ایک دن سہ پہر کو بالکونی میں کافی دیر سے رنگین
ماہنامہ(اخبار جہاں) پڑھنے میں منہمک تھا کہ اچانک ایک جانی پہچانی آواز
ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہوئی میرے کانوں تک پہنچی۔ متجسس ہونے پر رسالے کو
ایک طرف رکھ کر سیڑھیاں اترنے لگا تو معلوم ہوا کہ یہ آواز سعدیہ کی تھی۔
سعدیہ کی نظر مجھ سے دو چار ہوتے ہی شرمائی۔ اپنے آنچل سے آفتابی چہرہ چھپا
کر جھک کے زمین کو تکنے لگی اور بہن کے ساتھ محو گفتگو رہی۔ بہر کیف، سعدیہ
کی اجنبیت اور سرد مہری دیکھ کر میں ماضی کے دھندلکوں میں مبہوت کھڑا تھا۔
بچپن کی حسین یادوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر موجوں کے دوش بہ دوش چل رہا
تھا اور ماضی کی تمام یادیں ایک ایک ہوکے میری نظروں سے گزرنے لگیں۔ جب ہم
محلے کے لڑکے اور لڑکیاں سب مل کر شام دیر تک چھپن چھپائی کھیلتے، اکھٹے
سکول جاتے اور حتی کہ ایک ہی کلاس میں پڑھتے، تب ہمارے بیچ اجنبیت کی کوئی
گزر نہیں تھی۔ مگر اب ۔۔۔۔ میں انہی خیالوں میں موجزن تھا کہ اچانک میری
نظر سعدیہ کے آفتابی گول چہرے پر لگی اور سعدیہ کے حسین مکھڑے پر داغ،
چھائیاں اور سیاہ دھبے (جیسا کہ نیلے آسمان کو کالی گھٹاؤں نے گھیر لیا ہو)
دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ گیا۔ کیوں کہ سعدیہ محلے کی خوب صورت لڑکیوں میں
سے ایک تھی۔ مجھے ان سیاہ دھبوں سے سخت نفرت ہے۔ میں نے ایک سرد آہ بھری
اور بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا: "سعدیہ تم ان چھائیوں، مہاسوں اور
سیاہ دھبوں کا علاج کسی معالج سے کیوں نہیں کراتی؟"
سعدیہ میری طرف رخ کرتی ہوئی انتہائی روانی سے بولی: " ذیشان! ہر مرض کا
علاج ڈاکٹر سے نہیں ہوتا، کچھ بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پورے سماج
کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے۔"
میں نے پوچھا: " سعدیہ! یہ بھی کوئی منطق ہے؟" سعدیہ کچھ کہے بغیر اپنی بہن
کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر ہولیں۔ میں کافی دیر تک ان گتھیوں کو
سلجھانے میں مصروف تھا کہ سعدیہ کو ہوا کیا ہے۔ آخر میں نے یوں ہی سوچا کہ
شاید کزن کے ساتھ ارینج میرج راس نہ آئی ہو۔ کافی دن گزر گئے۔ میں نے سعدیہ
سے جڑی تمام یادوں کو بھلانے کی کماحقہ کوشش کی۔ میں بہت کچھ بھول پایا،
سوائے اس جملے کے ۔۔۔۔ " کچھ بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پورے سماج
کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے۔"
اب میں جب بھی جوان لڑکیوں کے چہروں پر سیاہ دھبے دیکھتا ہوں تو مجھے سعدیہ
کا کسا ہوا جملہ بے ساختہ یاد آ تاہے۔ مجھے اس طرح کے سیاہ دھبوں کی طبی
وجوہات سے کوئی سروکار نہیں۔ سماجی سائنس کے ایک طالبِ علم ہونے کے ناتے
میں اسے غذائی قلت، حیاتین کی کمی یا دیگر جسمانی بیماریوں کی وجہ نہیں
سمجھتا، بلکہ بادی النظر میں اس طرح کے خوب صورت چہروں پر ان سیاہ دھبوں کو
میں ظالمانہ روش، احساس محرومی، خود ساختہ سماجی بندشوں اور عورت دشمن
فیصلوں کی گہری چھاپ کا پرتو سمجھتا ہوں۔
ستمبر کی پچیسویں اور عید بقر کا دوسرا دن تھا۔ عید کا پہلا دن جو اکثر
وبیشتر قربانی سے بری الزمہ ہونے میں بیت جاتاہے، اور دوسرے دن کو ہم سب
گھر والے عزیز و اقارب سے بغل گیر ہو کر مبارک باد دینے، انواع و اقسام کے
کھانوں سے مہمانوں کی خاطر تواضع میں پیش پیش ہوتے ہیں اور زرق برق کپڑوں
میں ملبوس ہوتے ہیں۔ اس دن کو امی جان، بہنیں اور تائی جان سمیت سب کچن میں
روایتی کھانے پکانے میں کچھ زیادہ مصروف ہوتی ہیں۔ محلے کے ننھے لڑکے اور
لڑکیاں گھر گھر جا کر پلاسٹک کے تھیلوں میں مٹھائی بسکٹ،کھجور اور عیدی جمع
کرتے ہیں۔ گاؤں کے تمام بڑوں نے ہر سال کی طرح اس دن کو بھی تایا جان (
عدنان چاچا ) کے بیٹھک میں کھانا تناول کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ اس دن سارے
گاؤں کے بڑے اکھٹے ہو کر تمام درپیش مسائل اور گاؤں میں بڑھتے ہوۓ جرائم پر
خوب بحث کرتے ہیں، اور ان کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں بروئے کار لاتی ہیں۔
اس دن کھانا کھانے کے بعد بیٹھک میں مسجد کے پیش امام اور چرواہے کی تنخواہ
میں اضافے کے حوالے سے بحث خوب گرم تھی کہ علم دین چاچا انتہائی حواس
باختگی کے عالم میں بھیٹک کے اندر داخل ہوا۔ شرکائے مجلس نے علم دین چاچا
کے چہرے پر گھبراہٹ دیکھا تو ہکا بکا رہ گئے۔ چاچا نے بڑبڑاتے ہوئے اطلاع
دی کہ عدنان صاحب کے بیٹے دلبر ایک لڑکی کا ہاتھ تھامے ہوئے تور غر کے
پتھریلی راستے سے ہوتا ہوا پاس گاؤں کی طرف فٹافٹ بھاگ رہا تھا۔ محفل
نامعلوم مدت تک برخاست ہوگئی۔
پورے گاؤں میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سارے لوگ اپنی بیٹیوں کی
خیر خبر لینے گھر چلے گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد پتہ چلا کہ دلبر ، جمعہ خان کی
بیٹی عفت کو ساتھ لے کر بھاگ گیا ہے۔ سارے لوگ لڑکے اور لڑکی کی تلاش میں
نکل گئے۔ عفت کے والد جمعہ خان نے بھی کندھے پر لمبی بندوق تھام کر اپنی
بیٹی کی تلاش میں نکلا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا۔ گھر والوں
نے انھیں بندوق کو ساتھ نہ لے جانے کی بہت منت سماجت کی مگر وہ اپنی ضد پر
اڑے رہے۔ جب نزدیکی پہاڑیوں پر تلاش کے بعد کچھ نہ ملا اور ہر طرف تاریکی
چھا گئی تو سب بے نیل مرام واپس گھروں کی طرف ہو لیے۔
اگلی صبح گاؤں والے پھر دونوں کی تلاش میں نکلے ہی تھے کہ ماسٹر عدنان کے
بیٹھک کے عین سامنے سفید رنگ کے لینڈ کراوزر سے ملک شہباز خان نیچے اترا۔
ملک صاحب نے ماسٹر عدنان اور جمعہ خان دونوں کو بلا کر کہا: "دلبر اور عفت
کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، وہ دونوں میری پناہ میں ہیں۔کل نہ
پرسوں آپ دونوں اور معززین سمیت میرے حجرے تشریف لائیں تاکہ اس بابت میں
اپنا حتمی فیصلہ سناوں۔ ملک صاحب نے ماسٹر عدنان کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا:
"آپ بہ طورِ حفظ ماتقدم دس لاکھ نقدی اور چار، پانچ فربہ دنبوں کا بندوبست
بھی کرلیں۔" ( نقدی کا تذکرہ سنتے ہی جمعہ خان کے منہ سے رال ٹپکنے لگا اور
ان کا غصہ ریت کے ذروں کی مانند ہوا میں اڑنے لگا)۔
اگلے دن ماسٹر عدنان (پانچ فربہ دنبوں اور نقدی کے ساتھ) معززین سمیت ملک
شہباز خان کے حجرے میں تشریف فرما تھے۔ وہاں پہلے ہی سے بہت معززین موجود
تھے۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ ممکنہ فیصلے کے مطابق سرگوشیاں کر رہے تھے۔ چند
ثانیوں میں ملک صاحب نے اپنی آمد کا شرف بخشا اور اپنے مسند پر جلوہ افروز
ہوا۔ یکایک حجرے میں سناٹا چھا گیا۔ ملک صاحب کے حکم کے مطابق دلبر کو
بلایا گیا اور سب معززین کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ بعد میں دو معمر
زیرک افراد کے ذریعے لڑکی کا ریکارڈ کردہ بیان سارے شرکاء سے گوش گزار
کرایا۔ آخر میں ملک صاحب گویا ہوئے: " معززین! آیندہ میں ایسے ناپسندیدہ
واقعات کے سدباب کے لیے اور لڑکی کے والد جمعہ خان کی خاک میں پیوند شدہ
عزت کی تلافی کے لیے دلبر کے باپ عدنان صاحب پر دس لاکھ روپے جرمانہ لگانے
کا، اور لڑکی کی نسبت دلبر کے ساتھ طے کرنے کا حتمی اعلان کرتا ہوں۔ اور
ساتھ ساتھ میں بہ طورِ ونی ماسٹر عدنان کی اکلوتی کم سن بیٹی (رضیہ) کا
رشتہ جمعہ خان کے دوسرے بیٹے ندیم کے ساتھ طے کرنے کا حکم بھی دیتا ہوں۔"
جمعہ خان نے اپنی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں دیکھ کر، للچائی
نظروں سے ملک صاحب کی طرف دیکھا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ دریں اثنا عدنان
صاحب کی نظر میں جمعہ خان ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک مسکین کتے کی طرح
ملک شہباز خان کے تلوے چاٹ رہا ہو۔
عدنان صاحب نے ملک صاحب کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوۓ کھڑے ہوکر کہا: "ملک
صاحب! عینی شاہدین اور گواہوں کے قلم بند شدہ بیانات کے مطابق جمعہ خان کی
بیٹی عفت پورے ہوش و حواس کے ساتھ اپنی مرضی سے میرے بیٹے دلبر کے ساتھ
شادی کرنے کے لیے بھاگ گئی ہے۔ اس معاملے میں مجھ پر بھاری جرمانے کی
عایدگی اور میری کم سن بیٹی کا رشتہ بہ طور ونی جمعہ خان کے بیٹے کے ساتھ
طے کرنا سراسر غیر قانونی اور غیر شرعی ہے۔ میاں بیوی راضی، کیا کرے گا
قاضی۔ ملک صاحب بہ صد احترام، مجھے یہ ظالمانہ فیصلہ منظور نہیں۔"
ملک شہباز خان طیش میں آکر آسمانی بجلی کی طرح کڑکتے ہوئے بولے: " عدنان!
تم ہوتے کون ہو میرے فیصلوں سے اختلاف کرنے والا؟ تم میرے غضب کو دعوت دے
رہے ہو۔ تم کس قانون کا راگ الاپ رہے ہو؟ میرے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ بہ
ذات ِخود قانون ہے۔ دو ٹکے کا سرکاری نوکر۔ خاموش ہو جاؤ۔ یہ میرا حتمی
فیصلہ ہے!"
فیصلہ ہو گیا۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف سدھار گئے۔
چند مہینوں بعد جمعہ خان عدنان صاحب کے گھر تشریف لے گئے اور عدنان صاحب کو
رضیہ اور اپنے بیٹے ندیم کی جلد شادی کرنے کے حوالے سے آگاہ کردیا۔ عدنان
صاحب نے جمعہ خان کی بہت منت سماجت کی کہ نہیں معلوم میری بیٹی رضیہ نے
بلوغت کی دہلیز پر ابھی تک قدم رکھا بھی ہے یا نہیں؟ لیکن جمعہ خان نے
عدنان صاحب کی تمام باتوں کو ان سنی کر دی۔ یوں ایک مہینے کے اندر اندر
جمعہ خان کے بیٹے ندیم کی شادی ایک کم سن رضیہ کے ساتھ ہوگئی۔
بہت جلد عدنان صاحب کو اپنی بیوی کے ذریعے رضیہ کی امید سے ہونے اور ماں
بننے کی خبر ملی۔ وہ اپنی بیٹی رضیہ کے تاریک مستقبل کے حوالے سے ہر وقت
پریشان رہتے، کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ رضیہ کے ناتواں جسم میں اس
بوجھ کو اٹھانے اور ماں بننے کی سکت قطعاََ نہیں ہے۔
وقت گزرنے کے بعد باپ کا خدشہ اس وقت صحیح ثابت ہوا جب انھیں خبر ملی کہ
رضیہ پیدائشِ اولاد کے سلسلے میں گزشتہ کئی دنوں سے گائنی وارڈ میں داخل
ہے۔ اس ناخوش گوار خبر سننے کے بعد جب ہم سب، تایا اور تائی جان سمیت
اسپتال پہنچے، تو رضیہ درد ذہ کی تاب نہ لاتے ہوئے ٹھنڈی پڑ چکی تھی اور اس
کا نومولود بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔ رضیہ
نہایت کس مپرسی کی حالت میں بسترِ مرگ پر پڑی تھی۔ اس کے مرجھائے ہوئے
نارنجی چہرے پر بے شمار چھائیاں اور ان گنت سیاہ دھبے دیکھ کر مجھے سعدیہ
کے کہے گئے فلسفیانہ جملے کی بازگشت ایک بار پھر فوراً سنائی دی کہ:
" کچھ بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پورے سماج کو تیزاب سے غسل دینے کی
ضرورت ہے"
|