پاکستان ۔۔۔یا زندہ لاشوں کا قبرستان

ملک پاکستان میں کس چیز کی کمی ہے ،جو ملک کی ترقی و خوشحالی کے راہ میں رُکاوٹ کاباعث بنی ہوئی ہے ،یہ ملک طویل و عریض سر سبز و شاداب میدانی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں زراعت کے ذریعے سے پاکستان اپنی اوربیرونی دنیا کی اجناسی ضروریات کو بخوبی پوری کرسکتا ہے ،اس ملک میں سنہرے ریگستانوں کے طویل قطعے موجود ہیں جنکی بیش بہامعدنی پیداوار سے یہ ملک ایشیاءکا شہنشاہ بن سکتا ہے ،اس ملک میں جہاں نیلا بحرعرب موجزن ہے جس کے طویل ساحلوں سے خوشحالی کے نئے باب کھل سکتے ہیں تو وہیں پر میٹھے پانیوں کے تا حد نگاہ جال بھی رواں دواں ہیں جس کے اب حیات جیسے پانی سے طویل المیاد فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں ،اس ملک میں اگر خشک کوہ اور پہاڑوں کے سلسلے پائے جاتے ہیں تو یہاں سرسبز اور گھنے جنگلات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ،اس ملک کی زمین اگر گیس ،کوئلے،پیٹرول ،نمک ،جپسم سے قیمتی وسائل اُگلتی ہے تو وہیں پر یہ مہربان زمین سونے، چاندی ، زمرد ،یاقوت جیسے ذخائر کا سینہ کھولے ہوئی ہے ،وہ کونسی نعمت ہے جو قدرت نے اس ملک کو نہیں دی ہے ،قدرت کے عطا کردہ قیمتی اور بیش بہاوسائل سے لبریز ملک کی موجودہ ابتر حالت ہمارے لئے نہایت ہی باعث شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے ،غیر ممالک ہمارے ملک جیسی زمین کو ترس رہے ہیں اور ہم اس کی قدر وقیمت کو بھول کر اس کے تباہی کے در پے ہیں، قلیل رقبے پر مشتمل سری لنکا جس کے پاس پام آئل کے سوا کوئی پیداوار نہیں جو ضروریات زندگی کی تمام اشیاءحتیٰ کہ روزمرہ استعمال کی سبزیاں بھی بیرونی دنیا سے خریدنے پر مجبورہے ، آج وہ ملک ہم سے زندگی کے ہر راہ میں آگے ہے ، ہم سے بچھڑے ہوئے بنگلا دیش کی روزبروز بڑھتی ترقی ہمارے لئے نہایت باعث شرم ہے ،پاکستان میں اگر کسی چیز کی کمی ہے جو ملکی ترقی کی راہ میں مسلسل رُکاوٹ اور شرمناک پستی کا سبب بن رہی ہے تو وہ ہے ، ہماری عوام میں وسیع پیمانے پر شعور کا نا قابل یقین فقدان ، ہماری عوام میں پائی جانے والی مذہبی ،سیاسی ،سماجی اورمعاشرتی لاشعوری پاکستان کی تباہی کی اصل وجہ ہے ،معاشرے میں مذہبی سطح پر پائی جانے والی لاشعوری کے سببب ہم پیغمبرﷺ کے اصل پیغام کو پس پشت ڈال کر اپنے آبا و اجدادکے تخلیق کردہ فرقوں کے ساتھ بلا تحقیق و تصدیق چمٹے ہوئے ہیں ،اور بلا خوف و خطر ایک دوسرے پر کفر کے فتوئے داغ رہے ہیں ،لیکن دین اسلام کے اصل فلسفے پر تحقیق کرکے یکجا ہونے کو تیار نہیں ہیں،ہماری اسی لاشعوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف طاقتیں ہمارے نوجوانوں کو مذہب کے آڑ میں قلم و کتاب سے دور رکھ کر خودکش بمبار بنا رہے ہیں تو کہیں پراتشیں اسلحہ تماکرنام نہاد جہاد کی آڑ میں دہشت گرد بنا کر اسلام ،طالبان اور جہاد کو بدنام کررہے ہیں،تو کہیں پر لسانیت اور پارٹی بازی کی آڑ میں ٹارگٹ کلرز ،اور بھتہ خور اور کریمنل بنارہے ہیں ، ہم میں پائی جانے والی سیاسی لاشعوری کا فائدہ اٹھا کر کریمنل اور بد کردار لوگ سیاسی پاٹیوں کے کرتا دھرتا بن کر معاشرے میں جرائم کو تحفظ مہیا کررہے ہیں ،اورہر سرکاری ادارے میں ایمانداری اور میرٹ کا قتل عام کر ر ہے ہیں ،ہماری اس لاشعوری نے ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں کرپٹ ،بے ایمان اور بے ضمیر سیاستدانوں کےلئے راستے مہیا کئے ہیں ،جس کی وجہ سے یہ سیاستدان گزشتہ 65سالوں سے اس ملک کے قیمتی وسائل کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر لُوٹ رہے ہیں ،اورعوام کے جسموں کو نچوڑ نچوڑ کر ان کا خون چوس رہے ہیں ،لیکن ہم میں خواب غفلت سے بیداری کے کوئی اثرات نمودار نہیں ہوپارہے ،ہم عوام جو بظاہر ہر سطح پر ان سیاستدانوں سے نالاں نظرآتے ہیں ،انکے خلاف باتیں کرتے ہیں لیکن الیکشن کے موقع پر انکے تمام پچلھے کرتوتوں کو فراموش کرکے انکو دوبارہ اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے منتخب کر لیتے ہیں اورجب یہ نا اہل سیاستدان ہمیں تگنی کا ناچ نچاتے ہے ،تو پھرہم یہ چیختے ہیں ،چلاتے ہیں ،خودکشیاں کرتے ہیں ،اپنے بچوں کے گلوں میں برائے فروخت کے کارڈ آویزاں کرتے ہیں ،لیکن اپنے غلطی کی تلافی کےلئے اپنے ملک کےلئے ان خونخوارسیاستدانوں کے خلاف نکلنے کو تیار نہیں ہوتے ،ہماری اسی لاشعوری کے سبب ان بے ضمیر ،کرپٹ سیاستدانوں کا کاروبار چل رہا ہے اور نتیجاتاً یہ ملک تباہی بربادی کے سمندر میں غرق ہورہا ہے ،اگر ہماری عوام میں اجتماعی سیاسی شعور پایا جاتا تو کیا وہ بار بار آزمائے گئے ان سیاستدانوں کے جلسوں میں شرکت کرتے ؟کیا وہ ان مکاروں کے جھوٹے وعدوں اور تسلیوں پر مثل بندر تالیاں بجاتے ؟یہی وہ لاشعوری ہے جس کے سبب ہماری عوام کی بڑی تعداد ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر ان سیاستدانوں کی پارٹیوں سے چمٹے رہتے ہیں ان کی مثل خُدا بندگی کرتے نظر آتے ہیں ،یہی عوام کہیں پر جدی پشتی طور پران پارٹیوں کے خیر خواہ ہیں کہیں پر لسانی اور علاقائی سطحوں پر ان سیاستدانوں کی غلامی کرتے ہیں ،کہیں پر چند سکوں کے عوض بک جاتے ہیں ،یہی بے شعور عوام الیکشن کے موقع پر ان کرپٹ سیاستدانوں کے جلسوں میں اپنی شرکت کے ذریعے چار چاند لگا کر اوراپنا قیمتی ووٹ کو برائی کے پروان کےلئے استعمال کرکے اس ملک کے مستقبل کو ایک با ر پھر تاریکی میں دھکیل دیتے ہیں ،کیا ووٹ کے استعمال میں اچھے برے کی تمیز کرنااتنا مشکل ہے ؟ کیا ماضی سے سبق سیکھنا اس قدر مشکل ہے کہ سب کچھ بُلا کر دوبارہ انہی لوگوں کو منتخب کیا جاتا ہے ؟ ووٹ محض الیکشن میں استعمال ہونے والی پرچی نہیں بلکہ یہ تو ملک کے قسمت کو سنوارنے یا بگاڑنے کا پروانہ ہوتا ہے ،جسکے غلط استعمال کا خمیا زہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے ،اور ووٹر کو روز محشر اسکے صحیح یا غلط استعمال کے بدلے جزا یا سزا کا سامنابھی کرنا پڑتا ہے ،ووٹ اگر کسی حقدار اور نیک شخص کو دیا جا تا ہے اور وہ برسر اقتدار آکر فلاح و خیر کے کام کرتا ہے تو روز محشر اس کے تمام فلاح و خیرکے ثواب میں اُس کے ووٹر بھی برابر کے حق دار ہونگے ،اسی طرح اخیرت میں منتخب شدہ کرپٹ شخص کے بداعمالیوں اور کرپشن کے گنا ہوںکے سزاوں میں اسکے ووٹر بھی برابر کے حصہ دار ہونگے ،کیا یہ اتنی مشکل باتیں ہیں کہ ہمارے پڑھے لکھے اور ان پڑھ عوام کی سمجھ میں نہیں آتی ،وہ ہر بار محض شخصی محبت ،پارٹی محبت کے نام پر کھبی دین کے نام پر کبھی چند سکوں کےلئے اپنے ضمیر کو سُلا کر بے ضمیروں کو منتخب کرکے ملک کی تباہی و بربادی کاسبب بنتے ہیں ،کیا انفرادی طور پر اس لاشعوری سے نکلنا اس قدر مشکل ہے ،کیا اپنے ضمیر کو جگانا ،اپنے گریباں میں چند لمحے جھانکنا ،اپنا احتساب کرنا اس قدر مشکل ہے ؟اگر واقعی یہ باتیں کسی ذلروح کے لیے سمجھنا اتنی مشکل ہیں تو پھر یہ انسان زندوں میں شمار نہیں ہوگا ،کیونکہ زندہ انسان کے پاس دماغ ہوتا ہے ،وہ سوچ سکتا ہے محسوس کرسکتا ہے ،لیکن زندہ ہوتے ہوئے بھی جس کا ضمیر سویا ہو اور اسکی سوچ سمجھ ،شعور سلب ہو چکی ہو ، تووہ زندہ نہیں بلکہ زندہ لاش کے مانند ہے ،مجھے نہایت مایو سی کے عالم میں کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم زندہ انسان نہیں بلکہ زندہ لاشیں ہیں ،اور یہ ملک زندہ قوموں کا پاکستان نہیں بلکہ زندہ لاشوں کا قبرستان ہے -
جان عالم سوات
About the Author: جان عالم سوات Read More Articles by جان عالم سوات: 21 Articles with 27869 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.