24 جنوری ورلڈ ایجوکیشن ڈے کے طور پر دنیا بھر میں منایا
گیا اور مختلف ممالک نے اپنے تعلیمی اداروں میں اس دن کے حوالے سے سیمینار
منعقد کیے تاکہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے
مگر اگر بات کی جائے پاکستان کی تو کیا اس دن کے حوالے سے کوئی سیمینار یا
پروگرام منعقد کیا گیا بالخصوص سندھ جہاں ہر ایونٹ پر سب سے پہلے تعلیمی
اداروں میں عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے کیا یہاں کہیں کسی جگہ پر
پروگرام کا انعقاد کیا گیا تو میری معلومات کے مطابق کہیں بھی کسی ادارے
میں اس دن سے منسلک کوئی پروگرام منعقد نہیں ہوا
خبروں سے منسلک ویب کے مطابق پاکستان کو اس وقت تعلیمی بحران کا سامنا ہے
اس کے مطابق 26 ملین سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں یہ دنیا میں زیادہ
شرحوں میں سے ایک شرح ہے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے گزشتہ سال تعلیمی
ایمرجنسی کا اعلان بھی کیا تھا جو کہ بس میڈیا یا سرکاری کاغذوں کی زینت
بنا
اب بات کی جائے سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کی تو یہاں انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ
ہی کراچی کے میں تعلیمی معیار کی عکاسی کے لیے کافی ہے دی ایکسپریس نیوز کے
مطابق پری میڈیکل میں 30528 طلبہ نے امتحان میں حصہ لیا مگر پاس صرف 10914
ہوے جبکہ تقریبا 20 ہزار طلبہ فیل ہوا اسی طرح پری انجینئرنگ میں 22973 میں
سے صرف 6674 طلبہ پاس ہوئے جبکہ جنرل گروپ میں 17375 میں سے صرف 6282 کو
پاس کیا گیا جو کہ بہت حیران کن اس لیے بھی ہے چونکہ فیل ہونے والے طلبہ
بہت سے ایسے تھے جن میں میٹرک کا رزلٹ آؤٹ اسٹینڈنگ تھا جو کہ نہ صرف پاس
بلکہ بہترین پرسنٹیج اور اچھے گریڈ سے پاس ہوئے تھے اب کیا یہ کسی کوٹا
سسٹم کی کوئی اپگریڈ پالیسی تھی یا محکمہ ایجوکیشن کی ناہلی، کچھ نہیں کہا
جا سکتا اسی ٹائپ کا حیران کن رزلٹ پچھلے سال بھی آیا تھا جہاں عبوری
وزیراعلی سندھ جسٹس مقبول باقر صاحب کی سربراہی میں کمیٹی بنی جس نے 10 سے
15 فیصد اضافی نمبر کی سفارش کی تھی اور اس بار بھی پچھلے سال کی طرح ایسی
ہی ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو اپنی انکوائری کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرے گی
سندھ بالخصوص کراچی کی تعلیمی اداروں میں جو امتیازی سلوک جاری ہے وہ کسی
سے ڈھکا چھپا نہیں کہا جاتا ہے کہ تعلیم بانٹنے سے بڑھتی ہے مگر کراچی میں
بانٹنے جیسا کوئی لفظ نہیں بلکہ مہنگے دام و فروخت کی جاتی ہے کراچی میں
کالجز صرف داخلے اور امتحانی فارم بھرنے تک کے لیے ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ
اصل مقصد جو کہ پڑھائی یا کچھ سیکھنے کے ہیں برعکس اس کے طلبہ پرائیویٹ
کوچنگز کو ترجیح دیتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ کئی سرکاری کالجز میں کمپیوٹر
لیبز تک کی سہولیات کا فقدان ہے
دی ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی بھر میں سرکاری کالجوں میں تقریبا 2300
تدریسی اسامیاں خالی پڑی ہیں جس کی وجہ سے مضامین سے متعلق ماہرین تعلیم
بھی کم ہے
جیسا کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف صاحب نے گزشتہ سال تعلیمی نظام میں
ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اسے عملی جامعہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے اور یہاں
گورنر سندھ سے جو کہ فی الحال کراچی کے معاملات میں بہت ایکٹو نظر آتے ہیں
سے گزارش ہے کہ کراچی میں تعلیمی نظام کے اس گرتے ہوئے معیار اور امتیازی
سلوک کا نوٹس لیں کوئی عملی طور پر ایکشن کریں اسے روکتے ہوئے کراچی کے
موجودہ نوجوان نسل اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو خراب ہونے سے بچائیں
اور تعلیمی اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کریں۔
|