ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی سوچنے
کی عادت ختم کر دیتے ہیں۔ جب کوئی بچہ سوال کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے
کہ وہ سمجھنا چاہتا ہے۔ لیکن اکثر والدین یا اساتذہ اسے مسئلہ سمجھتے ہیں
اور فوراً کہہ دیتے ہیں۔
"ایسی باتیں نہیں سوچتے"
"ایسے سوال نہیں پوچھتے"
"اس پر سوچنا گناہ ہے"
اس طرح بچہ خاموش تو ہو جاتا ہے، مگر اس کا دماغ سوچنے سے ڈرنے لگتا ہے۔
آہستہ آہستہ وہ صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے لگتا ہے، بغیر سمجھے۔
مگر اللہ نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے
"کیا تم عقل نہیں لگاتے؟" (أَفَلَا تَعْقِلُونَ)
"کیا تم غور نہیں کرتے؟" (أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ)
اللہ چاہتا ہے کہ انسان سوچے، سمجھے اور پھر فیصلے کرے۔ لیکن ہمارے والدین
اور اساتذہ خوف کی ایسی دیوار کھڑی کر دیتے ہیں کہ بچہ سوچنے سے ہی گھبرانے
لگتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ نے انسان کو عقل دی ہو، مگر ہم اسے
سوچنے سے روک دیں؟
شیطان بھی سوچ پیدا کرتا ہے، مگر گمراہ کرنے والی۔ رحمن بھی سوچ دیتا ہے،
مگر ہدایت کی طرف لے جانے والی۔ ایک اچھے استاد، رہنما یا تربیت کار یا
ٹرینر و کاؤنسلر کا کام بھی یہی ہے کہ وہ ایسی سوچ پیدا کرے جو انسان کو
بہتر بنائے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی بولنے کی عادت نہیں، سوچنے کی عادت ختم کر
دیتے ہیں۔ ہم انہیں صرف ایک چلتی پھرتی مشین بنا دیتے ہیں جو بغیر سوچے صرف
سنی سنائی باتوں اور عقائد پر عمل کرتی ہے۔ نتیجہ؟؟؟؟ پورا معاشرہ ایسی
"ناکارہ مشینوں" سے بھر جاتا ہے جو صرف سنتی ہیں، سوچتی نہیں۔ ایک مثال
لیں.
اگر کوئی بچہ سوال کرے کہ حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن تک کیسے
زندہ رہ سکتے ہیں ؟
تو والدین یا استاد کو چاہیے کہ وہ اسے اس کی سمجھ کے مطابق سمجھائیں۔ لیکن
اگر جواب یہ دیا جائے"ایسے سوال نہیں پوچھتے، یہ گناہ ہے"، تو اس کا مطلب
یہ ہے کہ ہم نے بچے کی سوچنے کی صلاحیت کو مار دیا۔
حالانکہ اصل میں، ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ یہ اللہ کی قدرت کا ایک معجزہ
تھا، اور معجزے ہمیشہ عام قوانین سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ لیکن جب تک ہم سمجھانے
کی کوشش نہیں کریں گے، صرف منع کرتے رہیں گے، تب تک بچے کا دماغ صرف سننے
اور ماننے والی مشین بنا رہے گا، سوچنے والی نہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بہتر ہو، تو ہمیں بچوں کی سوچنے کی عادت
واپس جگانی ہوگی۔ انہیں سوال کرنے کی آزادی دینی ہوگی۔ جب فکر پیدا ہوگی،
تبھی عمل بھی ہوگا۔ ورنہ صرف چلتی پھرتی "ناکارہ مشینیں" بنتی رہیں گی۔
معاشرہ ایک مشین کی طرح ہوتا ہے "جیسا مواد ڈالو گے، ویسا ہی نتیجہ نکلے
گا"
کیا آپ کو نہیں لگتا کے بچوں کو ایسے سوالات کے جواب دینا واقعی ضروری ہے،
اور یہ اچھی بات ہے کہ وہ سوچ رہے ہیں۔ حضرت یونسؑ کا واقعہ سمجھانے کے لیے
ہمیں دو چیزوں پر بات کرنی ہوگی۔
معجزہ کیا ہوتا ہے؟
ہماری عقل کی حد کہاں تک ہے؟
سب سے پہلے بچوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ معجزہ کسی بھی عام قانون کے مطابق
نہیں ہوتا۔ اللہ جب کوئی معجزہ دکھاتا ہے تو وہ عام سائنسی یا فزکس کے
اصولوں سے ہٹ کر ہوتا ہے، کیونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
!! مثال کے طور پر
آگ کا کام جلانا ہے، مگر حضرت ابراہیمؑ کے لیے آگ ٹھنڈی ہو گئی۔
پانی میں انسان نہیں چل سکتا، مگر حضرت موسیٰؑ کے لیے سمندر راستہ بن گیا۔
مردہ لوگ زندہ نہیں ہوتے، مگر حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں اللہ نے مردوں کو زندہ
کر دیا۔
کسی ماں کے بغیر بچہ پیدا نہیں ہو سکتا، مگر حضرت عیسیٰؑ بغیر والد کے پیدا
ہوئے۔
یہ سب سائنسی طور پر ممکن نہیں، لیکن اللہ کے حکم سے ہوا۔ اسی طرح حضرت
یونسؑ کا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا بھی ایک معجزہ تھا۔
ہماری عقل کی حد کہاں تک ہے؟؟؟
بچوں کو یہ بھی سمجھانا ضروری ہے کہ ہماری عقل اور سائنس کی ایک حد ہے۔
دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آج بھی سائنس نہیں سمجھا سکی، مگر وہ
موجود ہیں۔
مثلاً
خلا یعنی اسپیس یا آسمان کا کوئی آخر ہے یا نہیں؟
دماغ کیسے خواب دیکھتا ہے؟
ہم موت کے بعد کہاں جاتے ہیں؟
بلیک ہول کے اندر کیا ہوتا ہے؟
یہ سب سوالات آج کی سائنس کے لیے بھی پراسرار ہیں۔ تو کیا یہ سب غلط ہیں؟
نہیں، بلکہ ہماری عقل ابھی وہاں تک نہیں پہنچی۔
اسی طرح حضرت یونسؑ کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کو بھی عام قوانین سے
نہیں سمجھا جا سکتا، کیونکہ یہ ایک معجزہ تھا، جو اللہ کے حکم سے ہوا۔
!! بچوں کے لیے آسان مثال
!! آپ بچوں کو یہ مثال دے سکتے ہیں
"بیٹا، موبائل فون میں ایک چھوٹی سی چپ ہوتی ہے، مگر وہ ہزاروں چیزیں کر
سکتی ہے۔ کیا تمہیں چپ کے اندر جا کر دکھائی دیتا ہے کہ یہ کیسے کام کرتی
ہے؟ نہیں، مگر تم اسے استعمال کر رہے ہو، نا؟ تو جس طرح موبائل کے اندر کی
ٹیکنالوجی تمہیں نظر نہیں آتی مگر کام کرتی ہے، اسی طرح اللہ کے بنائے ہوئے
نظام بھی ہوتے ہیں، جو ہماری سمجھ سے باہر ہو سکتے ہیں، مگر اللہ کے لیے
کچھ بھی ناممکن نہیں۔"
اگر کوئی چیز ہماری عقل سے باہر ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ناممکن ہے۔
اللہ جس نے یہ پوری کائنات بنائی ہے، اس کے لیے حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ
میں زندہ رکھنا بالکل ممکن تھا، جیسے اس نے حضرت موسیٰؑ کے لیے سمندر میں
راستہ بنایا، یا حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں جلنے سے بچایا۔
"جب اللہ کچھ کرنے کا فیصلہ کر لے، تو بس وہ کہتا ہے 'ہو جا' اور وہ ہو
جاتا ہے! (سورۃ یٰسین 82)
یہ جواب بچوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہوگا، کیونکہ یہ سادہ بھی ہے اور
عقل کی حد کو بھی واضح کرتا ہے۔
سوچنا انسانی فطرت ہے اور سوال کرنا علم کی بنیاد ہے۔ کسی بھی بات پر غور و
فکر کرنا ایک صحت مند عمل ہے، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری سوچ ہمیں
کس سمت لے جا رہی ہے۔ اگر کوئی سوچ ہمیں حق سے دور کر رہی ہے، دل میں بے
چینی، مایوسی یا بغاوت پیدا کر رہی ہے، یا اللہ کی قدرت پر شک ڈال رہی ہے،
تو یہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ شیطان کا طریقہ یہی ہے کہ وہ وسوسے ڈالتا ہے اور
غیر ضروری شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ لیکن ہر سوال شیطانی نہیں ہوتا،
بلکہ بعض سوالات تحقیق اور سیکھنے کی جستجو کا حصہ ہوتے ہیں۔
اگر ایک بچہ یہ سوچ رہا ہے کہ حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں زندہ کیسے رہ
سکتے تھے اور اسے یہ ناممکن لگ رہا ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ یہ سوچ شیطانی
ہو۔ یہ ایک فطری سوال ہے جو تجسس کی علامت ہے۔ ایسے سوالات پر ڈانٹنے یا
روکنے کے بجائے، ان کا مثبت اور حکمت سے جواب دینا ضروری ہے۔ بچے کو یہ
سمجھایا جا سکتا ہے کہ عام حالات میں انسان مچھلی کے پیٹ میں زندہ نہیں رہ
سکتا، لیکن حضرت یونسؑ کا یہ واقعہ ایک معجزہ تھا، اور معجزات اللہ کی قدرت
سے ہوتے ہیں، جو انسانی منطق سے بالاتر ہو سکتے ہیں۔ قرآن میں کئی معجزات
کا ذکر ہے جو عام انسانی تجربے سے مختلف ہیں، لیکن اللہ کی قدرت پر ایمان
رکھنے والے انہیں تسلیم کرتے ہیں۔
اگر کسی سوچ میں تجسس ہے اور وہ علم کی تلاش کا ذریعہ بن رہی ہے، تو یہ
جستجو کہلائے گی، لیکن اگر وہ ضد، انکار، یا بغاوت میں بدلنے لگے تو پھر
محتاط رہنا ضروری ہے۔ بچوں کی سوچ کو درست سمت میں موڑنے کے لیے ضروری ہے
کہ ان کے سوالات کو محبت، حکمت اور دلیل کے ساتھ سنا جائے اور انہیں علم
اور ایمان کی روشنی میں تسلی بخش جواب دیا جائے تاکہ ان کی سوچ تعمیری اور
مثبت رخ اختیار کرے۔
1.
.سوال کرنا منع نہیں، سوال کا صحیح جواب دینا ضروری ہے!
2.
.بچوں کے سوالات دبائیں نہیں، انہیں سمجھائیں
3.
.علم کی جڑ تجسس ہے، بچوں کو سوچنے دیں
4.
سوالات روکیں گے تو سوچ رک جائے گی۔
5.
بچوں کے سوالات کا دروازہ بند نہ کریں، علم کا راستہ کھولیں۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟ |