لَبَّیکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیکَ
حاضر ہوں خدایا میں حاضر ہوں! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر
کرنے کے بعد آواز بلند کی تھی اور ایک صدا لگائی تھی کہ اے لوگو! آؤ اپنے
رب کے گھر کاطواف کرو، حج کا سفر اسی ابراہیمی پکار پر لبیک کہنا ہے۔حج کے
موسم میں ہر طرف سےلَبَّیکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیکَ کی جو آواز فضا میں بلند
ہوتی ہے وہ اسی ندائے ابراہیمی کا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کرنے
والا حضرت ابراہیم کی پکار پر لبیک کہتا ہوا اللہ کے یہاں حاضرہوگیا ہے اور
اس بات کا منتظر ہے کہ اس کو جو حکم بھی دیا جائے وہ اس کو دل و جان سے
پورا کرنے میں لگ جائے گا۔
حج کی تاریخ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ
دونوں ہستیاں وہ ہیں جن کو نہ صرف مسلمان خدا کا پیغمبر مانتے ہیں بلکہ
دوسرے بڑے مذاہب کے لوگ بھی ان کو عظیم پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔حضرت ابراہیم
قدیم عراق میں رہتے تھے جہاں پر ان کے والد آزربھی تھے، عراق کا نظام
مشرکانہ تھا، جس کوحضرت ابراہیم برداشت نہیں کرتے تھے اس لئے سرسبز و شاداب
شہر عراق کو چھوڑ کر حضرت ابراہیم عرب کے خشک صحرا میں چلے گئے جہاں سنسان
دنیا میں خالق ومخلوق کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی۔یہاں انھوں نے ایک
خدا کے گھر کی تعمیر کی جس کی طرف آج سارے عالم سے لوگ جاتے ہیں۔جو توحید
کا منبع اور اسلام کا مرکز ہے۔
حج کے دوران حاجی سب سے زیادہ جو کلمہ بولتا ہے وہ ہے :اَللّٰہُ
اَکبَر،اَللّٰہُ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکبَر،
اللّٰہُ اَکبَرُ، وَلِلّٰہِ الحَمدُ۔(اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا
ہے، نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا
ہے اور تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں۔)
یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ بڑائی ، شان، عظمت ، تعریف صرف اور صرف ایک اللہ کے
لئے ہے۔ اس کے سوا جتنی بڑائیاں ہیں وہ سب اس لئے ہیں کہ اسی ایک عظیم
تربڑائی میں گم ہوجائیں۔ یہ احساس اجتماعیت کا سب سے بڑا راز ہے۔ اجتماعیت
اور اتحاد ہمیشہ وہاں نہیں ہوتا جہاں ہر آدمی اپنے کو بڑاسمجھ لے۔ اس کے
برعکس جہاں تمام لوگ کسی ایک کے حق میں اپنی انفرادی بڑائی سے دست بردار
ہوجائیں وہاں اتحاد اور اجتماعیت کے سواکوئی اور چیز پائی نہیں جاتی ۔
اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم جس شخص پر ہو اس کو اللہ تعالیٰ اپنے دربار
میں ضرور حاضر ہونے کا موقع عنایت فرماتا ہے۔یہ ہر اس شخص کے لئے بڑی خوش
نصیبی ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے اس گھرکامہمان بنائے جس کی تعمیر حضرت
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے خون جگر سے کیا تھا۔ اس کی زیارت
کرنے والے کو اللہ تعالیٰ حج مبرورعطافرمائے۔
حج مبرور اس حج کو کہتے ہیں جس کی ادائیگی کے دوران کوئی گناہ سرزد نہ ہوا
ہو، اور بعض علماءنے کہا ہے کہ حج مبرور وہ ہے جس میں شہوانی باتوں، فسق
وفجور اور گناہوں سے اجتناب کے ساتھ ساتھ ریاکاری اور شہرت طلبی سے بچنے کا
التزام کیا گیا ہو، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حج مبرور یہ ہے کہ لوگوں کو
کھانا کھلائے، اچھی باتیں کرے اور کثرت سے سلام کرے۔ایساحج اللہ کے نزدیک
مقبول حج ہوتا ہے اور اس پروہ اجر وانعامات مرتب ہوتے ہیںجن کی بشارت نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیثوں میں دی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک حدیث میں حج مبرور کا ثواب جنت بتاتے ہوئے یوں
فرمایا:اَلعُمرَةُ ِلَی العُمرَةِ کَفَّارَة لِّمَا بَینَھُمَا وَالحَجُّ
المَبرُورُ لَیسَ لَہُ جَزَائِلَّا الجَنَّةُ ( عمرہ ،اپنے سے پہلے والے
عمرہ کے درمیانی عرصہ کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اور حج مبرور کا اجر تو
بس جنت ہی ہے )۔دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج مبرور کو افضل
اعمال میں شمار فرمایا ہے؛چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”َا
َنَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ سُئِل اَیُّ
العَمَلَِ فضَلُ؟ قَالَ اِیمَان بِاللّٰہِ وَ رَسُولِہ ،قِیلَ:ثُمَّ
مَاذَا؟ قَالَ:الجِھَادُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ ، قِیلَ:ثُمَّ،مَاذَا؟
قَالَ:حَجّ مَبرُو´ر۔( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا کہ سب
سے بہتر عمل کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ او ر اس کے
رسول پر ایمان، پوچھا گیا پھر کیا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا :
اللہ کے راستہ میں جہاد، عرض کیا گیا:پھر کیا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف
سے ارشاد ہوا:حج مبرور)۔ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج
مبرور کو عورتوں کا جہاد قرار دیا ہے ، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
کی ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم ہم لوگ کیوں نہ آپ کے ساتھ غزوہ و جہاد میں شریک ہوں ؟آپ صلی اللہ
علےہ وسلم نے جواب میں فرمایا : لَکُنَّ َاَحسَنَُ الجِھَادِ وَاَجمَلُہُ
الحَجُّ، حَجّ مَبرُور ( تم لوگوں کے لئے سب سے اچھا اور بہتر جہاد حج ہے
جو کہ حج مبرور ہو)۔
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ وہ حج مبرور جس کا اتنا ثواب اور اتنی فضیلتیں
ہیں وہ کیسے ممکن ہے اور اس کی کیا شرائط ہیں؟
حج مبرور کی ادائیگی کے لئے جن امور کو برتنا لازمی ہے وہ یہ ہیں: سچی توبہ
، رفع مظالم، ما ل حلال،اخلاص نیت، ضروری مسائل حج کا علم اور ان پر عمل
،طریقہ نبوی کی اتباع کی فکر،گناہوں اور نافرمانیوں سے مکمل پرہیز، ذکر
وتلبیہ میں مشغولیت ،حدود حرم کے تقدس کا خیال او ر اس کی پامالی سے اجتناب
، قیام مکہ کے دوران اس کی عظمت و اہمیت کا استحضاراور ایسے قول وعمل سے
احتراز جو اس کے احترام کے منافی ہو،تاریخی یامقدس مقامات کی زیارتوں کے
دوران شرک و بدعات کے ارتکاب سے پہلو تہی ،خوش خلقی اور حسن سلوک۔
ان کی تفصیل یہ ہے کہ جب مسلمان حج کے سفر کا ارادہ کرے تو اسکو چاہئے کہ
اپنے گھر والوں اور دوستوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرے، یعنی اللہ کے
احکامات پر عمل کرنے اور نواہی سے بچنے کی تاکید کرے۔حج کے لئے کمائی حلال
اور پاکیزہ ہو ،اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں
فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ طَیِّب،لَا یَقبَلُ اِلَّا طَیِّبًا۔ (اللہ تعالٰی
پاکیزہ ہے ، پاکیزہ ہی چیز کو قبول کرتاہے )۔
حاجی کو چاہئے کہ اپنے حج سے اللہ کی رضا اور دار آخرت کی فلاح کا طالب ہو،
اور ان مقدس مقامات میں ایسے اقوال و اعمال سے اللہ کا تقرب چاہے جو اللہ
کوپسند ہوں، حج کے ذریعہ دنیا کمانا مقصد نہ ہو، نہ ہی ریا، شہرت اور فخر
ومباہات کی خواہش رکھے، کیوں کہ یہ سب بدترین مقاصد ہیں اور اعمال کی
بربادی اورعدم قبولیت کا سبب ہیں۔
حج مبرور کے طالب حاجی کو چاہئے کہ اپنے سفر میں صاحب تقوٰی اور عالم دین
کی صحبت اختیار کرے ؛تا کہ وہ مناسک حج کو اچھی طرح سیکھ لے،مشکل مسائل کو
خوب سمجھ لے اور اپنا حج پوری دینی بصیرت کے ساتھ، اللہ کے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق ادا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اعمال حج کی تعلیم دیتے ہوئے تاکید فرمائی:
خُذُوا عَنِّی مَنَاسِکَکُم۔ (ہم سے اپنے حج کے مناسک سیکھ لو)۔
حج مبرور کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ حاجی مناسک حج کو بحسن تمام انجام دینے
کے علاوہ ،پورے سفر میں کثرت سے ذکر واستغفار کرے ، دعا اور گریہ وزاری کے
ذریعہ گناہوں کی معافی چاہے، قرآن کی تلاوت اور اس کے معانی پر غورکو شیوہ
بنائے، نماز با جماعت کا اہتمام کرے،جھوٹ غیبت اور بدکلامی سے اپنی زبان کی
حفاظت کرے، رفقاءسفر اور دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان کے کام آئے ضرورت
ومصیبت کے وقت ان کی مدد کرے ،خوش اسلوبی کے ساتھ انہیں اچھی بات کا حکم دے
اور برائیوں سے روکے ،جھگڑے ، فساد،ترش روئی سے خود بھی بچے اور ان کو بھی
بچائے، تقوی اور خوف خدا کوہمیشہ ملحوظ رکھے اور اس سے غفلت نہ برتے ۔ غرضے
کہ سورہ بقرہ میں حاجیوں کو دوران حج جن اوامر و نواہی کو بجا لانے کی
ہدایت دی گئی ہے ان کی پوری پابندی کرے ۔ فرمان الٰہی ہے : الحَجُّّ اَشہُر
مَّعلُو´مَات فَمَن´ فَرَضَ فِی´ہِنَّ الحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَافُسُوقَ
وَ لَاجِدَالَ فِی الحَجِّ، وَمَا تَف´عَلُو´ا مِن´ خَیرٍ یَّعلَمہُ
اللّٰہُ، وَ تَزَوَّدُو´ا فَاِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقوٰی،وَ اتَّقُونِ
یٰا اولِی الَلبَابِ “
(حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے
میل ملاپ کرنے ، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے، تم جو نیکی
کروگے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اس کے لئے تقویٰ بطور زاد راہ اختیار
کرو ، بہترین زادراہ تقویٰ ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو) ۔
اے لوگو! اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے تو تم حج کرو۔ جو شخص اللہ کے
لیے حج کرے پھر وہ نہ کوئی فحش بات کرے اور نہ کوئی گناہ کرے تو وہ اپنے
گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا جیسے کہ وہ اس دن تھا جب کہ وہ اپنی ماں کے
پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔(حدیث)
حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا چیز حج کو واجب کرتی ہے۔ آپ نے
فرمایا کہ زادِراہ اور سواری۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس زادِ سفر اور سواری ہو
جو اس کو بیت اللہ تک پہونچا دے اوروہ حج نہ کرے تو وہ خواہ یہودی ہو کر
مرے یا نصرانی ہو کر۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حج کر نا چاہتا ہو وہ
جلدی کرے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے خدا کے رسول ، حاجی کون ہے ۔ آپ نے فرمایا
کہ پراگندہ بال اور بو دار۔ دوسرا شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ اے خدا کے
رسول، کون ساحج افضل ہے۔آپ نے فرمایا کہ بآواز بلند لبیک کہنا اور جانور
قربان کرنا۔ پھر ایک اور شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ اس کی سبیل کیا ہے آپ
نے فرمایا کہ زاد سفر اور سواری۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کے ارادے سے نکلے پھر
وہ راستہ میں مر جائے تو اللہ اس کے لیے غازی اور حاجی اور عمرہ کرنے والے
کا اجر لکھ دے گا۔
قرآن و احادیث میں حج کے سلسلے میں بہت سارے احکام و فضائل آئے ہیں مضمون
کی طوالت کے پیش نظر ان ہی چند آیتوں و احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔اللہ
تعالیٰ ہم سب کو حج کرنے کی توفیق بخشے آمین۔ |