدی، علامہ سیدفداحسین شاہ
حافظ آبادی، علامہ اطہر القادری، صاجنرادہ سید صفدرشاہ گیلانی، مفتی فضل
الرحمن اکاڑوی، مفتی سید مزمل حسین شاہ، مولانا نواز بشیر جلالی، مولانا
ضیا المصطفیٰ حقانی، مفتی محمد حسیب قادری، مفتی محمد عمران حنفی، مفتی
محمد کریم خان، مفتی ظفر جب رچشتی ، علامہ ڈاکٹر محمد اشفاق جلالی، علامہ
محمد داﺅد رضوی، علامہ باغ علی رضوی، علامہ باغ علی رضوی، علامہ سید احمد
رضوی، مفتی محمد رمضان جامی، علامہ نعیم عارف نوری، علامہ جاوید نوری،
صاحبزادہ وسیم الحسن نقوی، پیر نبیل الرحمن شاہ،علامہ قاری خالد محمود نقش
بندی ، مولانا محمد سلیم ہمدی اور دیگر شامل ہیں۔
قارئین! اس فتویٰ کے بعد سے اب تک مختلف علماءکرام اور مفتیان کرام کی جانب
سے اس طرح کے فتویٰ کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان امریکہ جنگ.... سعودی عرب اور چین کی حکمت عملی کیا؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چین اور سعودی عرب پاکستان کے اہم دوستوں میں
شامل ہیں۔ اس لیے ایک ہم سوال یہ بھی ہے کہ بدلتی ہوئی صورت ِ حال میں ان
ممالک کا رویہ کیا رہے گا اور ان کا موقف کیا ہو گا؟ اس حوالے سے چین کی
طرف سے پاکستان کو حوصلہ افزاءرسپونس دیا گیا ہے چین کے نائب وزیراعظم اور
وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ پاکستان کو چین کی طرف سے حمایت کا یقین دلانے کے
لیے آئے ہیں انہوں نے پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک سے کہا کہ چین اور
پاکستان آزمودہ دوست ہیں اور ان دونوں ملکوں کی دوستی وقت کی ہر آزمائش پر
پوری اتری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے دورہ کے دوران پاکستانی
حکومت اور عوام کو چین کی طرف سے حمایت کا یقین دلانے آئے ہیں۔ایک رپورٹ کے
مطابق چین کے نائب وزیراعظم نے صدر زرداری، چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف
کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی
سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جبکہ اس کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، رحمان
ملک اور ڈی جی ISIلیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا سے بھی اہم ملاقاتیں کیں۔ ذرائع
کے مطابق امریکی قیادت نے بھی اپنے پانچ سفیروں کو جن میں بھارت، پاکستان،
سعودی عرب، افغانستان اور چین شامل ہیں ، ہنگامی طور پر واشنگٹن طلب کر لیا
تاکہ پاکستان سے دو ٹوک بات کی جا سکے جبکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ چین نے
بھارت کو دونوں ملکوں کی وقتی ناراضی سے دور رہنے کا پیغام دیا ہے اور
بھارت کی اعلیٰ قیادت نے پاک امریکہ کشیدگی سے الگ رہنے کا فیصلہ کر لیا
ہے۔
دوسری طرف سعودی عرب پاک امریکہ کشیدگی میں مصالحتی کردار ادا کررہا ہے اس
حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ خادم حرمین شریف کی ہدایت پر سعودی انٹیلی جنس
حکام اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل شجاع احمد پاشا سمیت
دیگر اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد آئی آیس آئی کے سربراہ ہنگامی
طور پر سعودی عرب کے خصوصی طیارے میں سعودی انٹیلی جنس حکام کے ساتھ سعودی
عرب روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے سعودی عرب کی مسلح افواج اور انٹیلی جنس کے
اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیںکیں۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب جانے سے پہلے
ISI کے سربراہ نے وزیراعظم صدر پاکستان کو اعتماد میں لیا تھا۔
قارئین! اس صورتِ حال سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور چین ان حالات میں
نہ صرف پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں بلکہ اپنا اپنا کردار بھی بخوبی ادا
کر رہے ہیں۔
کیا امریکہ واقعی پاکستان پر حملہ کر ے گا؟
اس ساری صورتِ حال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ واقعی پاکستان
پر حملہ کرے گا؟ یہ سوال سب سے اہم ہے لیکن اس کا جواب تمام صورتِ حال کو
سامنے رکھ کر ہی معلوم ہو سکتا تھا۔ امریکہ نے جن حالات میں پاکستان کو
یکطرفہ حملے کی دھمکی دی تھی ان حالات میں امریکہ کا خیال تھا کہ پرویز
مشرف کے دور کی طرح اس مرتبہ پاکستان دھمکیوں کے ڈر سے امریکہ کی بات مان
لے گا دوسری صورت میں امریکہ یکطرفہ کارروائیاں جاری رکھے گا۔ عین ممکن تھا
کہ سیاسی لیڈر امریکہ کی دھمکیوں میں آجاتے اوریہ مطالبات بھی ویسے ہی
تسلیم کر لیے جاتے جیسے ڈرون حملوں کی پالیسی اپنائی گئی تھی لیکن عین وقت
پر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کور کمانڈز کا اجلاس طلب کر لیا اور
امریکہ کی دھمکی کا واضح اور دو ٹوک جواب دیا جس کے بعد سیاسی لیڈروں کو
بھی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے یہی پالیسی اپنانی پڑی ۔
اگر صورتِ حال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس صورتِ حال
میں اب امریکہ کو بھی مصالحت کے راستے پر آنا پڑے گا کیونکہ ایک طرف تو چین
نے امریکی اندازوں کے برعکس پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عندیہ ظاہر کر کے
براہِ راست کارروائی کے امکانات کمزور کر دیے ہیں اور پاکستان کی طرف سے
ڈیفائنس یاڈیٹرنس کی پالیسی کے پیچھے یہ اہم ترین محرک ہے۔ دوسری طرف
امریکہ کی طرف سے شمالی وزیرستان میں براہِ راست فضائی یا زمینی کارروائی
کی صورت میں نیٹو کی سپلائی لائن فوری متاتر ہو گی جو افغانستان میں امریکہ
اور نیٹو کی حربی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب کرے گی اور طالبان کی
کارروائیوں میں اضافہ کا باعث بنے گی اب امریکہ کے لیے ایبٹ آباد جیسے
واقعات کو دہرانا بھی ممکن نہیں کیونکہ پاک فضائیہ کو الرٹ کردیا گیا ہے
اور پاکستان کو لیبیا یاعراق سمجھنا بھی غلطی ہو گی کیونکہ ان ممالک کی فوج
بالخصوص فضائیہ جوابی کارروائی کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔
بہر حال راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہونے والی سرگرمیوں کے بعد یہ اندازہ
لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان مزید امریکی مطالبات تسلیم کرنے اور اس جنگ میں
ایندھن بننے کے لیے تیار نہیں اور امریکی انتظامیہ کو یہ باور کرانے کا
فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت کو جنرل پرویز مشرف کے
آئینے میں دیکھنا بےوقوفی ہو گی۔ امریکہ نیا محاذ کھول کر افغانستان سے بھی
بڑی دلدل میں پھنس سکتا ہے جس میں اسے پھنسانے کے بھارتی خواب کی تعبیر
امریکہ کے لیے جتنی بھیانک ہو سکتی ہے اس کاادراک امریکہ کو ہونا چاہئے۔ اﷲ
پاکستان کا حامی وناصر ہو۔ |